میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
عام انتخابات اب دورنہیں!

عام انتخابات اب دورنہیں!

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۲ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

عوام کے اذہان میں یہ خیال قوی ترہورہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات معینہ مدت پر ہونے کی بجائے آئندہ برس تک التواکا شکار ہو سکتے ہیں۔ چند ماہ قبل تک ایسے خیالات کے حامی حکومتی حلقے بھی رہے۔ قومی اسمبلی میں نام کی حدتک قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض بھی ایسی تجاویز کے یہ کہتے ہوئے حمایتی کھائی دیے کہ قومی اسمبلی کی معینہ مدت میں ایک سال کی توسیع کے لیے اگر قرارداد پیش کی گئی تو اپوزیشن تعاون کرے گی لیکن کیا عملی طورپر ایسا ممکن ہے؟ آئینی ماہرین اِس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہیں کیونکہ آئین میں ایسی کسی کوشش کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ ہنگامی حالات میں کیونکہ آئین معطل ہوتاہے اِس لیے کچھ بھی ممکن ہے مگر اِس وقت ملک میں نام کی حدتک سہی بظاہر جمہوری اِدارے کام کررہے ہیں۔اِس لیے ہنگامی حالات کا سہارا لینااور غیر آئینی فیصلے کرنا کسی طورممکن نہیں دوسری صورت یہ ہے کہ حکومت،الیکشن کمیشن اور مقتدر قوتیں عام انتخابات کے لیے عدمِ تعاون کی پالیسی اختیارکرلیں جیساکہ پنجاب میں انتخابات کرانے سے متعلق سپریم کورٹ کافیصلہ آنے کے باوجودعدمِ تعاون کی روایت قائم کی جا چکی جس کے نتیجے میں نہ صرف نگران حکومت نوے دن گزرنے کے باوجود ہنوزکام کررہی ہے بلکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے سے انکار کے باوجود عدلیہ کسی نوعیت کی کاروائی سے قاصر ہے لیکن اب حالات عام انتخابات کی طرف جاتے محسوس ہوتے ہیں۔ اسمبلی مدت پوری ہوتے ہی نگران حکومت بنانے اور عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونا بعید ازقیاس نہیں رہا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں ۔
اِس میں شائبہ نہیں کہ ملک کی معاشی حالت دگرگوں ہے مزید قرض لیے بغیر دیوالیہ ہونے سے بچنابہت مشکل ہے کافی تگ ودو کے بعدآئی ایم ایف کی طرف سے ابتدائی رضامندی سے تین ارب ڈالر مزید قرض ملنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے مگرحتمی منظوری بارہ جولائی کو ہونے والے ایگزیکٹوبورڈ میں دیے جانے کا امکان ہے، تاہم حتمی منظوری سے قبل آئی ایم ایف کے وفد نے کئی سیاسی جماعتوں سے اُن کا نقطہ نظر جاننے کے لیے ملاقاتیں کیں۔ اِس حوالے سے عمران خان سے بھی زمان پارک میں ملاقات کی گئی جس میں انھوں نے حقیقت پسندی اور زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت کی اور ملاقات میں شفاف انتخابات کامطالبہ دہرایا ۔ملاقات کے دوران ملنے والی تائیدکوقرض کے حوالے سے انتہائی اہم تصورکیا جارہا ہے ممکن ہے ملاقات کی وجہ ماضی میں پی ٹی آئی کی طرف سے وہ خط ہو جس میں آئی ایم ایف کو قرض دینے سے منع کیاگیا میرے خیال میں سب سے اہم تین ارب ڈالر دینے کا طریقہ کارہے۔ قرض کی اقساط دینے کی ایسی ترتیب بنائی گئی ہے جس کے تناظر میں عام انتخابات کی طرف جانے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں۔ تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب موجودہ حکومت رواں ماہ جولائی ،ایک ارب نگران حکومت جبکہ ایک ارب عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی حکومت کو ملنے ہیں اگراسمبلی مدت مکمل ہونے کے باوجود برقرار رہتی ہے تو دوراب ڈالر ملنے مشکلات پیش آسکتی ہیں جن کا موجودہ معاشی حالات میںملک متحمل نہیں ہو سکتا، اسی بنا پر فہمیدہ حلقے اب قدرے وثوق سے کہنے لگے ہیں کہ عام انتخابات کی طرف جانا حکومتی مجبوری ہے حکومتی جلدبازیوں سے واضح ہونے لگا ہے کہ عام انتخابات اب زیادہ دورنہیں رہے بلکہ کسی وقت بھی انتخابی نقارہ بج سکتاہے ۔
حکومت نے بجٹ میں مختص ترقیاتی حصے کا نصف صرف تین ماہ یعنی جون ،جولائی اور اگست میں نہ صرف خرچ کرنے کامنصوبہ بنایا ہے بلکہ اِس حوالے سے بھاری رقوم بھی تقسیم کی جانے لگی ہیں ن لیگ اور پی پی کے مابین اِس حوالے سے بظاہر کھینچاتانی ہے مگر اندرکھاتے کامل اتفاق ہے دونوں جماعتوں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ ترقیاتی رقوم ایسے شہری اور دیہی حلقوں میں خرچ کی جائیں جہاں پی ٹی آئی بہتر پوزیشن میںہے یہ جلدبازی ظاہرکرتی ہے کہ انتخابات کی طرف جانے کا کڑواگھونٹ پینے پرحکومت آمادہ ہے چند چھوٹی جماعتیں بھی فنڈز لینے کے چکر میں ہیں مگر واقفان حلقے کہتے ہیں کہ ابھی تک ن لیگ اور پی پی کے امیدواروں سے منصوبے لیکر فنڈزدیے جارہے ہیں پی ٹی آئی پر نومئی کے حوالے سے لگنے والزامات اورجنم لینے والے مصائب کو غنیمت جان کر حکومت عام انتخابات کرانے پر رضامندہو ئی ہے کیونکہ موجودہ حالات سے بہتر کوئی اورموقع مل ہی نہیں سکتا آجکل پولیس فرائض کو بالائے طاق رکھ کر صبح و شام پی ٹی آئی کے امیدواروں کے تعاقب میں ہے جس کی وجہ سے امیدواروں کی طرف سے ٹکٹ واپس کرنے کا سلسلہ عروج پرہے تحریکِ انصاف کو توڑ کر استحکام پاکستان پارٹی بن چکی ایسے سازگار حالات کی وجہ سے حکومتی اتحاد کوانتخابات میں جانے کی ہمت ہوئی ہے۔
دبئی بیٹھک میں ن لیگ اور پی پی نے نواز شریف کو اعتماد میں لیکر عام انتخابات کی حکمتِ عملی کو حتمی شکل دے لی ہے من پسندتبادلے کرنے سمیت نگران سیٹ اَپ کی جزیات تک طے کرلی گئی ہیں۔ ایک دوسرے کو احسانات یاد کرانے اور عوضانے میںثمرات دینے کا مطالبہ کیاجارہا ہے ۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سربراہ کو ایسی خاص اور اہم مشاورت سے الگ تھلگ کردیاگیاہے جس کی وجہ ممکن ہے انتخابات کے بعد حکومتی تشکیل کا عمل دوجماعتوں کے درمیان رکھناہو جس پر فضل الرحمن نے خفگی کا اظہار کیاہے لیکن یہ توقع رکھنا کہ بالابالا مشاورت سے وہ اتحادی حکومت سے ناراض ہو کر سیاسی راہیں جُدا کرلیں گے غلط ہوگا مولانا بھی سیاسی میدان کے پُرانے کھلاڑی ہیں۔ اُنھیں بخوبی معلوم ہے کہ جیت کو یقینی بنانے میں انتظامی مشنری کا تعاون بہت ضروری ہے ۔اسی لیے منانے کی کسی طرف سے ہلکی سی بھی کوئی کوشش کی گئی تووہ بخوشی مان جائیں گے ۔پی پی اور ن لیگ میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کسی حدتک امکان موجودہے کیونکہ دونوں کا خیال ہے کہ ایسا کرنے سے موجودہ پوزیشن کو مزیدبہتر بنا سکتی ہیں امکان کی وجہ دونوں کاہرقیمت پر پی ٹی آئی کی راہ روکنے پر اتفاق ہے۔ نو مئی کا واقعہ دونوں کے لیے لاٹری ثابت ہوا ہے اسی لیے موقع ہو یا نہ ہو عمران خان کو ذمہ دار قراردینے میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے رہی ہیں۔ دونوں جماعتوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کی نفرت پر مبنی الزامات اور انتشار انگیز رجحانات سے شروع ہونے والی سیاست کا اختتام ایسے عمیق تشدد سے ہوا ہے جس سے نہ صرف ریاستی رٹ متاثر ہوئی بلکہ دفاعی اِداروں سے بھی نفرت پروان چڑھی جس کی راہ روکنا ملک کی خدمت ہے ۔انتخابی عمل میں آزادانہ شرکت روکنے کے لیے ہی پی ٹی آئی قائد کو ذرائع ابلاغ سے دورکرنے سمیت نت نئے الزامات عائد کرتے ہوئے مقدمات کی بھرمار کردی گئی ہے لیکن کیا عمران خان کو غیر مقبول کرنے جیسے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہیں ؟اِس کا جواب حاصل کرنے کے لیے آمدہ انتخابات کے نتائج کا انتظارکرناہوگا۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں