میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بصیرت نہ بصارت

بصیرت نہ بصارت

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۲ جون ۲۰۲۴

شیئر کریں

سمیع اللہ ملک

وادی گماں میں بسنے والو!اس گماں میں،اس دھوکے میں،فریب میں مت رہناکہ تم ہروقت باوضورہتے ہو،اچھے کپڑے پہنتے ہو، نمازیں اداکرتے ہو،نفلی روزوں کابھی اہتمام کرتے ہوتورب کواس سے کچھ ملتاہوگا،اسے بندگی کرانے کی کوئی خواہش ہے،رب کی عزت میں کوئی اضافہ ہوتاہوگااوراگرتم بغاوت کرتے ہوئے،فرائض نہیں اداکرتے تواسے کوئی نقصان ہوتاہوگاوہ رنجیدہ ہوتا ہوگا،وادی گماں میںبسنے والو!ایسانہیں ہے،قطعی نہیں ہے۔ساری کائنات اس کے سامنے سجدہ ریزہوجائے تواس کی بڑائی بیان نہیں ہوسکتی اورساری کائنات باغی ہوجائے تواسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس کی نگاہ میں ساری دنیاکی قیمت ایک لنگڑے مچھرکے پرکے برابربھی نہیں۔بس حکم کی تعمیل کرتے چلے جاؤ،شکر کے ساتھ عاجزی کے ساتھ،اپنی تمام تربے بسی کے ساتھ،توبس تمہاراہی فائدہ ہے۔فلاح پاؤگے،مانتے چلے جاؤگے توامن پاؤگے،سکون وراحت پاؤگے۔ بغاوت کروگے توزندگی جہنم بن جائے گی ،سکون وقرارکھوبیٹھوگے،اعتبارجاتارہے گا، نفسانفسی مچے گی،کوئی کسی کی نہیں سنے گا،بس پھنس کے رہ جاؤگے اس تارِنفس میں اوردھوکے میں فریب میں۔بس ایک ہی راہ ہے:
تسلیم کرواس کی حاکمیت،رضاپرراضی رہو،اس کے گن گا۔اسی کی مدحت ہے،وہی ہے سزاوارِحمدوثنا،نام اس کاہی بلندرہے گا۔ سب چلے جانے کیلئے ہیں، چلے جائیں گے۔کوئی نہیں رہایہاں پر،کوئی نہیں رہے گا،رہ ہی نہیں سکتا۔بس رہے گاتونام میرے اللہ کا،بس اسی کا۔ بہت ہی اتھلاہے بندہ بشر،بہت ہی تھڑ دلابہت مکاروعیاربہت ہی شکوہ کرنے والا شکایت کرنے والا.تھوڑی سی راحت پر پھول کر کپا ہو جاتاہے اوررب کوبھول جاتاہے اوراگرتھوڑی سی تکلیف پہنچے توبس ڈھنڈورچی بن جاتاہے۔سب کو بتانے لگتاہے دیکھو میرے سرمیں درد ہے دیکھومجھے بخارہوگیادیکھومیں تکلیف میں ہوں،یہ ہوگیاوہ ہو گیاغضب ہوگیا۔بس میں ہی نظرآتاہوں رب کو؟
حضرت رابعہ بصری یادآگئیں کہیں سے گزررہی تھیں کہ ایک شخص کودیکھاجس نے سرپررومال باندھاہواتھا۔پوچھا:یہ تم نے سر پررومال کیوں باندھاہوا ہے؟وہ بہت عاجزی سے بولا:میرے سرمیں دردہے اس لیے۔ تب رابعہ بصری بولیں:کیاتم نے کبھی شکرکا رومال باندھا ہے؟حیران شخص نے وضاحت چاہی تورابعہ بصری نے فرمایا:اتنی راحتیں رب نے دیں تب توتم نے رومال نہیں باندھا کہ جس پر لکھا ہوتا: مجھے رب نے راحت دی ہے اس لیے یہ رومال باندھاہواہے یہ شکرکارومال ہے اورسرمیں تھوڑاسادردکیاہوگیا کہ شکایت کارومال باندھے گھومتے ہو۔کبھی غورکیاہے ہم نے اِس پر؟ہم سب شکرکے رومال سے محروم ہیں اورشکایت کاپرچم بلند کیے ہوئے ہیں۔بہت ناشکرے ہیں ہم بہت تھڑدلے بہت بے عقل…….بصیرت نہ بصارت۔ بہت بغاوت کرلی ہم نے، نتائج بھی دیکھ رہے ہیں۔پلٹ کیوں نہیں آتے اپنے رب کی طرف۔
