ایمان افروز
شیئر کریں
ایم سرور صدیقی
آج ہم بہت سے مسائل سے اس وجہ سے بھی دوچارہیں کہ زیادہ تر بھیڑ چال کا شکار ہیں کبھی فرصت ملے تو ذرا اپنے دل کو ٹٹول کر خودسے سوال کیجئے کہ کیا ہم اکثریت کے پیچھے چل رہے ہیں؟ اکثریت کی نقالی کرنے کے کیا فائدے یا نقصانات ہیں ذرا غورکریں!
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ بازار میں چل رہے تھے، وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو دعا کر رہا تھا "اے اللہ مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر، اے اللہ! مجھے اپنے چند لوگوں میں شامل کر”
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے اْس سے پوچھا، یہ دعا تم نے کہاں سے سیکھی؟ وہ بولا، اللہ کی کتاب سے، آخری الہامی کتاب قرآن میں ارشادہے: اور میرے بندوں میں صرف چند ہی شکر گزار ہیں۔ (القرآن 34:13)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ یہ سْن کر رو پڑے اور اپنے آپ کو نصیحت کرتے ہوئے بولے "اے عمر ! لوگ تم سے زیادہ علم والے ہیں، اے اللہ مجھے بھی اپنے اْن چند لوگوں میں شامل کر۔” ہم میں سے بیشتر نے یہ مشاہدہ بھی کیا ہوگاکہ جب ہم کسی شخص سے کوئی گناہ کا کام چھوڑنے کا کہتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ یہ اکثر لوگ کرتے ہیں۔ میں کوئی اکیلا تو نہیں۔ اب آپ قرآن پاک میں "اکثر لوگ سرچ کریں تو ” معلوم ہوگا کہ اکثر لوگوں کے بارے میں کئی آیات میں تذکرہ ہے۔ "اکثر لوگ نہیں جانتے”(7:187) ۔ "اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے”(2:243) "اکثر لوگ ایمان نہیں لائے”(11:17)
اگر آپ "زیادہ تر” کو سرچ کریں، تو آپ کو یقینا اس بات کا ادراک ہوجائے گا کہ زیادہ تر لوگوںکے بارے میں جو کہاگیا ہے وہ انتہائی خوفناک ہے۔ اس لئے اس بات پر اصرار نہ کریں کہ زیادہ ترجو لوگ کررہے ہیں ہم بھی کریں قرن حکیم میں تو جابجا یہ کہا گیا ہے کہ "زیادہ تر شدید نافرمان ہیں”۔ (5:59) "زیادہ ترجاہل ہیں” (6:111) ۔ "زیادہ تر راہ راست سے ہٹ جانے والے ہیں۔” (21:24) ۔ "زیادہ ترسوچتے نہیں۔” (29:23) "زیادہ تر سنتے نہیں” (8:23) ۔ ا س لئے ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہماراشمار ایسے لوگوںمیں نہ ہو بلکہ اپنے آپ کو ان ”چند لوگوں ” کی فہرست میں شامل کرنے کی سعی کرناہوگی جن کے بارے میں اللہ تبارک تعالیٰ نے واضح فرمایاِہے : "میرے تھوڑے ہی بندے شکر گزار ہیں”(34:13) "اور کوئی ایمان نہیں لایا سوائے چند کے”(11:40)۔ "مزے کے باغات میں پچھلوں میں زیادہ ہیں اور بعد والوں میں تھوڑے”۔ (56:12ـ14) ۔ اس لئے ان چند لوگوں میں اپنے آپ کو شامل کریں اور اس کی پرواہ نہ کریں کہ اورکوئی اس راستے میں نہیں اور آپ اکیلے ہیں نیکی کی ترغیب کرتے رہیں، بے شک آپ تعدادمیں تھوڑے ہی کیوںنہ ہوں۔
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے زمانے میں ایک ہِندو پنڈت نے ایک اعلان کیا کہ ہندو مذہب سچا مذہب ہے اور اسلام جھوٹا مذہب ہے اور دلیل اس نے یہ پیش کی کہ ہمارا فلاں مندر جو دو ہزار سال سے بنا ہوا ہے۔ آج تک بالکل صحیح سالم ہے، اس کی دیواریں کھڑکیاں دروازے غرض سب کچھ ویسے کا ویسے آج تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں، جبکہ مسلمانوں کی مساجد کو ایک سال بھی نہیں گزرتا کہ رنگ روغن در و دیوار دروازے کھڑکیاں سب کچھ خراب ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام مٹنے والا ہے (نعوذباللہ) اور ہندو مت باقی رہنے والا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اس پروپیگنڈا کا جواب دینے میں ناکام رہی اور اس کی وجہ سے لوگ بہت شش و پنج میں مبتلا ہو گئے کہ اس پروپیگنڈا کی روک تھام کیسے کی جائے۔ ایسے میں حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمتہ اللہ علیہ آگے آئے، اور اْ نہوں نے اعلان کیا کہ اس کا جواب میں دوں گا،پنڈت نے اتراتے ہوئے کہاکیا جواب ہے آپ کے پاس ۔پورے ہندوستان میں کوئی جواب نہ دے سکا یہ مسلا کیا جواب دے گا۔ ہونہہ!
حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے کہا کہ ایسے نہیں میں اْسی مندر کے دروازے پر جواب دوں گا۔ لہٰذا ایک وقت مقرر ہوگیا ۔سب بے چینی سے انتظارکرنے لگے۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کے سب اشتیاق سے مقررہ وقت پر جمع ہو گئے کہ دیکھئے حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کیا جواب دیتے ہیں، حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی مندر کے صدر دروازے پر کھڑے ہو گئے۔اور! قرآن کی آیت ترجمہ (اگر اللہ تعالی اس قرآن کو پہاڑ پر بھی نازل کر دیتے تو وہ پہاڑ بھی اللہ تعالی کے جلال سے ڈر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا)۔ آپ نے اس آیت کی تلاوت شروع کردی جوں جوں وہ پڑھتے جاتے اور مندر کے در و دیوار دروازوں کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے جاتے مندر کی دیواریں گرنا شروع ہوگئیں،دروازے زمین بوس ہونے لگے ا اللہ تعالی نے آپ کے ہاتھ پراپنے دین کی حقانیت کی کرامت ظاہر کر دی اور مسلمانوں نے جوش میں اللہ اکبر کے نعرے لگاناشروع کردیے ،ہندو سکھ عیسائی حیران پریشان ہوکر یہ مناظردیکھ رہے تھے۔ کئی ایک کو یقین نہ آیا، انہوں نے اپنے ہاتھوں سے چٹکیاں لیں۔ پنڈت بھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے حیرت زدہ رو گیا ۔اس پر بھی اسلام کی حقانیت ظاہرہوگئی۔ وہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے قدموں میں گر گیا، اور کہا بس کریں بہت ہو گیا، لیکن اس کی حقیقت تو بتا دیں کہ یہ کیا ہوا؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالی آخری الہامی کتاب میں فرماتا ہے کہ قرآن اگر پہاڑ پر نازل کر دیتے تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتا پھر اس مندر کی کیا مجال ۔یہ اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ۔یہ تو مسجد کی عظمت ہے کہ، اس میں روزانہ قرآن پڑھا جاتا ہے، پھر بھی اپنی جگہ پر کھڑا رہتا ہے۔
٭حضرت طاؤس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک انتہائی امیر شخص نے منت مانی کہ میں پریشانی سے چھٹکارا پالوںتو اگلے روزمیری سب سے پہلے جس پر نظر پڑے گی میں اس کو اتنی رقم صدقہ کروں گا۔ اتفاق سے سب سے پہلے ایک عورت ملی ۔مالدار شخص نے اس کو صدقہ کا مال دے دیا ۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑی بْری عورت ہے۔ فاحشہ ہے فاحشہ تم نے کس کو اتنے پیسے دے دیے ۔یہ تو صدقہ قبول نہیں ہوگا۔ امیرآدمی نے لوگوں کی باتوںسے تنگ آکر سوچا اس عورت سے پیسے وپس مانگنا تو انتہائی معیوب ہے ۔پھر دل ہی دل میں ارادہ کرلیا کہ کل جب میں فجرکی نمازکے لیے گھر سے نکلوںتو جو مجھے سب سے پہلے علیک سلیک کرے گا میں اسے صدقہ دوںگا۔ اگلے روز امیرآدمی صبح کی نماز پڑھنے کیلئے مسجد جانے لگا راستے میں ایک شخص نے اسے السلام علیکم کہا۔ حال احوال پوچھا امیر آدمی نے ڈرتے ڈرتے اسے ساری بات سنائی کہ میں نے منت مانی تھی ،مجھے جو شخص سب سے پہلے نظر آئے گا،میں اس کو صدقہ دوں گا۔ میری مشکل حل کریں تو یہ رقم قبول کرلیں۔۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بدترین شخص ہے چور،بدقماش اور بری شہرت والا آپ نے کس کو رقم تھمادی۔ کسی غریب کو دیتے ا س کی مدد بھی ہوجاتی ۔امیرآدمی نے کہا وہ شخص تو رقم لے ہی نہیں رہاتھا۔میرے اصرارپر اس نے بادل نخواستہ قبول کی۔ میری غیرت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں اس سے پیسے واپس مانگوں۔ میرے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے میں کل پھر صدقہ کردیتاہوں امیر آدمی اگلے روز پھر گھرسے نکلا ۔اس نے دیکھا ایک شخص سردی کے باوجود معمولی کپڑے پہنے ہوا تھا اسے بڑا ترس آیا اس نے سوچا معلوم نہیں یہ حقداربھی ہے یانہیں بہرحال مجھے آج سب سے پہلے نظر آیا اس پر صدقہ کیا۔ ۔۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑا مالدار شخص ہے لیکن انتہائی کنجوس شخص اپنے اور اپنے بیوی بچوںپربھی کچھ خرچ نہیں کرتا۔ صدقہ کرنے والے کو بڑا رنج ہوا۔ کچھ دنوں بعد امیرآدمی نے خواب میں دیکھا کہ اللہ جل شانہ نے تیرے تینوں صدقے قبول کر لئے ہیں۔ ایک نورانی صورت والے بزرگ کہہ رہے تھے جسے تونے پہلے روز صدقہ دیاتھا ۔عورت فاحشہ عورت تھی لیکن محض ناداری کی وجہ سے اس نے یہ فعل اختیار کر رکھا تھا۔ جب تو نے اس کو مال دیا اس نے برے کاموںسے توبہ کرلی ان پیسوںسے کپڑاخریداجو وہ گھرگھرجاکر بیچنے لگی۔ دوسرا شخص چور تھا اور وہ بھی تنگ دستی کی وجہ سے چوری کرتا تھا۔تیرے مال دینے پر اس نے اس قبیح کام کو چھوڑدیا۔ فروٹ کا ٹھیلہ لگاکراپنے گھروالوں کی کفالت کرنے لگا۔ تیسرا شخص مال دار تھا اور کبھی صدقہ نہ کرتا تھا۔ حتیٰ کہ اپنے آپ اور اپنے بیوی بچوںپربھی کچھ خرچ تیرے صدقہ کرنے سے اس کو عبرت ہوئی اور اس کی کایا پلٹ گئی کہ میں اس سے زیادہ مال دار ہوں۔ اس لئے زیادہ صدقہ کرنے کا مستحق ہوں۔ اس نے گھروالوںکی ضروریات کا خیال رکھناشروع کردیا۔ اب اس کو صدقہ کی توفیق ہوگئی۔
٭٭٭