زندہ انسانوں کو سوختہ کرنیوالے خونی حادثات
شیئر کریں
عید سے ایک روز قبل قوم کو اس وقت ناگہانی صدمے سے گزرنا پڑا جب احمد پور شرقیہ میں پٹرول کے ٹینکر الٹنے اور پھر دیہاتیوںاور دیگر افرادکی طرف سے پٹرول اکٹھا کیے جانے پر آگ بھڑک اٹھی تو سوا دو سو کے قریب افرادزندہ جل بھن کر کوئلہ ہوگئے اور جو راہ چلتے اور گاڑیوں میں گزرتے لقمہ اجل بن گئے، ان کی تو ابھی گنتی ہی شروع نہیں ہوئی جب کہ وفات پاجانے والوں کی تعداد سے بھی کچھ زیادہ ابھی تک موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ۔
اطلاعات کے مطابق ٹینکر کی مالک کمپنی پہلے ہی بلیک لسٹ کی جاچکی تھی،تیل بھی ٹینکر کی گنجائش سے زیادہ بھر کے لایا جارہا تھا۔ٹینکر کااوپر والا ڈھکنا بھی سیل نہ تھا،اسی لیے الٹتے ہی پٹرول خارج ہونا شروع ہوگیا۔گھریلو مائع گیس کا سلنڈر پھٹے تو وہ بھی بم کی طرح پھٹتا ہے اور موقع پر اورقرب وجوار میں موجود تقریباًبیشترافراد کو موت نگل جاتی ہے، چند سال قبل حاصل پور میں بھی ایسا ہی واقعہ ہوا تھا کہ ایک مائع گیس کی دُکان پر سلنڈر بھرے جارہے تھے کہ "حادثہ "ہو گیا اور سو کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے اور اس سے زائد شدید زخمی ہوکر ہسپتالوں میں دم توڑتے رہے۔پورے شہر پر قبرستان جیسی کیفیت کئی روز تک طاری رہی جیسے احمد پور شرقیہ اور اس کے قرب وجوار میں عید سے قبل ہی ماتمی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ پورے ملک میں ٹینکر کے حادثہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی وجہ سے سوگ کی کیفیت طاری رہی اور حکومت سمیت سبھی پاکستانیوں نے عید سادگی سے منائی ۔کسی قسم کے میلے ٹھیلے و ڈرامے نہ ہوئے ،سینما تک بندرہے۔اس سانحہ کے تناظر میں قابل غور بات یہ ہے کہ پورے ملک میں سب تحصیل اور کہیں کہیں تو یونین کونسلوں کی سطح پر بھی حکومتی پابندیوں کے باوجودگنجان آبادی میں خالی سلنڈروں کی دوبارہ ری فلنگ کا انتہائی خطرناک کاروبار عروج پر ہے۔ کسی نے لاپرواہی کرتے ہوئے جلتا سگریٹ ہی قریب پھینک دیا تو وہ دھماکا ہوگا کہ الا مان والحفیظ ۔ہم پھر اس کی تفتیش وتحقیقات میں مصروف ہوکر اس واقعہ کو بھول جائیں گے۔ گیس ری فلنگ انتہائی غیر قانونی کام ہے جب کہ رجسٹرڈ کمپنیاں ہی خالی سلنڈروں کو بھر کر اور سیل بند کرکے دور دراز علاقوں میں بھجواتی ہے جن سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا مگر ہمارے ہاں رواج ہوتا جارہا ہے کہ جب بھی گیس کی ضرورت ہوئی تو لوگ چار پانچ کلو گیس بھروانے کے لیے سلنڈر گھر وں سے لاکر ری فلنگ کرواتے ہیں جو کہ سخت خطر ناک اور جان لیوا عمل ہے۔ کئی جگہ دیکھا گیا ہے کہ آکسیجن سلنڈروں میں گیس بھروائی جارہی ہوتی ہے جو از خود خطرناک عمل ہے، اکثر دُکانوں میں سلنڈر پھٹ کر اتنے بڑے دھماکے کرتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی مگر پھر بھی یہ غیر قانونی کام مسلسل زور شور سے جاری ہے اور کوئی تھانہ کچہری اور چھوٹی بڑی عدالتیں اس پر نہ تو نوٹس لیتی ہیںاور نہ ہی ملزمان کی پکڑ دھکڑ کرتی ہیں۔ اب تو گیس سلنڈر کی ری فلنگ اور پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں ،رکشوں میں گیس سلنڈر کا خوفناک استعمال عام ہوگیا ہے ۔یہ سب کچھ سول ڈیفنس ،محکمہ ٹرانسپورٹ ،ٹریفک پولیس اورمقامی تھانوں کی نفری کی نااہلی اور لاپرواہی کے سبب جاری ہے اور منی بسوں، ویگنوں میں گیس سلنڈروں کا استعمال کئی گنا بڑھ چکا ہے ۔اس طرح سانحات وقوع پزیر ہونے کے امکانات و خطرات بڑھنے لگے ہیں۔نجی ٹرانسپورٹ میں لگے گیس سلنڈرز روزانہ سانحہ کا باعث بنتے ہیںجس سے معصوم افرادکی ہلاکت عام ہوگئی ہے۔ ہفتہ میں ایک آدھ بار تو ویگنوں میں گیس سلنڈروں کے پھٹنے کے سبب کئی افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں مگر ہم ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے اور مقتدر ذمہ دار افسروں اور بیورو کریٹس کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ایسے حادثات سے انتظامیہ نے آج تک کوئی سبق نہیں سیکھااور وہ جو محاورہ مشہور ہے کہ چوری ڈکیتی اور واردات ہوہی نہیں سکتی جب تک اس علاقہ کے تھانیدار کا اس میں حصہ نہ ہومگر اب تو اس میں حصہ بقدر جثہ مقامی ایم این اے، ایم پی اے اور بلدیاتی نمائندے بھی وصول کرتے ہیں۔ تھانے جن کو امن کی آماجگاہ ہونا چاہیے تھاوہاں پر لوگوں کو لوٹنے ،اغوا برائے تاوان اور ڈکیتیوں کی منصوبہ بندیاں ہوتی ہیں۔ اگر اس کو مزید خفیہ رکھنا ہوتو تھانیدار صاحبان کسی موثر جاگیردار،وڈیرے اور تمندار کے ڈیرے پر ایسی پلاننگ وارداتیوں سے مل کر تیار کرتے ہیں ۔جب گیس ری فلنگ اور ٹرانسپورٹ میں گیس سلنڈرلگنے ہی ہیں تو پھر مقامی تھانہ ان سبھی سے منتھلیوں کا مک مکاکیوں نہ کرے۔ذرا اوپر سے پریشرآیاتو چند کا چالان اور جرمانہ کرڈالا اور اوپر افسران کو ” سب اچھا” کی رپورٹ بھیج دی پھر سب کچھ اسی طرح مسلسل چلتا رہتا ہے اور اوپر تک حصہ وقت کی پابندی سے پہنچتا رہتا ہے۔ اسی طرح جوئے اور منشیات کے اڈوں سے” ماہانہ رزق حلال "کی وصولی ہوتی اور ساری بیورو کریسی کو اصولی طور پر پہنچتی رہتی ہے اس لیے ایسے کاروباروں کو بند کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں پھر ایسی دُکانیں آبادی کے وسط میں موجود ہوتی ہیں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو درجنوں افراد ہلاک ہوتے ہیں۔اگر ہر صوبہ کا چیف سیکریٹری ،ہوم سیکریٹری اور آئی جی حکم جاری کردے کہ کسی جگہ سے ری فلنگ کرنے یا ٹرانسپورٹ میں سلنڈر لگنے کی اطلاع ملی تو مقامی ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور اے سی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے گاتو یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم ہوسکتا ہے لیکن وصول کردہ حرام رقوم کا پورا حصہ جب باقاعدگی سے اوپر تک پہنچتا رہتا ہے تو کون ایسے حکم جاری کرے گا؟ کون اپنی روزی پر لات مارتا ہے ؟حکم ہو بھی جائے تو انہی کے برادر لوکل افسران نے عملدر آمد کرنا ہے، اس لیے یہ سلسلے یونہی چلتے رہیں گے اور لوگ ہر جگہ اسی طرح لقمہ اجل بنتے رہیں گے ۔ہاں اگر تنگ آمد بجنگ آمد کی طرح بھوک سے بلکتے خود کشیاں کرتے اور زندہ جل مرنے والے نچلے طبقات کے لوگ غلیظ اور کیچڑ بھری گلیوں، محلوں ، گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے کی صدائیں بلند کرتے تحریک کی صورت میں نکل پڑے تو مفاد پرست رشوت خور اور سبھی جغادری سیاستدان بذریعہ انتخابات مدفون ہوکر رہ جائیں گے کہ ایسے خود ساختہ موت کے سوداگر پابہ زنجیر ہوگئے تو رہ جائے گا نام اللہ کا اور غربت، افلاس ،بے روزگاری اور دہشت گردی کے بت بھی پاش پاش ہوجائیں گے۔
میاں احسان باری