رحمت یہ چاہتی ہے کہ اپنی زباں سے
کہہ دے گناہ گارکہ تقصیرہوگئی
ہاں یہ مجھے میرے ایک بابانے بتایاتھابہت پیارسے کہ اللہ جی اس بندے سے بہت خوش ہوتاہے جوپلٹ آئے،سہماسہماسا شرمسار، اس بات کاملال ہوکہ اتنے عرصے رب کاباغی رہا۔جب وہ شرمندہ شرمندہ سااپنے رب کے سامنے کھڑاہوتاہے تب رب کی رحمت جوش میں آتی ہے اوروہ اسے اپنی رحمت میں لپیٹ لیتاہے۔پلٹ آیئے۔یہ سب کچھ رب نے دیاہے۔شکراداکیجیے اور شکریہ نہیں ہے کہ صرف نمازیں پڑھیں،تلاوت کریں،روزے رکھیں۔یہ تورب کاحکم ہے اسے تواداکرناہی ہے،یہ آپ کااوررب کامعاملہ ہے۔شکریہ بھی ہے کہ آپ بے کسوں کی خبرگیری کریں۔وہ جوآپ کے محلے میں سفیدپوش ہیں ان سے سرجھکا کر ملیں،ان کے مسائل معلوم کریں اورپھراس طرح کہ ان کی عزت ِ نفس ذراسی بھی متاثرنہ ہوان کی اس خفیہ طریقے سے مددکریں کہ ان کوبھی پتہ نہ چلے۔ ہرمحلے میں کئی دوکانداروں کے ہاں ان سفیدپوشوں کے ادھارکاکھاتہ چل رہاہوتاہے،خاموشی سے ان کاادھارچکادیں اوردوکاندار کوبھی خوف خداکاواسطہ دیکراپنانام چھپانے کی درخواست کریں۔کبھی اگرراشن بھی دیناہے تومحلے کے دوکاندارکی ڈیوٹی لگادیں یاپھرخودشام کے اندھیرے میں خاموشی سے گھرکی دہلیزپراس طرح رکھ کرچلے آئیں کہ ہمسایہ کوبھی اس کی خبرنہ ہو۔کیاہمارے رب نے ہمیں عطاکرتے ہوئے کسی کورازداں بنایاہے؟
محلے میں اگرکوئی مریض ہے تورازداری سے اس کی ادویات کابندوبست کردیں۔اپنے عزیزواقارب میں ایسے حاجت مندآپ کومل جائیں گے۔جہاں ان کی خوشدلی سے عیادت کرناآپ کافرض ہے وہاں ان کی مشکلات کاادراک کرتے ہوئے ان کی عزت نفس کاخیال رکھتے ہوئے خودسے ہدیہ کی صورت میں ان کی کفالت کردیں۔میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ ان شاء اللہ آپ ہر قسم کی ادویات استعمال کرنے سے محفوظ رہیں گے۔
وہ بیٹی جوجہیزنہ ہونے کی وجہ سے اپنے بالوں میں چاندی لیے بیٹھی ہے اس کادردمعلوم کریں۔وہ جوبسترپرپڑاایڑیاں رگڑرہاہے اسے راحت وآرام کی چندگھڑیاں دیںوہ طالب علم جوچندروپوں کیلئے اپنی تعلیم چھوڑنے کاسوچ رہاہے،اس کاہاتھ تھامیں اوران کی خبرگیری کریں ۔جن کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں،یہ جومال ودولت آپ کورب نے دیا ہے اسے اس کی مخلوق کیلئے خرچ کرنا سیکھئے۔میں آپ کویقین دلاتاہوں کہ آپ اس خرچ کرنے کی راحت کوکبھی نہیں بھول پائیں گے۔وہ لمحے جو آپ نے کسی کے کام میں خرچ کیے وہ سرمایہ ہیں زندگی کاوہ آنسوجوآپ کی آنکھوں سے کسی اورکیلئے برسا،وہ انمول ہے اوروہی رب کو مطلوب ہے۔ دیکھئے پھرکہہ رہاہوں عبادت سے جنت اورخدمت سے خداملتاہے،انتخاب توآپ کاہے ناں۔
