میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ذہن میں رکھیں ججز کی جاسوسی پر ایک جمہوری حکومت ختم کی جاچکی ہے، سپریم کورٹ

ذہن میں رکھیں ججز کی جاسوسی پر ایک جمہوری حکومت ختم کی جاچکی ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۲ جون ۲۰۲۰

شیئر کریں

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے کا معاملہ پر سماعت کے دور ان ریمارکس دیئے ہیں کہ یہ ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا چکا ہے جمعرات کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کی گئی درخواست پر سماعت کی ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فروغ نسیم اپنی مرضی کے مطابق بحث کریں، آپ کے اکثریت سوالات غیر متعلقہ ہیں، اے آر یو سے متعلق 2 تین مثالیں اور بیان کر دیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ بھی بتا دیں ججز کے ضابطہ اخلاق کی قانونی قدعن ہے کہ نہیں، ہم آپ کو تفصیل سے سنیں گے۔عدالتی استفسار پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدعن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے۔فروغ نسیم کے مطابق درخواست گزار کا موقف ہے کہ ان کی اہلیہ اور بچے ان کے زیر کفالت نہیں، جج کے خلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو۔حکومتی وکیل نے کہا کہ معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے، مس کنڈکٹ کی آرٹیکل 209 میں تعریف نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں ثابت شدہ مس کنڈکٹ لکھا گیا ہے، آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے۔انہوں نے کہا کہ 209 میں مس کنڈکٹ کی بات کی تو دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے، اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین ہی انتظامی قوانین کو اختیار دیتا ہے، آئین دیگر تمام قوانین کا ماخذ ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ بہتر ہوگا مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے آئین کے تحت ہی دیکھی جائے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں۔فروغ نسیم نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت جج اور ان کی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں، جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں، بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا معاملہ ہے، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں۔س پر بینچ کے رکن جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا، جس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے۔فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا، اس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا۔اس پر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پاناما کیس میں نواز شریف نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں، اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا۔حکومتی وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ایمنسٹی اسکیم قانون کے تحت ججز، بیگمات یا انکے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے، پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جسکے تحت ججز اور ان کی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں۔فروغ نسیم کی بات پر بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں چھوٹ حاصل ہے لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں چھوٹ حاصل نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ کی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق ہے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے، اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے انکی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہوگی۔فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں، جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی موڈگیج نہیں ہے، پاناما کیس میں نواز شریف نے بھی کہا تھا مجھ سے نہ پوچھا جائے، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ یہ کہتے ہیں جو اثاثے تسلیم کیے گئے ان کو ظاہر کرنا چاہیے تھا۔اپنے ریمارکس میں انہوں نے کہا کہ اگر بیگم آزاد اور اپنی آمدنی سے اثاثے خرید سکتی ہیں تو اس کی وضاحت بھی بیگم ہی دے سکتی ہیں۔سماعت کے دوران ہی بینچ کے رکن جسٹس سجاد علی شاہ نے حکومتی وکیل سے کہا کہ آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں، کیا آپ نے بیگم سے پوچھا کہ جائیداد یا فلیٹ کہاں سے لائیں، تادیبی کارروائی میں بیگم سے نہیں آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ نیب قانون میں بھی جس کے نام جائیداد ہوتی ہے اس کو ظاہر کیا جاتا ہے، اگر اصل ذرائع نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہیپاکستان کے تمام ججز پولیٹیکل ایکسپوزڈ’ (سیاسی) افراد ہوتے ہیں، پولیٹکل ایکسپوزڈ افراد میں فوجی اور عدالتی افسر شامل ہیں۔وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اگر ایک خودمختار بیگم اپنی آمدن سے جائیداد خریدتی ہے تو وہ کل اسکی وضاحت بھی دے سکتی ہے ، ساتھ ہی جسٹس سجاد علی شاہ بولے کہ سوال یہ ہے کہ کیا بیگم سے پوچھا گیا کہ جائیداد کہاں سے خریدی گئی۔اس کے جواب میں فروغ نسیم نے کہا کہ تادیبی کارروائی میں بیگم سے نہیں پوچھا جاتا، گریڈ 22 کے سیکریٹری کے لیے بنائے گئے قواعد ججز پر بھی لاگو ہیں۔فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے مختلف قواعد میں بھی اہلیہ کے زیر کفالت یا خود کفیل کی تمیز نہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ ججز کو ملنے والی مراعات، قواعد اس کیس سے کیسے متعلقہ ہیں۔حکومتی وکیل کی بات پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یاد رکھنا چاہیے کہ ریفرنس میں بنیادی معاملہ ٹیکس قانون کی شق 116 کی خلاف ورزی ہے جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میرا عدالت سے وعدہ ہے کہ شق 116 پر بھی بھرپور دلائل دوں گا۔اس پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کے سیکریٹری کی سطح کے افسر کے لیے بنائے گئے قواعد مراعات سے متعلق ہیں، کنڈکٹ سے متعلق نہیں، ججز کے کنڈکٹ سے متعلق صرف آئین میں زیر ہے باقی کہیں بھی نہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ آج آپ کو مکمل وقت دیا گیا لیکن آپ ایک نقطہ پر بھی دلائل مکمل نہ کر سکے، جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ میں آئندہ 2 روز میں اپنے دلائل مکمل کرلوں گا۔وکیل کی بات پر جسٹس عمر عطا بندیال بولے کہ بدنیتی کا نقطہ بھی نہایت اہم ہے، آپ نے ابھی تک نہیں بتایا کہ شواہد کیسے اکھٹے کیے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ججز کی نگرانی بھی اہم نقطہ ہے۔اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ ذہن میں رکھیں ایک جمہوری حکومت کو ججز کی جاسوسی پر ختم کیا چکا ہے۔بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت (آج) جمعہ تک ملتوی کردی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں