پاکستان کے خلاف سازش
شیئر کریں
1987ءالطاف حسین کی مہاجر قومی موومنٹ کا ”موسم بہار“ تھا۔ اس تحریک کا قیام تو 1984ءمیں ظہور پذیر ہوا تھا۔ تین سال اس کی بناوٹ اور تنظیم سازی میں صرف ہوئے اور جب 1987ءکے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو سندھ کے دو بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد کے بلدیاتی اداروں میں اس کے نمائندے بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔ ڈاکٹر فاروق ستار کراچی اور آفتاب شیخ حیدرآباد کے میئر بن گئے۔ اس عظیم کامیابی نے سندھ کی سیاست پر ایم کیو ایم کی دھاک بٹھادی‘ ایم کیو ایم کی غیر معمولی مقبولیت اور پذیرائی نے اس نوازائیدہ پارٹی کو صوبے کے شہری علاقوں میں سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔ یہ سلسلہ 22اگست 2016ءتک چلتا رہا۔ اس دن کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کے لیے کئی دن سے جمع ایم کیو ایم کے کارکنان سے پارٹی کے بانی کا لندن سے ٹیلیفونک خطاب آگ لگاگیا۔ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف تقریر اور بعد ازاں میڈیا ہاو¿س پر حملے نے تاریخ الٹ دی۔ آنکھوں پر بٹھانے والی اسٹیبلشمنٹ نے آنکھیں پھیر لیں۔ سخت قسم کا آپریشن شروع ہوا اور ڈاکٹر فاروق ستار کی سربراہی میں جمع ہونے والوں نے اپنی الگ”ایم کیو ایم پاکستان “بناکر ایم کیو ایم لندن سے اپنا تعلق ختم کرلیا‘ ایم کیو ایم 1947ءمیں بھارت سے نقل مکانی کرکے سندھ میں بودو باش اختیار کرنے والی”مہاجر آبادی“ کی محرومیوں اور مسائل کی بنیاد پر وجود میں آئی تھی‘ جو بعد ازاں”متحدہ قومی موومنٹ“ کے نام سے سیاسی میدان میں اپنا وجود منوا کر پاکستان کی تیسر ی بڑی پارلیمانی طاقت بن گئی تھی لیکن 22اگست کے واقعہ نے سارے تارو پود بکھیر دیے۔ اب سندھ کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود اس کے منتخب میئر کراچی وسیم اختر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے اختیارات کی خیرات مانگ رہے ہیں۔
پاکستان کی قومیتی اور نسلیتی سیاست پر معروف صحافی اور ایڈیٹر انچیف خبریں گروپ ضیاءشاہد کی تحریریں عموماً منعہ¿ شہود پر جلوہ گر ہوتی رہتی ہیں۔ ان کی ایک کتاب”ولی خان جواب دیں“ نے گزشتہ دور میں بڑا تہلکہ مچایا تھا۔ اب ہال ہی میں ان کی تازہ کتاب”پاکستان کے خلاف سازش“ منظر عام پر آئی ہے جس میں انہوں نے ملک کے چار نسل پرست سیاستدانوں محمود اچکزئی‘ اسفند یار ولی‘ الطاف حسین اور خان آف قلات کا احوال اور کردار بیان کیا ہے۔
ضیاءشاہد لکھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف سازشوں کا آغاز تو قیام پاکستان سے قبل ہی ہوگیا تھا جب ایک انگریز حاکم نے نجی محفل میں کہا تھا”ہم نے ساحل مکران سے لے کر فورٹ سنڈیمن کے پہاڑ اور نوشکی سے لے کر نصیر آباد تک ہندو سلطنت کے لئے راستہ ہموار کردیا ہے۔“ اس سازش کے تحت بلوچستان اور سابق صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا گیا۔ پہلے بلوچستان میں کام کیا گیا جس کی اسمبلی کے 65ارکان کو قابو میں کرنا کچھ مشکل نہیں تھا۔ بلوچستان کو بھارت میں شامل کرنے کا اثر سابق صوبہ سرحد میں ہوتا جہاں کانگریس کی وزارت تھی اور پختون لیڈر عبدالغفار خان”سرحدی گاندھی“ کہلاتے تھے۔ دونوں صوبوں میں کانگریسی اور انگریز ناکام ہوئے۔ انہیں بلوچستا کے اندر ناکام بنانے میں سردار جوگیزئی اور میر جعفر خان جمالی نے تاریخی کردار ادا کیا۔ اسی زمانے میں خان آف قلات نے ہندوستان جاکر دھلی میں مولانا ابو الکلام آزاد سے ملاقات کی اور قلات کو بھارت میں شامل کرنے کی درخواست کی تھی جس پر مولانا آزاد نے مشورہ دیا کہ اب چونکہ پاکستان بن گیا ہے لہذا وہاں کے مسلمان اسی ملک میں رہ کر اسے مضبوط کریں۔
موجودہ خان آف قلات لندن میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بھارتی اخبار”ہندوستان ٹائمز“ کو انٹر ویو دیا کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کو بلوچستان کی آزادی کے لیے مدد کرنی چاہیے۔ ضرورت پڑی تو اسرائیل سے بھی مدد لیں گے۔ چین کی گوادر تک اقتصادی راہداری بن گئی تو چین اور پاکستان کا بھارت کے گرد گھیرا تنگ ہوجائے گا لہٰذا بھارت کو بلوچستان کی مدد کرنی چاہیے۔ خان آف قلات کے ان باغیانہ خیالات کی جھلک ان سیاستدانوں کے بیانات میں بھی نظر آئے گی جن کا تذکرہ جناب ضیاءشاہد کی کتاب میں کیا گیا ہے۔ بھارت گزشتہ 70سال سے بلوچستان پر قبضہ اور گریٹر پختونستان کے مکروہ منصوبوں پر کام کررہا ہے۔ اس کا ایک جاسوس کلبھوشن گزشتہ عرصہ کے دوران بلوچستان سے گرفتار ہوا اس نے بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے اور دہشت گردی کے کئی واقعات کا اعتراف کرلیا ہے جس کا مقدمہ عالمی عدالت میں زیر سماعت ہے اور بھارت اس کی رہائی کے لیے دیوانہ وار کوششیں کررہا ہے۔ ادھر دشمن پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے اپنے ایجنٹوں جاسوسوں اور دہشت گردوں کے ذریعے دن رات نقب زنی کررہا ہے اور دوسری طرف ہمارے سیاستدان پاناما اور جے آئی ٹی کے کھیل میں ایک دوسرے کے گریبان تار تار کرنے میں مصروف ہیں۔ حکومت اور ادارے ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں ۔ اقتدار کا خوفناک کھیل اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ جاری ہے۔ تیسری طرف پاکستان کو مسائل کے گرداب میں پھنسا کر وطن سے محبت اور چاہت کم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ عالمی سود خوروں سے بھاری شرح اور شرائط پر قرضے لے کر ملک کو ان کے جال میں جکڑا جارہا ہے گیس اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور گرتی ہوئی معیشت کو مصنوعی سہاروں پر کھڑی کرکے غربت و افلاس اور بے روزگاری کا دروازہ کھول دیا گیا ہے تاکہ عوام کی اپنے ملک سے محبت کم کردی جائے اور خدا نخواستہ کوئی سانحہ برپا ہو تو کوئی احتجاج کرنے والا نہ ہو۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بالکل درست فرمایا تھا کہ فوج کتنے محاذوں پر کام کرے گی۔ اس کے باوجود ملکی دفاع کے ساتھ پاک افواج قوم کی توقعات بھی قوت کے ساتھ پوری کررہی ہیں۔
کتابیں قوموں کی زندگیوں پر جادوئی اثر ڈالتی ہیں۔ان کی رہنمائی آئی ہیں انہیں گمراہی اور اندھیروں سے نکال کر روشن منزل سے ہمکنار کرتی ہیں۔1967ءمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی کتاب The Myth Of Indepenceمنظر عام پر آئی ۔ اس کا اردو ترجمہ ”امید موہوم“ کے نام سے شائع ہوا تو پانی میں آگ لگ گئی‘ ترقی پسند انقلابی تحریک کی مہمیز مل گئی۔ ساری ترقی پسند قوتیں لاڑکانہ کے وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو کے پیچھے چل پڑیں۔ اسے سوشلسٹ لیڈر مان لیا‘ 1917ءمیں روسی انقلاب کے وقت لینن نے اپنی مشہور کتاب”کیا کیا جائے“ تحریر کی تھی‘ جس نے انقلابی مزدور تحریک میں جان ڈال دی اور محنت کشوں کا انقلاب عالیشان کامیابی سے ہمکنار ہوا۔
جناب ضیاءشاہد نے اپنی نئی کتاب” پاکستان کے خلاف سازش“ میں ان عوامل اور خطرات کی نشاندہی کردی ہے جو اس وقت مملکت خدا داد پاکستان کو درپیش ہیں‘ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے پیش کردہ تصور پاکستان اور دو قومی نظریہ میں آج بھی بڑی طاقت ہے 1947ءسے قبل بر صغیر دو قوموں مسلمان اور ہندوو¿ں پر مشتمل تھا۔ آزادی کے بعد بھارت نے مسلمانوں کے ملک پاکستان کو 1971ءمیں سازش کے ذریعے دو ٹکڑے کئے اور اس کے بعد موجودہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسی”را“ پاکستان میں پوری طرح متحرک اور فعال ہے ان حالات میں جناب ضیاءشاہد نے اپنی تازہ کتاب میں پاکستان کے خلاف سازشوں کو نہایت مو¿ثر انداز میں بے نقاب کرکے عظیم قومی خدمت انجام دی ہے رمضان المبارک کے مہینے میں کراچی‘ حیدرآباد سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں مہنگے پھلوں کا بائیکاٹ کرکے قوم نے کامیاب اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ وطن فروشوں اور ضمیر فروشوں کے خلاف بھی ایسے ہی مثالی اتحاد کی ضرورت ہے۔