ہم سب بلاسوچے سمجھے بولتے رہتے ہیں۔ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں..وہ انسان جوبولتے ہیں چیختے ہیں احتجاج کرتے ہیں لڑنے مرنے پراترآتے ہیں۔ہم کسی کوبھی کسی وقت کچھ بھی کہہ دیتے ہیں..وہ ایساہے فلاں ویساہے اورجس پرآپ نے الزام دھردیاہے بہتان لگادیاہے…….زورآورہے تومقابلے پراترتاہے اورآپ پھرکھسیانی بلی بن جاتے ہیں اورکھمبانوچتے ہوئے پتلی گلی کی راہ لیتے ہیں اوراگرکوئی کمزورہے تویہ سماج اس کی زندگی اجیرن کردیتاہے۔بے آسراکے ساتھ آپ جوچاہیں سلوک کریں کوئی آپ کو روکنے والانہیں ہے؟خیریہ توہم روزدیکھتے ہیں اورکبھی خودبھی یہی کرتے ہیں۔ ہمارے شرسے انسان محفوظ نہیں ہیں توجانورکیامحفوظ ہوں گے۔وہ جانورجوبول نہیں سکتے احتجاج نہیں کرسکتے مظاہرہ نہیں کرسکتے،اخباری بیان جاری نہیں کرسکتے،عدالتوں کادروازہ نہیں کھٹکھٹاسکتے۔
ہم ہیں کہ جنگلوں کے باسیوں پرالزام پرالزام دھرتے چلے جاتے ہیں۔کبھی سناہے شیرنے کرپشن کی ہو،کسی گدھے کے سوئس اکانٹ ہوں یاکسی جانورنے کسی دوسرے کوبیچ کھایا ہو ،ذخیرہ اندوزی کی یامنافع خوری کی ہو!کیاکسی شیرنے اپنے اقتدار کوطول دینے کیلئے اپنے بچوں کوبیچ کھایاہواوربعدمیں بڑے فخرسے کہے کہ اس نے اپنے ہی جنگل کے اتنے جانوروں کوفلاں شکاری کے ہاتھوں فروخت کرکے اتنامال بنایا۔بے بس اورکمزورمرغی بھی اپنے چوزوں کوبچانے کیلئے مقابلے پراترآتی ہے،کہیں کچھ کھانے کونظرآجائے توکوا ہانک لگاکرسب ساتھیوں کوبلالیتاہے۔اس نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ وہ چپکے سے سارامال خود ہضم کر لے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دے۔انسان……….جی ہم جواشرف المخلوقات ہیں،جوکچھ کرتے آئے ہیں،کررہے ہیں اورآئندہ بھی کرتے رہیں گے،کبھی آپ نے سناہے کہ جانوروں نے یہ کرتوت کئے ہیں؟وہ بے زبان جانورہیں توہم ان پر بہتان طرازی کرتے رہتے ہیں۔مجھے یقین ہوچلاہے کہ اب ان کاپیمانہ صبربھی لبریزہوگیاہے،کسی دن وہ ہمیں گھیرلیں گے اورجواب طلب کریں گے کہ بتاہم بے زبان تھے ہمیں یہ سب کچھ کیوں کہاگیا؟
جب دیکھویارلوگ کہتے رہتے ہیں:شہروں میں جنگل کاقانون رائج ہے۔امریکانے ساری دنیامیں جنگل کاقانون رائج کررکھا ہے۔ لاکھوں انسانوں کوگاجرمولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا۔صدیوں کی تاریخ کے امین ممالک کھنڈربنادیئے گئے،کوئی کہنے والانہیں کہ ایساکیوں کررہے ہو؟ابھی کل ہی کی توبات ہے کہ ان دیکھے جرثومے کرونانے کیاتباہی مچائی تھی کہ نیویارک کی ان شاہراہوں پر جہاں لاکھوں ڈالرکی گاڑیوں میں لوگ گھومتے تھے،دنیا بھرکے سیاح ان عالیشان ہوٹلوں ،پلازوں اورکروڑوں ڈالر کے نادراشیااورسازوسامان سے لدی ہوئی دوکانوں پرخریداری کواپنے لئے باعث افتخارسمجھتے تھے،،وہاں موت کاسناٹاچھا گیا، خودوہاں کا ایک نوجوان دنیابھرمیں امریکی ظلم وستم پرچیخ چیخ کران کی خاموشی کو جرم عظیم قرار دیتے ہوئے رب کے ہاں جھکنے اور توبہ کرنے کیلئے پکاررہاتھاکہ اگرہم نے ایسانہ کیاتویہ غیرمرئی سرکے بال سے بھی ہزاروں گناچھوٹاجرثومہ ہرذی روح کوخاک کر دے گا۔
دنیامیں سب سے پہلے لاک ڈاؤن توسفاک وجابردرندہ صفت ہندومودی جنتانے متعارف کروایا۔مقبوضہ کشمیرکے لاکھوں جیتے جاگتے افرادکوایک لمبے عرصے تک نہ صرف گھروں میں بندکردیابلکہ مکمل لاک ڈاؤن کرتے ہوئے تمام تعلیمی درسگاہوں، روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی ضروریات فروخت کرنے والے تمام اداروں،حتی کہ زندگی کے سانسوں کوجاری رکھنے کیلئے ادویات کے سٹوروں کے علاوہ ہسپتالوں تک کو بندکردیاگیاتھا۔اقوام عالم نے دیکھاکہ بدنصیب کشمیریوں کواپنے پیاروں کے جنازوں کوکندھادینا تو درکنارقبرستان میں تدفین کی اجازت بھی چھین لی گئی اوران کوگھروں کے دالانوں میں اپنے عزیزوں کودفن کرناپڑگیا۔تمام نوجوان بچوں کوزبردستی گھروں سے اغوا کرکے یاتو غائب کردیاگیا یا پھربھارت کی دوردرازجیلوں کی آ ہنی سلاخوں کے پیچھے بندکردیاگیااورآج تک نہ توکسی کاکوئی سراغ مل سکااورنہ ہی کسی عدالت میں اس کاریکارڈپیش کیاجاسکا ہے۔امریکاومغرب جودنیامیں انسانی حقوق کے بڑے چیمپن بنتے تھے، اپنی معاشی مفادات کیلئے مجرمانہ خاموشی اختیارکررکھی ہے۔
ہمیں بارہابھارت کی ترقی،اس کی آزادخارجہ پالیسی اورجمہوری انتخابی عمل کاطعنہ دیاجاتاہے۔چلیں آج آپ کوبھارت کی سیر کروادیتاہوں جس کی گواہی خودان کے معاشی ماہرین کی زبانی بتادیتاہوں:ان کے اپنے اسی بھارت کے53کروڑ68لاکھ شہری خطِ غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں جودنیامیں کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔دنیابھر میں 96کروڑ30 لاکھ انسان بھوک کاشکارہیں جن میں21 کروڑسے زیادہ بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،اس کے9کروڑ23لاکھ بچے غذائی قلت کا شکارہیں جو دنیا میں سب سے بڑی تعدادہے اوراسی طرح دنیامیں58لاکھ40ہزاربچے ہرسال مرجاتے ہیں جن میں25لاکھ سے زائدتعدادبھارتی بچوں کی ہے جوکسی بھی ملک سے بہت زیادہ ہے۔دنیامیں ایک ارب21کروڑ16لاکھ 52ہزارانسانوں کوپینے کاصاف پانی میسرنہیں ہے جن میں سے41کروڑسے زائد بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہیں ۔ دنیاکے2/ارب60 کروڑ10لاکھ انسانوں کوصحت وصفائی کی سہولتیں میسرنہیں ہیں جن میں بھارتیوں کاحصہ62کروڑ65لاکھ سے زائدہے(بعض اداروں کے مطابق ایک ارب دس کروڑہے)جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔
دنیابھرمیں4کروڑ20لاکھ لوگ ایڈزکاشکارہیں جن میں سے61 لاکھ 90ہزاربھارتی ہیں جوکہ دنیاکے کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ بھارتی سرکارکے مطابق ان میں سے ہر سال5لاکھ سے زائدہرسال مرجاتے ہیں۔دنیابھرکے20کروڑٹی بی کے مریضوں میں سے47لاکھ بھارتی ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں،ان میں سے5لاکھ کے قریب ہرسال مرجاتے ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔دنیامیں ہرسال5لاکھ 25ہزار6سوخواتین زچگی کی حالت میں لقمہ اجل بن جاتی ہیں جن میں سے 98ہزاربھارتی خواتین ہیں جو کسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔بھارت کے43کروڑافراداب بھی ناخواندہ ہیں جودنیامیں سب سے زیادہ ہیں۔اس کے5کروڑ بچے تعلیم سے اب بھی محروم ہیں اور3 کروڑ فٹ پاتھوں پررہتے ہیں جوکسی بھی ملک سے زیادہ ہیں۔ہرسال اس کے سوالاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں اورایک لاکھ50ہزارخواتین جہیزنہ لانے پرقتل کردی جاتی ہیں۔ جہاں43کروڑافرادناخواندہ ہیں،جہاں5 کروڑسے زائدبچے تعلیم سے محروم اور3کروڑسے زائدبچے فٹ پاتھوں پررہتے ہیں۔
لیکن دوسری طرف عالمی اعدادوشمارکے مطابق مودی سرکارغربت دورکرنے کی بجائے اس نے ہتھیاروں کی خریداری پراب تک کا سب سے زیادہ خرچ کیاہے۔ ہندوستان 2023میں فوجی اخراجات میں عالمی سطح پرچوتھے نمبرپرتھا،کل$83.6بلین تھا، جو 2022 کے مقابلے میں4.2فیصداور2014کے مقابلے میں44فیصداضافہ کے ساتھ نمایاں ہے۔2023میں دفاعی اخراجات بجٹ کا 15 فیصدتھااور2024کے اخراجات میں اضافہ کاامکان بتایاجارہا ہے۔14لاکھ فوج،11لاکھ 55ہزارریزروفوج اور12 لاکھ 93 ہزار پیرا ملٹری فوج کاخرچہ برداشت کیاجاتاہے۔ان کوومؤثربنانے کیلئے4300 ٹینک،8700آرمڈوہیکل،1260لڑاکا فوجی طیارے، ایک ایئرکرافٹ کیریئر اور 60ایٹم بم بھی ہیں۔ان سے بھی دل نہیں بھراتواسرئیل سے تین جدید ترین اواکس جنگی طیارے اورفرانس سے رافیل طیارے حاصل کرکے جنگی جنون کوتسکین پہنچانے کی کوششیں جاری ہیں۔
اس انتہائی پسماندگی کے علاوہ اقلیتوں کے ساتھ جوکچھ بھارت میں ہوتاہے،مہذب دنیامیں اس کاتصوربھی نہیں ہے۔20کروڑ اچھوت جانوروں سے بھی زیادہ بدترزندگی گزارنے پرمجبورہیں جن کوبنیادی انسانی حقوق دیناتودورکی بات انسان تک نہیں سمجھا جاتا ہے۔23کروڑمسلمانوں کاحال تواچھوتوں سے بھی بدترہے۔انتہاپسندہندوجماعتوں کے23لاکھ سے زیادہ جنونی کارکن ہیں جنہوں نے پورے بھارت میں اقلیتوں کاجینادوبھرکیاہواہے۔ہندومسلم فسادات روزکامعمول ہیں۔سب سے پہلے انہوں نے سکھوں سے مل کر تقسیم کے وقت فسادات اورہجرت کے دوران10لاکھ مسلمانوں کاقتلِ عام کیا،بعدمیں تاریخی بابری مسجد اورہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا،گجرات میں درندہ صفت وزیر ِاعلی نریندرمودی کی حکومتی سرپرستی میں5ہزارمسلمانوں کودن دیہاڑے شہیدکردیاگیاجس میں ڈھائی ہزارکوزندہ جلادیاگیا،ان کی املاک کولوٹااورجلایاگیااوران کاروائیوں پرفخر کرتے ہوئے اورمزید کرنے کاعہدکیاگیا۔اس قتل عام میں مودی نے سرکاری مشینری کاکھلے عام استعمال کیااورجس انسان دشمن نریندرمودی کی سرپرستی میں یہ ظلم وستم کامجرمانہ کھیل کھیلاگیا،اسے کوئی عبرتناک سزادینے کی بجائے دیوتاکامقام دے دیاگیا۔جہاں ان فسادت اورظلم وستم میں ملوث سرکاری اداروں کے سپاہیوں کوفرض شناسی اوربہادری کے انعامات اورترقیوں سے نوازاگیاوہاں اب اس درندہ صفت مودی کوملک کاملک کاتیسری باروزیراعظم بنادیاگیا۔
اس کے باوجودہم کس قدرآسانی سے انسان کے ہاتھوں ظلم وستم کوجنگل کے قانون سے تشبیہ دے دیتے ہیں۔کبھی جنگل دیکھاہے؟وہاں کے باسی دیکھے ہیں؟ کیاآپ کسی جنگل میں رہے ہیں؟پھر آپ یہ کس طرح کہہ دیتے ہیں،جنگل کاقانون۔جناب !آپ کچھ نہیں جانتے۔جنگل میں قانونِ فطرت رائج ہوتاہے۔وہ بے زبان ہم جیسے شاطروچالاک عیارومکارنہیں ہوتے۔جو ہوتے ہیں وہ نظرآتے ہیں۔وہ ہماری طرح منافق نہیں ہوتے،دوغلے نہیں ہوتے،ہم جیسے کرتوت نہیں ہوتے ان کے۔میں آپ سے ہاتھ جوڑ کر التماس کرتا ہوں خدا کیلئے یہ کہناچھوڑدیجیے،اپنے کرتوتوں کوبے زبانوں کے سرمت ڈالیے۔وہ معصوم ہیں انہیں کیوں گالی دے رہے ہیں آپ!انہیں تو بخش دیجئے۔مجھے آج زہرہ آپا کیوں اس قدریادآرہی ہیں؟
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
سناہے شیرکاجب پیٹ بھرجائے تووہ حملہ نہیں کرتا
سناہے جب کسی ندی کے پانی میں
پئے کے گھونسلے کاگندمی سایہ لرزتاہے
توندی کی روپہلی مچھلیاں اس کوپڑوسی مان لیتی ہیں
ہواکے تیزجھونکے جب درختوں کوہلاتے ہیں
تومینااپنے گھرکوبھول کر
کوے کے انڈوں کوپروں میں تھام لیتی ہے
سناہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے
توساراجنگل جاگ جاتاہے
ندی میں باڑآجائے
کوئی پل ٹوٹ جائے توکسی لکڑی کے تختے پر
گلہری سانپ چیتااوربکری ساتھ ہوتے ہیں
سناہے جنگلوں کابھی کوئی دستورہوتاہے
خداوندِجلیل ومعتبرداناوبینامنصف واکبر
ہمارے شہرمیں اب جنگلوں کاہی کوئی دستورنافذکر


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں