
امریکہ نے ایران کو جنگ کی دھمکی دے دی!
شیئر کریں
جاوید محمود
یہ ہمیشہ امریکی صدور کی ترجیحات کی فہرست میں رہا ہے ،ٹرمپ کے لیے ایران ان کی پہلی مدت صدارت میں ہی ایک نامکمل کام رہا۔ ایران اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش رکھتا ہے لیکن دیگر ممالک کا خیال ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کم از کم جوہری وار ہیڈ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہتا ہے جو ایک ایسی خواہش ہے جس سے مشرق وسطیٰ میں اسلحے کی دوڑ یا یہاں تک کہ مکمل جنگ شروع ہو سکتی ہے۔ 2015میں ایران نے امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے ساتھ ایک معاہدے پر اتفاق کیا ۔اسے جوائنٹ کامپرنسیو پلان آف ایکشن کہا گیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018میں امریکہ کو اس معاہدے سے الگ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ اس سے ایران کی ملیشیا جیسے حماس اور حزب اللہ کو مالی مدد ملی اور دہشت گردی بڑے معاہدے سے نکلنے کے بعد امریکہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی۔ اس کے رد عمل میں ایران نے بھی معاہدے کی کچھ پابندیوں کو نظر انداز کیا اور زیادہ سے زیادہ جوہری یورینیم جوہری ایندھن افزودہ کیا ۔اس کے بعد ایران کو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی ۔ایران کے نامور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایران کے عسکری جوہری پروگرام کے سربراہ محسن فخری زادہ تہران سے 40میل مشرق میں گولیوں کا نشانہ بنے۔ ان کی ہلاکت کے بعد ایران کے جوہری پروگرام میں ان کے تعاون پر کھل کر بات ہونے لگی۔ انہیں ایرانی انقلاب کی حفاظت کے لیے بعد از مرگ آرڈر آف نصر سے نوازا گیا۔ ان کی تصویر پہلی بار شائع ہوئی تھی جس میں انہیں صدر حسن روحانی سے ایوارڈ لیتے ہوئے دکھایا گیا تھا ۔لیکن اتنی رازداری برقرار رکھنے کے باوجود فخری زادہ کو ایران سے باہر کے ماہرین بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی آئی اے ای اے کی کئی رپورٹوں میں ان کا نام آیا ۔عالمی ماہرین اور مغربی سفارت کار کا کہنا تھا کہ اگرایران کبھی جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے تو فخری زادہ کو اس کا باپ سمجھا جائے گا ۔یونان جریمی باب اور ایلن ایویٹر لکھتے ہیں فخری زادہ نے کئی بار شمالی کوریا کا دورہ کیا جہاں اس نے اپنی انکھوں سے جوہری تجربات کا مشاہدہ کیا ۔پاکستان کی جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کے سربراہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بھی ملاقات کی۔ فخری زادہ نے روسی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر بوشہر میں ایک جوہری پلانٹ بنایا تھا ۔اسرائیل کے ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ نے بتایا کہ فخری زادہ نے چینی جوہری سائنسدانوں کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے تھے جس کی مدد سے اس نے اصفہان نیوکلیئرپلانٹ بنایا ۔18 ستمبر 2021 کونیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون میں لکھا فخری زادہ کہ بیٹوں میں سے حامد نے دعویٰ کیا کہ ایرانی انٹیلی جنس کو انتباہ موصول ہوا تھا کہ اس دن ان کے والد کو قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ گھر سے باہر نہ نکلنے کا مشورہ بھی دیا گیا لیکن اس دن اپنی سیکیورٹی ٹیم کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ ایران کی سپریم سیکیورٹی کونسل کے مطابق ان کو ریموٹ کنٹرول سیٹلائٹ سے منسلک مشین گن سے مارا گیا۔ اسرائیلی انٹیلی جنس ذرائع نے ٹارگٹ تہران کے مصنفین کو تصدیق کی ہے کہ یہ سائنسی فکشن نہیں اور واقعی قتل میں ریموٹ کنٹرول گن کا استعمال کیا گیا تھا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ اسلحہ ٹکڑوں میں ایران لایا گیا اور خفیہ طور پر جوڑا گیا۔ یہ کام تقریبا 20افراد کی ٹیم نے آٹھ ماہ میں سرانجام دیا۔ وہ فخری زادہ کے ہر قدم پر نظر رکھتے تھے ۔ان پر کس حد تک نظر رکھی جا رہی تھی۔ اس کے بارے میں بتاتے ہیں ہوئے ایک ایجنٹ نے کہا کہ ہم اس آدمی کے ساتھ سانس لیتے تھے، اس کے ساتھ جاگتے تھے ۔اس کے ساتھ سوتے تھے۔
10 جون 2021کو ایک اسرائیلی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے انٹرویو میں موساد کے سابق سربراہ یو سی کورن نے ہلانا دیان کو بتایا موساد فخری زادہ کے بارے میں اس حد تک جانتا تھا کہ اسے ان کا پتہ ان کا فون نمبر اور حتی کہ ان کا پاسپورٹ نمبر بھی معلوم تھا ۔موساد کے اندرونی حلقوں میں اس بات پر بھی کافی بحث ہوتی کہ فخری زادہ کو فوری طور پر راستے سے ہٹایا جائے یا نہیں ۔اسرائیلی آئی ڈی ایف کے سابق سربراہ شلون مفاز کے مطابق جب وزیراعظم ایرل شیرون نے میر ڈیگن کو موسادکا سربراہ مقرر کیا تو انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ان پر نظر رکھیں۔ ڈگن 2009 میں ہی فخری زادہ کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن موساد کی اعلیٰ کمان اور ملٹری انٹیلی جنس کے درمیان اس معاملے پر کوئی اتفاق رائے نہیں تھا۔ 2019میں ایک منصوبہ بنا لیکن ایرانی اس منصوبے سے واقف تھے ۔اس خطرے کے باوجود ڈیگن اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتے تھے لیکن آخر وقت میں وزیراعظم اولمرٹ کی مداخلت کے بعد انہوں نے اپنے ایجنٹوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا۔ ایرانی جوہری پروگرام پر فخری زادہ کا اثر 2001سے 2010تک 2020کے مقابلے میں زیادہ تھا۔ 2020میں ان کے قتل سے ایران کو شدید ٹھیس پہنچی ۔ایران نے ایک با صلاحیت سائنسدان کو کھو دیا جس کے پاس بے مثال تجربہ آور تنظیمی علم تھا اور جو شروع سے ہی ایران کے جوہری پروگرام سے وابستہ تھا۔ 2018میں جب نتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ فخری زادہ یہ نام ہمیشہ یاد رکھنا ۔ویلیم سائمنز نے لکھا ہے کہ ایرانی انتظامیہ کے اندرونی جائزے کے مطابق ایران کو فخری زادہ کے متبادل کو تلاش کرنے اور اسے فعال کرنے میں کم از کم چھ سال لگیں گے۔ اسرائیلی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ ان کی ہلاکت کے نتیجے میں ایران کی بم تیار کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہوگی۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران ایران کے ایک درجن کے قریب نامور سیاست دانوں کو ہلاک کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ایران اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔ تجزیہ کاروں کو خدشہ ہے کہ ایران کے پاس جلد ہی جوہری وار ہیڈ بنانے کے لیے درکار یورینیم موجود ہو سکتا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کا اندازہ ہے کہ اگر ایران کے 60فیصد افزوردہ یورونیم کے ذخیرے کو اگلی سطح تک افزودہ کیا گیا تو وہ تقریبا 6بم بنا سکتا ہے۔ صدارت سنبھالتے ہی ٹرمپ نے ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی اپنی سابقہ پالیسی کو بحال کر دیا۔ 4 فروری کو انہوں نے ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں امریکی وزارت خزانہ کو ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے اور موجودہ پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک خاص طور پر ایرانی تیل خریدنے والے ممالک کو سزا دینے کا حکم دیا گیا۔ اب وائٹ ہاؤس اس معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ سفارتی دباؤ ڈالنے کی امید بھی کر رہا ہے۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنائی کو ایک خط بھیجا جس میں مذاکرات شروع کرنے کی پیشکش کی گئی اور چند ماہ کے اندر معاہدے کا مطالبہ بھی سامنے آیا ۔اب انہیں آخر میں عمان میں امریکی اور ایرانی حکام کے درمیان براہ راست بات چیت پر اتفاق کیا ہے۔ ایران کے لیے امریکی دھمکی واضح ہے۔ معاہدے پر متفق ہوں یا فوجی کارروائی کا سامنا کریں۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو مجھے لگتا ہے کہ ایران کو بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