ہنگامہ ہے کیوں برپا،تھوڑی سی جوپی(pee) کی ہے
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
مدھیہ پردیش کے سدھی ضلع میں ایک انسان نماحیو ان نے قبائلی نوجوان کے چہرے پر پیشاب کرتے ہوے ویڈیو بنوا کر سوشل میڈیا پر وائرل کردی۔ اس انسانیت سوز حرکت کے بعد کسی کو اس میں شک شبہ نہیں تھا کہ ایسی گھناونی حرکت کا ارتکاب کرنے والا سنگھ پریوار کا جیالا ہی ہوسکتا ہے کیونکہ بے دھڑک مظالم کرنا اور اس کی ویڈیو بناکر بے حیائی کے ساتھ پھیلانا ان لوگوں کا شعار ہے ۔ ان کے علاوہ کسی اور کے ذہن میں ایسا فتور نہیں آسکتا اور آبھی جائے تو وہ اس کو قانون کے ڈر جھٹک دے گالیکن یہ تو سرکاری داماد ہیں ۔ ان کو حکومت کی سرپرستی اور تحفظ حاصل ہے اس لیے جس کی چاہیں ہجومی تشدد میں ہلاک کرکے اس کی ویڈیو پھیلا دیں یامسکان خان جیسی باوقارحجابی طالبہ کو ہراساں کرکے اس کی ویڈیو بناکر بھی اپنی دلیری کا ثبوت دینے کے لیے ازخود تشہیر کریں ان کو کوئی نہیں روکتا ۔ اس کے علاوہ اگرکوئی دلت گھوڑی چڑھے ، مونچھیں رکھے بلکہ کالا چشمہ پہنے تو وہ بھی ان سے برداشت نہیں ہوتا ۔ اس کی پٹائی کرکے ویڈیو بناتے ہیں اور میڈیا میں پھیلاتے ہیں۔ مشنری اسکولوں میں اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجتے ہیں پونے جیسے نام نہاد مہذب شہر میں پرنسپل سے مارپیٹ کرتے ہیں ۔ ان احسان فراموش لوگوں کو کوئی عار نہیں محسوس ہوتی۔اس لیے جب پرویش شکلا پر سرکاری کارروائی ہوئی تو آئے دن مظالم کرنے والے مودی بھگت حیران ہوکر پوچھنے لگے ’ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی (pee)کی ہے ‘۔
’پیشاب کانڈ‘معاملے کی وائرل ویڈیو میں دیکھا گیا کہ سیڑھی پر بیٹھے قبائلی نوجوان کے چہرے پر سگریٹ پیتاہواایک حیوان پیشاب کر رہا ہے ۔ اس شرمناک سانحہ کی تفتیش میں معلوم ہوا کہ حسبِ توقع یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا رہنما پرویش شکلا ہے جو سدھی شہر کے بی جے پی رکن اسمبلی کیدارناتھ شکلا کا نمائندہ رہ چکا ہے ۔ ویڈیو سامنے آنے کے بعد ریاستی وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے بڑے طمطراق سے شکلا کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے ) لگانے کا اعلان تو کردیا مگر وہ لوگوں کو فریب دینے کے لیے کہا جانے والا ایک جملہ تھا۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کے بعد بعد بتایا کہ شکلا خلاف دفعہ 294 (فحش زبان کا استعمال)، 504 (امن کی خلاف ورزی ارادے سے جان بوجھ کر توہین کرنا) اور ایس سی/ایس ٹی ایکٹ کے متعلقہ دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔اس میں این ایس اے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ مودی راج میں کسی سنگھ پریوار کے برہمن پر قوم دشمنی کی دفع کیسے لگ سکتی ہے ؟ پچھلے دنوں ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن پونے کے ڈائرکٹر پی ایم کرولکرکو اے ٹی ایس نے حساس اور خفیہ سرکاری معلومات پاکستان بھیجنے کے الزام میں گرفتار کیا مگر چونکہ اس کا تعلق آر ایس ایس سے تھا اس لیے این ایس اے نہیں لگایا گیا ۔ مودی سرکار کی نظر میں سنگھ کے سیوک کچھ بھی کرلیں دیش دروہی (قوم دشمن ) نہیں ہوسکتے اور مسلمانوں کومعتوب ہونے کے لیے کچھ کرنا ضروری نہیں۔
’پیشاب کانڈ‘کے بعد بی جے پی رکن اسمبلی کیدار ناتھ شکلا نے گرگٹ کی مانند رنگ بدلتے ہوئے ایک ٹوئٹ کے ذریعے کمال احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشکل کی گھڑی میں اپنے نمائندے کو یکہ وتنہا چھوڑ کر اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کردیا۔ کذب گوئی کی انتہا کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ وہ شخص نہ تو بی جے پی کا عہدیدار ہے اور نہ ہی میرا نمائندہ ہے ۔میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ پرویش شکلا کی جان پہچان سے انکار نہیں کرسکے ۔کیدار ناتھ کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے پرویش شکلا کے والد رماکانت شکلا نے اعلان کیا کہ ان کا بیٹا بی جے پی ایم ایل اے کیدارناتھ شکلا کا نمائندہ ہے ۔اس طرح دو شکلا ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کرتے ہوئے نظر آئے مگر دستاویزات کی چھان بین سے پرویش شکلا کی بی جے پی سے وابستگی ظاہر ہوتی ہے ۔ ملزم کو نہ صرف رکن اسمبلی کیدار ناتھ بلکہ پارٹی کے دیگر لیڈروں کے ساتھ تصویروں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔اس دوران اس ظلم کا شکار ہونے والا دشمت راوت مذکورہ ویڈیو کو فرضی قرار دے دیتا ہے ۔ اس کے مطابق پرویش شکلا نے اس کے ساتھ ایسی کوئی حرکت ہی نہیں کی ۔ راوت کے مطابق یہ ویڈیو شکلا کی سیاسی شبیہ کو داغدار کرنے کے لیے بنایا گیا ہے ، اس لیے مذکورہ ویڈیو کی بنیاد پر مستقبل میں شکلا کے خلاف اس کے نام سے کوئی شکایت قبول نہ کی جائے حالانکہ اس سے قبل وہ ایک حلف نامہ داخل کر چکا ہے ۔ راوت نے اپنے بیان میں ویڈیو وائرل کرنے والے آدرش شکلا نامی شخص کو ہی مورد الزام ٹھہرادیا ۔
اس طرح گویا ڈرا دھمکا کر پرویش شکلا کو بچانے کی کوشش میں تیسرے شکلا کی انٹری ہوگئی۔ کل کو دشمت راوت عدالت میں کھڑے ہوکر یہ بیان دوہرا دے تو جو جج صاحب اپنے آنکھوں پر لگی کالی پٹی کو کھول کر ویڈیو دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کریں گے بلکہ کیدار ناتھ کی خوشنودی کے لیے پرویش کے بجائے آدرش کو جیل بھیج دیں گے ۔ اونچی عدالت کے جج صاحب ویڈیو میں آدرش کو موجود نہ پاکر ثبوت کی کمی کا بہانے اسے رہا کردیں گے اور کیدارناتھ شکلا جیل کے باہر مٹھائی کھلا کر اس کا استقبال کریں گے ۔ بعید نہیں کہ وہ بھی گودھرا کے رکن اسمبلی کی مانند سینہ ٹھونک کر کہہ دیں برہمن سنسکار کا حامل شکلا ایسا گھناونا جرم کرہی نہیں سکتا۔ گجرات اور مدھیہ پردیش ہم سایہ ریاستیں ہیں اس لیے جو سرحد کے اس جانب ہوسکتا ہے اس طرف کیوں نہیں ہوسکتا؟ دشمت راوت کی بات کو مان لیا جائے تو بی جے پی کے مسائل میں مزید اضافہ ہوجائے گا کیونکہ اس کے ریاستی حکومت نے نہ صرف پرویش کو گرفتار کیا بلکہ اس کے گھر پر بلڈوزر بھی چلا دیا ۔ یہ حرکت اگر پرویش کے بجائے آدرش کی ہے تو کیا اب اس کے گھر کو بھی ماما جی کا بلڈوزر مسمار کرے گا ؟ اور پرویش کا گھر بنوا کر دے گا؟ اس طرح کا کوئی بیان نہ ماما شیوراج چوہان اور نہ چاچا( وزیر داخلہ) نروتم مشرا کی جانب سے سامنے آیا ہے ۔اس واقعہ میں متاثر دشمت راوت نے دباو میں آکر جو کچھ بھی کہا ہو مگر ان کی بیوی سے جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ انہیں انصاف چاہیے یعنی جس نے زیادتی کی ہے اس کو سزا ملے ۔ اس کا مطلب تو یہی ہوتا ہے کہ بدسلوکی کے بعد وزیر اعلیٰ نے دشمت کا پیر دھو کر یا شال اوڑھاکرجو عزت افزائی کی انصاف نہیں نوٹنکی یعنی سیاسی پاکھنڈ ہے ۔ پرویش کے لیے قرار واقعی سزا تو یہ ہونی چاہیے کہ دشمت راوت کو کھلے عام پرویش شکلا پر پیشاب کرنے کا موقع دیا جائے اور اس کی ویڈیو بناکر تمام ٹیلی ویژن چینل پر نشر کی جائے نیز سوشیل میڈیا پر بھی اسے وائرل کیا جائے ۔ اس طرح ممکن ہے ان ظالموں کو شرم آئے اور ایسی حرکتوں سے باز آئیں ۔ یہ کوئی بہت بڑی سزا نہیں ہے ۔ ہندوستان میں گئو موتر یعنی گائے کے پیشاب کو مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ رام دیو بابا اس کو اپنی مصنوعات میں استعمال کرکے زیادہ قیمت وصول کرتے ہیں ۔ پتانجلی کی خصوصیت یہی ہے کہ اس میں گئو موتر والی خورودونوش کی چیزیں بکتی ہیں۔ اب انسان کا پیشاب گائے کے مقابلے یقیناً بہتر ہے چاہے وہ کسی قبائلی کیوں نہ ہو؟ اس طرح کی سخت سزا کے بغیر قبائلی سماج کے اوپر سے ظلم و جبر ختم ہوجائے اس کا امکان کم ہے ۔
مدھیہ پردیش کا یہ معاملہ ابھی میڈیا کے اندر چل ہی رہا تھا کہ پڑوس کے صوبے اتر پردیش میں دلت نوجوان پر زیادتی کا ایک واقعہ منظر عام پر آگیا ۔ یہ سانحہ شاہ گنج تھانہ علاقہ کے بلدیہ گاؤں میں پیش آیا۔ وہاں متاثرہ شخص اپنے ماموں کے گھر آیا کا بجلی کا کنکشن کاٹ دیا گیا تھا۔پولیس کے مطابق متاثرفرد نے کنکشن کو جوڑ دیا ۔ اس کی وجہ سے ٹھیکے پر تعینات تیج بالی سنگھ پٹیل نامی لائن مین ناراض ہو گیا۔ گاؤں پہنچ کر اس نے نوجوان کی پٹائی کی۔ اس سے اٹھک بیٹھک کرائی اور اسے چپل چاٹنے پر مجبور کیا۔واقعے کی ویڈیو وائرل ہوئی تو معاملہ پولیس تک پہنچا۔ پولیس کے مطابق ملزم کے خلاف ایس سی ایس ٹی ایکٹ سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے بلکہ ملزم کو گرفتار بھی کر لیا ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات ایم پی کے ماما، یوپی کے بابا اور گجرات کے کاکا کے زیر نگرانی چلنے والے صوبوں میں ہی کیوں رونما ہوتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ایسے مظالم کرنے والوں کوسرکاری تحفظ حاصل ہے ۔ان کو اول تو پکڑا نہیں جاتا اور اگر بفرض محال گرفتار بھی کرلیا جائے تو سزا نہیں ہوتی ۔ ایسے لوگوں کو قرار واقعی سزا دلوانے کے بجائے سیاسی آقا لفاظی کرتے پھرتے ہیں اس کی تازہ مثال یکم جولائی کو وزیر اعظم کی اسی شہڈول ضلع میں کی جانے والی تقریر ہے جہاں ‘پیشاب کانڈ’ ہوا۔ اپنے دورے کے وقت انہوں نے کہا تھا کہ قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لیے جتنا کام ان کی حکومت کیا کسی اور سرکار نے نہیں کیا۔ اس واقعہ نے ان کے کھوکھلے دعویٰ کی قلعی کھول دی۔ آج کل مودی جی کے ستارے گردش میں ان کا ہر جھوٹ فوراً کھل جاتا ہے ۔ پہلے این سی پی پر نام لے کر بدعنوانی والا کا الزام لگایا اور پھر ان سب کو اپنی سرکار میں وزیر بنوا لیا ۔ اس کے قبائلی فلاح کا دعویٰ کیا جو بے نقاب ہوگیا۔ ان کی حالتِ زار پر یہ شکیل اعظمی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
بات سے بات کی گہرائی چلی جاتی ہے
جھوٹ آ جائے تو سچائی چلی جاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