فوجی حل کے ذریعے افغانستان میں امن بحالی ناممکن!
شیئر کریں
اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں افغان شورش کی ذمہ داری ایک مرتبہ پھر پاکستان پر ڈالنے کی سازش
ایچ اے نقوی
امریکی محکمہ خارجہ نے افغانستان میں امن کو سیاسی مفاہمت سے مشروط کرتے ہوئے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنے ہمسایہ ملک میں امن عمل میں حصہ لینے کے لیے طالبان کو قائل کرے۔امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے نیوز بریفنگ کے دوران یہ بات ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہی جو محکمہ خارجہ کے خیالات جاننے کی کوشش کررہا تھا کہ کیا پاکستان ابھی بھی افغانستان میں دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے لیے انتہا پسندوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے پاکستان پر الزام نہیں لگایا بلکہ ان کی ترجمان ہیتھر ناو¿وٹ نے کہا کہ امریکا افغانستان میں امن بحال کرنے کے لیے سیاسی حل کی جانب ہی دیکھتا ہے کیونکہ فوجی حل کے ذریعے افغانستان میں امن بحال کرنا مشکل ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ بس اتنا کہنا چاہیں گی کہ وہاں لوگ کافی عرصے سے حالت جنگ میں ہیں اور امریکا نے افغان حکومت کی مدد جاری رکھی ہوئی ہے۔اس حوالے سے امریکی تھنک ٹینک میں موجود افغان ماہرین کا خیال ہے کہ افغانستان کے مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات کو عوامی سطح پر شیئر کرنے سے امریکی پالیسی سازی کے عمل پر اثر انداز ہونے کا موقع ہے۔
اٹلانٹک کونسل کے اجلاس میں افغانستان کی صورتحال اور امریکا کا اس خطے میں کردار زیر بحث آیا۔اس اجلاس کے دوران شرکا نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے معاملات میں اپنے اثرور سوخ کو مزید بڑھائیں اور دہشت گردی کے خاتمے تک افغانستان نہ چھوڑیں۔اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے تین مقررین نے پاکستان پر الزام لگایا کہ امریکا افغانستان میں جن مسائل کا شکار ہے وہ پاکستان کی طرف سے ہیں۔ان تین مقررین میں ایک زلمے خلیل زاد جو افغانستان اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں، دوسرے منیش تیواری تھے جو سابق بھارتی وزیر ہیں جبکہ تیسرے فرد ایشلے ٹیلس تھے جو کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کے اہلکار ہیں۔اجلاس میں موجود پاکستانی سفیر اعزاز احمد چوہدری نے شرکاکی تنقید اور ساتھی مقررین کے مسخر ے پن کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ افغانستان میں ہونے والے کسی بھی واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو نہ ٹہرایا جائے۔ایشلے ٹیلس نے خبردار کیا کہ یہ بھی امکانات ہیں کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ ایک مخصوص وقت میں افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی تو وہ افغانستان میں اپنی وابستگی کو کم کرتے ہوئے خطے سے دستبردار بھی ہوسکتی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے ایک گروہ کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور اب یہ پاکستانی حکومت کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ اپنی کوششوں کو دُگنا کرتے ہوئے افغانستان سے امریکی انخلاءسے قبل افغان طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ امن معاہدے کے مذاکرات کرنے پر قائل کریں۔امریکا میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے لہذا افغان حکام پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے اپنی سرزمین پر ان سے نمٹنے کی صورتوں پر غور کریں۔ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی سفیر نے یہ بات کابل کی جانب سے افغان دارالحکومت میں ہونے والے دھماکے کا ذمہ دار پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کو ٹہرانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہی۔اس حملے کے فوراً بعد افغان خفیہ اہلکاروں نے دعویٰ کیا تھا کہ حملے میں ملوث خودکش حملہ آور کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا۔دوسری جانب افغان نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی (این ڈی ایس) نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ اب بھی فاٹا میں موجود پناہ گاہوں سے کارروائیوں میں مصروف ہیں۔تاہم دی واشنگٹن ٹائمز کے ایڈیٹرز اور نمائندگان کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران امریکا میں پاکستانی سفیر نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان شمالی وزیرستان سمیت دیگر قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے بڑے پیمانے پر انسداد دہشت گردی آپریشن سرانجام دے چکا ہے۔اعزاز چوہدری نے کہا کہ ‘حقانی نیٹ ورک افغانستان منتقل ہوچکا ہے اور اس کے خلاف وہیں کارروائیاں کی جانی چاہئیں’۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘افغانستان میں ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا مددگار نہیں ہوگا، دونوں ملکوں میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانا ضروری ہے کیونکہ یہ کہنا بہت آسان ہے کہ یہ سارے مسائل پاکستان کی وجہ سے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ صرف خفیہ اہلکاروں نے دھماکے کو حقانی نیٹ ورک سے جوڑا، افغان حکومت کی جانب سے اس کی تائیدنہیں کی گئی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ افغان خفیہ اہلکار اتنی جلدی یہ پتہ لگانے میں کیسے کامیاب ہوگئے کہ دھماکے کا ذمہ دار کون ہے، ‘اگر آپ چند سیکنڈز میں یہ پتہ لگا سکتے ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہیئے کہ وہ کب حملہ کرنے آنے والے ہیں’۔
زلمے خلیل زاد نے جو افغانستان اور اقوام متحدہ میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گردوں کی ان پناہ گاہوں سے انحراف نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ پاکستان میں دہشت گردوں کی معاونت کی گہرائیوں کے بارے میں تحقیقات کریں۔انہوں نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ وہ افغانستان میں موجود طالبان سے کہیں کہ اگر وہ افغانستان میں امن عمل میں شامل نہیں ہوں گے تو انہیں پاکستان سے کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔پاکستان میں تعینات افغان سفیر عمر زاخیل وال کا کہنا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان سے بہتر کوئی سہولت کار نہیں ہوسکتا۔افغانستان میں امن کے حوالے سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان سفیر کا کہنا تھا کہ ‘افغانیوں سے زیادہ مخلص کوئی نہیں، ہمارے کردار پر شک نہ کیا جائے’۔قیام امن کے لیے پاکستان کو سہولت کار قرار دیتے ہوئے افغان سفیر نے کہا کہ پاکستان اور بھارت مل کر کوشش کریں تو امن کا قیام ممکن ہے، جبکہ ایران اور سعودی عرب کا تعاون بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے اہم ہے۔ساتھ ہی خطے میں جاری قیام امن کی کوششوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘امن کے بارے میں بات کرنے سے پہلے امن کا مطلب سمجھنا ضروری ہے، 2001 میں امریکی اتحاد کے سامنے واضح اہداف تھے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ منظرنامہ دھندلا گیا ہے’۔انہوں نے سوال کیا کہ ‘کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک غلطی تھی؟’ساتھ ہی افغانستان میں قیام امن کے لیے مخلص علاقائی تعاون اور کوششوں پر زور دیتے ہوئے عمر زاخیل وال نے کہا کہ ‘امن کے قیام کے لیے بہت سے عوامل شروع کیے گئے ہیں، مگر ان کی افادیت پر کئی سوالیہ نشانات کھڑے ہوتے ہیں’۔خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر عمر زاخیل وال نے کہا کہ ‘داعش خطے میں پروان چڑھتا نیا درندہ ہے، طالبان اور داعش کے درمیان بھی اقتدار کی لڑائی ہے، تاہم طالبان کو چند ممالک کی پس پردہ حمایت حاصل ہے’۔افغانستان کی شورش کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘ہمیں نہیں پتہ پاکستان افغانستان میں کیا کرنا چاہتا ہے؟’ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان کے تعاون کے بغیر طالبان افغانستان میں واپس قدم نہیں جما سکتے تھے’۔
سابق بھارتی وزیر منیش تیواری نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ یہ سوچے کہ آخر کیوں اشرف غنی جو راولپنڈی میں پاکستان آرمی کے سربراہ سے ملنے گئے تھے، اسلام آباد کے خلاف ہوگئے ہیں۔تاہم پاکستانی سفیر نے ‘پاکستان کو ہر چیز کا ذمہ دار قرار دینے’ کی مذمت کی اور واضح کیا کہ پاکستان کو ہر معاملے کا ذمہ دار کہنا زیادہ آسان ہے لیکن اگر عالمی طاقتوں نے یہی رویہ اپنائے رکھا تو یہ ایک غلط درخت کے سامنے فریاد کر نے کے مترادف ہوگا کیونکہ اس سے عالمی دنیا کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔اعزاز احمد چوہدری نے کہا ‘ آپ کن پناہ گاہوں کی باتیں کر رہے ہیں؟ اگر آپ ماضی کو نہیں دیکھیں گے تو حال کو کبھی حل نہیں کر پائیں گے،حقانی اور طالبان پاکستان کے دوست نہیں ہیں اور نہ ہی یہ پاکستان کی پروکسیز ہیں، آپ کس کوئٹہ شوریٰ اور کس پشاور شوریٰ کی بات کر رہے ہیں؟’۔