کراچی والوں کو کے الیکٹرک والے بھاشن نہ دیں، چیف جسٹس
شیئر کریں
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی میں لوڈشیڈنگ، کرنٹ لگنے سے لوگوں کی ہلاکتوں پر کے الیکٹرک پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کے الیکٹرک والے کراچی والوں کو بھاشن مت دیں۔آپ کو پتا ہے جب بجلی بند ہوتی ہے تو چھوٹے گھروں میں کیا حال ہوتا ہے؟ عورتیں دہائی دیتی ہیں ان کا احساس ہے آپ کو؟اس پر سی ای او نے کہا کہ کراچی سے جتنا پیسا کماتے ہیں لگا دیتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک والے پوری دنیا میں ڈیفالٹر ہیں، لندن میں آپ کے ساتھ کیا ہوا؟ وہاں تو آپ لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور گردن سے دبوچ کر پیسے لیے گئے۔انہو ںنے تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اچھی طرح بات سن لیں کراچی کی بجلی بند نہیں کریں گے، بجلی بند کرنی ہے تو اپنے دفتر کی کریں۔شہر میں کرنٹ لگنے سے جتنی بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں، سب کے مقدمے میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے اور ان کا نام ای سی ایل میں بھی ڈالا جائے جبکہ کے الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے شہر قائد میں لوڈشیڈنگ، کرنٹ لگنے سے لوگوں کی اموات سمیت دیگر اہم معاملات پر سماعت کی، جہاں چیئرمین نیپرا اور کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز میں ہی کراچی میں لوڈشیڈنگ اور بجلی کے مسائل سے متعلق چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کو مشکلات ختم کرنے کے لیے بلایا تھا لیکن کے الیکٹرک نے مشکلات میں 100فیصد اضافہ کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ سب سے سستا اور ناقص مٹیریل استعمال کر رہے ہیں جبکہ سارا منافع باہر لے کر جارہے ہیں، اسٹیٹ بینک کو کہیں گے کہ ان کو منافع باہر لیکر جانے نہ دیں۔اسی دوران چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک سے مکالمہ کیا کہ 2023میں لوڈ شیڈنگ ختم ہوجائے گی، آپ کو یہ بیان دیتے ہوئے شرم نہیں آئیں؟جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ کسی تقریر کی اجازت نہیں دی جائے گی، آپ اپنا کام کریں، ہم نے جتنا اعتبار کرنا تھا کر چکے۔دوران سماعت شہر قائد میں کرنٹ لگنے سے ہونے والی ہلاکتوں کے معاملے پر عدالت نے کہا کہ جتنی بھی ہلاکتیں ہوئیں سب میں سی ای او کے الیکٹرک کا نام شامل کیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سی ای او کے الیکٹرک کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے اور کے الیکٹرک کا تفصیلی آڈٹ کروایا جائے، کے الیکٹرک نے کتنی تاریں لگائیں ہر قسم کا مکمل حساب لیا جائے۔انہوں نے کہا کہ کراچی والوں کی بجلی بند کرنے پر جتنا جرمانہ لگتا ہے لگائیں، کے الیکٹرک نے کراچی میں کچھ بھی نہیں کیا، پورے کراچی میں ارتھ وائر کاٹ دی ہیں، ان کے خلاف قتل کے کیس بنائیں، ساری انتظامہ کے خلاف مقدمہ دائر کریں، جہاں جہاں غفلت ہے مقدمات درج کیے جائیں۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بھی علاقے میں ایک منٹ بھی بجلی بند کریں تو نیپرا فوری نوٹس لیں۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ رات میں کراچی آیا، شارع فیصل کی پوری لائٹس بند تھیں، علاقے میں پورا اندھیرا تھا، لوگ گھروں سے باہر بیٹھے تھے۔چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک مونس علوی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ صرف باتیں کرتے ہیں، کام نہیں کرنا، تمام وصولیاں کراچی والوں سے کرلی گئی ہیں، کے الیکٹرک کا مکمل آڈٹ ہونا چاہیے تاکہ پتا چلے کہ کیا کمایا اور کیا حاصل کیا۔دوران سماعت چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ کے الیکٹرک کی انتظامیہ بہت خراب ہے، یہ لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔اس پر چیئرمین نیپرا نے موقف اپنایا کہ جب بھی ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں تو یہ عدالت سے حکم امتناع لے لیتے ہیں، ان پر ڈیڑھ کروڑ15 ملین کا جرمانہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ملین نہیں بلین (اربوں)کا جرمانہ کریں یہ لوگ تو ٹریلین (کھربوں)کما رہے ہیں۔جس پر چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ہم کوئی متبادل لانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ حکم امتناع لے لیتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے یہ کہا کہ ہم تمام حکم امتناع ختم کردیتے ہیں۔ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ ابھی جو 21 لوگ مرگئے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جس پر وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ لوگ گھروں کے اندر مرے ہیں، اس پر چیف جسٹس ریمارکس دیے کہ یہ تمام وضاحتیں غلط ہیں، بجلی کیا سڑکوں پر چلتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستانی لوگوں کو کچرا لوگ کہتے ہیں، جیسے آپ کے مالکان آپ سے برتائوکرتے ہیں آپ بھی کراچی والوں کو غلاموں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔عدالت نے کے الیکٹرک کی جانب سے سرمایہ کاری کے دعوے پر کہا کہ جتنی آپ نے سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ نقصان کیا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی کی کمپنی چلانی ہے تو ٹھیک سے چلائیں لیکن بجلی بند نہیں ہوگی۔اس پر کے الیکٹرک کے عہدیدار نے جواب دیا کہ میں خود کراچی کا ہوں یہیں پیدا ہوا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ(یہاں پیدا ہوئے ہیں) اور کراچی والوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے بھارت کے کیسز کی اسٹڈی کی ہے وہاں بورڈ ایسی کمپنیز کو ٹیک اوور کرلیتا ہے، انہوں نے سارا انفرااسٹرکچر تبدیل کردیا ہے، وفاق بھی ان کو بجلی دیتا ہے خود بھی پیدا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں سے پیسہ کما کر پوری دنیا میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، جس پر سی ای او کے الیکٹرک نے کچھ بات کرنے کی کوشش کی تو عدالت نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہاں تقریر مت کریں۔اپنے ریمارکس جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ یہ لوگوں کی جان نکال کر عدالتوں سے حکم امتناع لے لیتے ہیں، حکومت میں ان کی لابی چلتی ہوگی لیکن عدالت میں ان کی کوئی لابی نہیں چلے گی۔بعدازاں عدالت میں کے الیکٹرک کے سی او نے یہ بتایا کہ 2010 میں لائن لاسز 42 فیصد تھے جو کم ہوکر 26 فیصد رہ گئے ہیں، اسی پر چیئرمین نیپرا نے یہ کہا کہ کے الیکٹرک میں 25 فیصد پاکستانیوں کے شیئرز ہیں۔اس کے جواب میں سی ای او کے الیکٹرک نے یہ کہا کہ گزشتہ 3، 4 برسوں میں کسی ایک شیئر ہولڈرز کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا۔کے الیکٹرک کے سی ای او نے سماعت کے دوران کہا کہ کورنگی اور لیاری میں سرمایہ کاری کی ہے تاکہ لائن لاسز کم ہوں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جتنی سرمایہ کاری کی ہے اس سے زیادہ نقصان کیا ہے، ساری تانبے کی تاریں اتار کرلے گیے ہیں۔شہر قائد میں ہوئی اموات پر سی ای او کے الیکٹرک نے عدالت میں کہا کہ کرنٹ لگنے سے ہوئی ہلاکتوں کا ذمہ دار کے الیکٹرک نہیں ہے، جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ شہر میں کرنٹ لگنے سے سڑکوں پر بھی اموات ہوئی ہیں۔علاوہ ازیں عدالت نے چیئرمین نیپرا کو یہ ہدایت کی کہ کے الیکٹرک کو مکمل طور پر مانیٹر کریں، کسی علاقے میں ایک لمحے کے لیے بھی بجلی بند نہیں ہونی چاہیے۔عدالت میں جاری طویل سماعت کے دوران چیئرمین نیپرا نے کہا کہ ہر بندہ یہ کہتا ہے کہ کے الیکٹرک کو قومی تحویل میں لیں، میں خود آیا تاکہ عدالت کو خود زمینی حقائق اور حقیقت بتا سکوں، ، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے ادارے کے بھی زمینی حقائق بتائیں وہاں بھی حالات خراب ہیں۔عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے چیئرمین یپرا کا کہنا تھا کہ ہم نے 17، 18 شوکاز نوٹس بھی جاری کر دیے ہیں، جس پر وکیل کے ای نے کہا کہ ان شوکاز نوٹس کیلئے ٹربیونل نہیں ہے۔اس پر چیئرمین نیپرا نے کہا کہ نئے قوانین بن گئے ہیں اب کے الیکٹرک کا لائسنس منسوخ کرنے کا بھی اختیار مل گیا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بجلی بنانے کے دوسرے طریقوں پر کام کیوں نہیں کرتے؟، گاؤں، دیہات میں لوگوں نے سولر پلیٹیں لگا لی ہیں، لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں، سمندر زمین کی گرمی سے بجلی پیدا ہوتی ہے لیکن یہاں بجلی نہ ہونے سے ہماری صنعت بیٹھ گئی ہے۔سماعت میں چیف جسٹس نے کہا کہ بجلی بند کرنے کے بارے میں آپ کیا کہیں گے، آپ کو اس لیے نہیں لایا گیا کہ آپ یہاں لوڈ شیڈنگ کریں، آپ کو جتنی بجلی درکار ہے آپ خریدیں۔جس کے جواب میں سی ای او نے کہا کہ ہم لوڈشیڈنگ نہیں کرتے، سپلائی کے اندر شارٹ فال ہے، 900 میگا واٹ منصوبے کا پاور پلانٹ لگ رہا ہے، 700 میگا واٹ کا منصوبہ لگ رہا تھا، اگر حکومت نہ روکتی تو ابھی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی۔اس پر عدالت نے کہا کہ آپ نے 25 لاکھ ڈالر لگایا ہے، آپ کو کہا گیا ہے کہ یہاں کے لوگوں کو رگڑو، یہاں سے لوگ بیگ بھر کر باہر جاتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر لوڈشیڈنگ ہی کرنی تھی تو کے ای ایس سی میں چلیں جاتے ہیں پھر، آپ کو لانے کا مقصد کیا تھا، اگر آپ کو نقصان ہو رہا ہے تو چلے جائیں، ایک طرف کہہ رہے ہیں نقصان ہو رہا ہے دوسری طرف ابھی تک یہاں بیٹھے ہیں۔اس موقع پر ایک مرتبہ پھر چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک کو کہا کہ بجلی بند نہیں ہونی ہے، اس کے جواب میں مونس علوی نے یہ کہا کہ ہماری وفاقی حکومت سے بات ہو رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھوڑ دیں آپ وفاقی حکومت کو آپ کمپنی ہے خود بتائیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے آپ نے کیا کیا ہے، 10 سال سے جو کچھ آپ نے کیا ہمیں معلوم ہے۔اس پر سی ای او نے بتایا کہ آئندہ 5 برس میں 500 میگا واٹ بجلی کی فراہمی ہوگی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی تجارتی شہر ہے یہاں پر تو لوڈ شیڈنگ بالکل بھی نہیں ہونی چاہیے۔شہر کے ایک علاقے سے متعلق بات کرتے ہوئے سی ای او کے الیکٹرک نے کہا کہ لائنز ایریا میں جانے سے ڈرتے ہیں، ہمارے لوگوں کو باند کر پول سے باندھا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی پیسے نہیں دیتا تو آپ صرف اس کے گھر کی بجلی بند کریں، آپ کو یہ اختیار نہیں کہ آپ کالونی کی بجلی بند کردیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اوپر ہوائی جہاز سے دیکھتے ہیں تو پورا شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ہے، جہاں میں رہتا ہوں وہاں روزانہ 5 گھنٹے بجلی جاتی ہے، اس پر سی ای او نے کہا کہ میں ابھی چیک کرواتا ہوں، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔وقفے کے بعد جب سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک سے مکالمہ کیا کہ آپ کو لوڈ شیڈنگ کرنے کا اختیار نہیں، بجلی کی کمی ہے تو خریدیں اور لوگوں کو دیں۔ساتھ ہی بینچ کے رکن جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آپ شارٹ فال کور کرنے کیلئے بجلی پیدا کریں۔مزید برآں چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو لوڈشیڈنگ کے لیے نہیں لایا گیا، آپ غریبوں کو 20، 20 ہزار کا بجلی کا بل بھیجیں گے؟ آپ کے مالک جو باہر بیٹھے ہیں ان کا سوچ رہے ہیں؟ جس پر سی ای او کے الیٹرک نے یہ کہا کہ ہم کوئی پیسہ باہر نہیں بھیجتے آپ ریکارڈ دیکھ لیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سب انڈر ہینڈ ہوجاتا ہے، بیگ بھر بھر کے یہاں سے پیسہ چلا جاتا ہے۔دوران سماعت فریق کے وکیل ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ انہوں نے ہر چیز مفلوج کردی ہے، تفصیلی تفتیشی رپورٹس موجود ہیں جبکہ کمپنی کو شنگھائی الیکٹرک کو فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر بجلی چوری ہوتی ہے تو پورے علاقے کو سزا دینا کون سا انصاف ہے، جس پر چیف جسٹس بولے کہ جس قسم کی سروس ہوگی ویسا ہی رسپانس ہوگا۔اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ ان کے سامنے وفاقی اور صوبائی حکومت بے بس ہیں، کچھ تو جادو ہے ان کے پاس، جس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ پھر کچھ انڈر دی ٹیبل ہوتا ہوگا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کورونا کی وجہ سے بازار، کاروبار بند تھا پھر بھی اتنی بجلی جارہی تھی، میرے پاس تو موبائل پر میسج(پیغام) آجاتا ہے کہ 3 سے 4 دفعہ بجلی بند ہورہی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے پاس بجلی ہے نہ پانی، عجیب حال ہے، جب گھر میں سکون نہیں ہوگا تو کیسے لوگ خود کو قرنطینہ کریں گے۔اس دوران چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ ہم نے نئے کمپنیز کو بجلی پیدا کرنے کی اجازت دی تو کے الیکٹرک نے عدالت سے حکم امتناع لے لیا۔اس پر عدالت نے نیپرا کی کارروائی کے خلاف سندھ ہائیکورٹ کے جاری کردہ حکم امتناع کی تفصیلات طلب کرلیں۔عدالت نے کہا کہ کے الیکٹرک کی درخواستوں پر دیے حکم امتناع کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ساتھ ہی عدالت نے اٹارنی جنرل کو کے الیکٹرک سے متعلق ٹریبیونلز فعال کرنے کے لیے اقدامات کی ہدایت کردی۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ اب اگر کرنٹ لگنے سے کوئی ہلاکت ہوئی تو مقدمہ کے الیکٹرک کے سی ای او اور دیگر حکام کے خلاف درج ہوگا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک سے جمعرات تک مکمل ٹائم لائن طلب کرلی، اس کے ساتھ ہی 13 اگست سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے سے متعلق بھی پالیسی طلب کرلی۔عدالت نے حکم دیا کہ بجلی پیدا کرنے کی استعداد، موجودہ پیداوار اور طلب کی تفصیلات بھی پیش کی جائیں۔