میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرٹیکل 63اے،کسی رکن پارلیمان پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ء ہے، سپریم کورٹ

آرٹیکل 63اے،کسی رکن پارلیمان پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ء ہے، سپریم کورٹ

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۲ مئی ۲۰۲۲

شیئر کریں

سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ابزرویشن دی ہے کہ کسی رکن پارلیمان پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ہمارے سیاسی نظام میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ، ہیجان دباؤ اور عدم استحکام موجود ہے۔عدالت عظمی نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے سامنے دو قانونی سوال رکھے ہیں اور انہیں ان پر معاونت کیلئے کہا ہے ۔ چیف جسٹس نے واضح کیاہے کہ ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں،آئینی ترمیم کے ذریعے منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے لانے کا کوئی مقصد ہے، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کا آغاز کیا تومسلم لیگ ق کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے مسلسل دوسرے روز دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 63 اے کا مقصد ارکان کو انحراف سے روکنا ہے،ارکان کو انحراف سے روکنے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی گئی، اظہر صدیق کا کہنا تھاکہ16 اپریل کو پی ٹی آئی کے ارکان نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی،منحرف ارکان نے پارٹی پالیسی کے برعکس حمزہ شہباز کو ووٹ دیا،منحرف ارکان کیخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے،ق لیگ کے وکیل اظہر صدیق نے پانچ مئی کے اخبار میں شائع آرٹیکل کا حوالہ دیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ یہ آرٹیکل کس نے لکھا اور کب شائع ہوا،اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ آرٹیکل پانچ مئی کو شائع ہوا، رائٹر کا نام بعد میںبتا دوں گا، چیف جسٹس نے کہاکہ ہم الیکشن کمیشن میں زیرسماعت نااہلی ریفرنس پر رائے نہیں دے سکتے، منحرف ارکان کا معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ میرا مقدمہ نااہلی ریفرنس نہیں ہے، میرا مقدمہ یہ ہے کہ دن کی روشنی میں پارٹی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا،جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے ریمارکس دیئے کہ اس معاملے کا جائزہ الیکشن کمیشن نے لینا ہے،الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیل سپریم کورٹ ہی آئے گی،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہاکہ آپکی پارٹی کے کچھ لوگ ادھر، کچھ ادھر ہیں اورق لیگ کے سربراہ خاموش ہیں،ایک بلوچستان کی پارٹی ہے انکے لوگوں کا پتہ نہیں وہ کدھر ہیں، آدھی پارٹی ادھر ہے آدھی پارٹی ادھر ہے، جس کی چوری ہوتی ہے اسکو معلوم ہوتا ہے، ان پارٹیوں کے سربراہ ابھی تک مکمل خاموش ہیں،اظہر صدیق نے کہا کہ انڈیا میں منحرف ارکان کے لئے ڈی سیٹ نہیں بلکہ نااہلی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیاکی انڈیا کے 10 شیڈول میں منحرف رکن کی نااہلی کی معیاد کتنی ہے؟ یہ کیوں کہتے ہیں کہ سیاستدان چور ہیں؟ جب تک تحقیقات نہیں کی جاتیں تو ایسے بیان کیوں دیتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ اٹھائیس مارچ کو عدم اعتماد پر قرارداد منظور ہوئی، اکتیس مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونا تھی،یہ سوال پوچھنا چاہیے تھا کہ عدم اعتماد کیوں لائی گئی، اکتیس مارچ کو ارکان نے عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ کیا, چیف جسٹس نے واضح کیا کی ہم نے آئین کا تحفظ کرنا ہے اس لئے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کا ریفرنس سن رہے ہیں،منحرف ارکان سے متعلق آرٹیکل تریسٹھ اے کا کوئی مقصد ہے،آئینی ترامیم کے ذریعے تریسٹھ اے کو لایا گیا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہاکہ کسی رکن پر تاحیات پابندی لگانا بہت بڑی سزا ہے، آرٹیکل 62(1) ایف کے اطلاق کی بھی بڑی شرائط ہیں، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 63 اے کے ساتھ آرٹیکل 62(1) ایف کو پڑھ سکتے ہیں ؟ پارٹی سے انحراف ایک بہت بڑا ناسور ہے ملک کی ترقی کے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہے,1970 سے جو میوزیکل چیئر چل رہی ہے اسے ختم ہونا چاہیے۔ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے جواب دیا کہ میری نظر میں قانون غیر موثر ہے،ابھی بھی ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو غلط اقدام اٹھانے کی اجازت نہیں دے سکتے،قانون کے اندر عدالت کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں