میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اس سے زائد کچھ نہیں

اس سے زائد کچھ نہیں

ویب ڈیسک
هفته, ۱۲ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

میری بات/روہیل اکبر

پاکستان کے لیے اپنے تن ،من اور دھن کی قربانی دینے والے آج ہم میں موجود نہیں۔کچھ راستے میں کٹ گئے ۔کچھ منزل کے قریب شہید کردیے گئے اور جو رلتے ہوئے سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے۔ انہیں بعد میں ہم رلا دیا۔ طاقتور نہ صرف اپنے کلیم لے گیابلکہ کئی دوسروں کے بھی ہضم کرگیا ۔غریب اور محنت کش اپنا حق مانگتے مانگتے دنیا سے ہی چلا گیا اور اب ان لوگوں کی تقریبا تیسری نسل سب کچھ بھول بھال کر تعمیر وطن میں لگے ہوئے ہیں۔ کچھ کو یاد ہے اور اکثریت نے بھلا دیا کہ پاکستان کی بنیادوں میں ان کے بزرگوں کا خون شامل ہے ۔لازوال اور بے شمار قربانیاں دینے والوں کی اولادیں آج بھی قربانیاں دے رہی ہے اور مفاد پرست پہلے بھی انکا حق غضب کرگئے تھے اور آج بھی انہوں نے ہی لوٹ مار مچا رکھی ہے ۔قیام پاکستان برصغیر کی تاریخ کا ایک اہم ترین باب ہے جس کے نتیجے میں ایک نئی اسلامی ریاست کا ظہور ہوا اس جدوجہد میں برصغیر کے مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دیں اور اپنی جان و مال کی پرواہ کیے بغیر ایک آزاد وطن کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کی ۔ان قربانیوں میں سب سے زیادہ المناک اور اہم کردار ان لاکھوں مہاجرین کا تھا جنہوں نے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک نئے وطن کی طرف ہجرت کی اور اس کی بنیادوں کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا۔
تقسیم ہند کے اعلان کے ساتھ ہی برصغیر میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک ہولناک سلسلہ شروع ہو گیا ۔انتہا پسندوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے ۔مائوں بہنوں کی عزتیں پامال کی گئی ۔خاندانوں کے خاندان قتل کردیے گئے۔ ایک قیامت کا منظر تھا یہ ہجرت تاریخ کی سب سے بڑی اور المناک ہجرتوں میں سے ایک تھی ۔مہاجرین نے اس دوران جو مصائب اور مشکلات برداشت کیں وہ ناقابل بیان ہیں۔ انہوں نے اپنے گھر بار، زمینیں، کاروبار اور عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑ دیا۔ راستے میں انہیں بھوک، پیاس، بیماریوں اور لٹیروں کا سامنا کرنا پڑا ۔ہزاروں مرد، عورتیں اور بچے ان فسادات کی بھینٹ چڑھ گئے اور جو زندہ بچے وہ ایک نئے اور انجان وطن میں بے سر و سامانی کی حالت میں پہنچے ۔ان تمام مصائب کے باوجود مہاجرین کا جذبہ اور حوصلہ بلند تھاکہ وہ اپنے ملک میں آبسے ہیں ۔جہاں انہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ ان کاحق انہیں مل کے رہے گا۔ انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور ایک نئے وطن کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان کے پاس اگرچہ مال و دولت نہیں تھا لیکن ان کے پاس ایک مضبوط عزم، محنت کرنے کی لگن اور ایک روشن مستقبل کا خواب ضرور تھا۔ مہاجرین نے پاکستان پہنچ کر نہ صرف اپنے آپ کو سنبھالا بلکہ نئے ملک کی ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تعلیم، صحت، تجارت، صنعت اور زراعت سمیت ہر شعبے میں ان کی محنت اور لگن نے پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مہاجرین کی قربانیاں صرف جان و مال تک محدود نہیں تھیں۔ انہوں نے اپنی ثقافت، زبان اور روایات کو بھی نئے ماحول میں زندہ رکھا اور پاکستانی معاشرے کو ایک نئی رنگینی اور تنوع بخشا۔ ان کی کہانیاں، ان کے تجربات اور ان کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے سر پر سوار بابوئوں نے انہیں ایسا ذلیل ورسوا کیا کہ بہت سے مہاجرین کی اولادیں آج بھی اپنی ان جائیدادوں سے محروم ہیں جو وہ پیچھے چھوڑ کر آئے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مہاجرین کی قربانیوں کے نتیجے میں ہی پاکستان کا وجود ممکن ہوا۔ ان کا کردار ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور ہمیں ان کے اس روشن باب کو بند نہیں کرنا چاہیے۔ اب بھی اگر انہیں انکا حق دیدیا جائے تو یہ کوئی احسان نہیں ہوگا۔ اس حوالہ سے اگر کوئی درد رکھتا ہے تو وہ میاں حنیف طاہرہے جو ایڈوکیٹ سپریم کورٹ ہیں بینکنگ ٹربیونل کے جج رہے۔ پیپلز لائرز فورم کے صدر رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک عام آدمی کے مسائل کو اپنے لیے مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک وہ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔ اب انہوں نے پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردینے والے ان مہاجرین کے لیے انہیں انکا حق دلوانے کیلیے تحریک حقوق مہاجرین پاکستان کے نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا ہے ۔اس حوالہ سے انکے جذبات ان کی زبانی پڑھتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے وقت لاکھوں کروڑوں مسلمان ، ہندوستان چھوڑ کر اپنے گھر بار، کاروبار، زمین جائیداد اور مال مویشی سب کچھ چھوڑ کر نئے وطن پاکستان ہجرت کرکے آگئے ۔حکومت پاکستان نے ان کو بسانے اور ان کے مال و اسباب کی تلافی کیلئے قانون بحالیات ، محکمہ بحالیات، آبادکاری اور محکمہ بھی بنایا جس کے تحت ان کو کلیم داخل کرنے کے عوض اراضی اور جائیدادیں بھی دی گئیں جن لوگوں نے کلیم داخل نہیں کیے، انہیں تو کچھ بھی نہ ملا البتہ کلیم داخل کرنے والے بیشتر خاندانوں کو اراضی اور جائیدادیں دی گئیں جبکہ بے شمار ایسے گھرانے بھی ہیں جنہوں نے کلیم تو داخل کیے مگر انہیں اس کے متبادل کچھ نہ ملا۔ حتی کہ وہ قانون بھی 1975 میں ختم ہوگیا مگر ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کی ایک خاصی تعداد کو گھر مل سکا نہ جائیدادیں اور نہ ہی زرعی اراضی ۔ان خاندانوں کے وارثان جن کی تیسری نسل بھی بوڑھی ہو چکی ہے ۔بے گھر ، بے روزگار ہیں اور ہجرت کی سزا بھگت رہے ہیں کئی جگہ ان کے حقوق پر وڈیروں، سیاست دانوں اور اشرافیہ نے قبضہ کر لیا۔ ان کے نام پر یونٹس خرد برد کر لیے گئے ۔کم از کم ہر ہجرت کرنے والا خاندان گھر اور روزگار قربان کرکے تو آیا تھا جو اپنے نئے ملک آکر اس سے بھی محروم رہا ہے اور تو اور شائد حکومت کے پاس ان خاندانوں اور ان کے مورث اعلیٰ کے وارثان کے صحیح اعداد و شمار بھی نہ ہوں اگر ہیں تو ان کو بطور شہری حق رہائش، حق روزگار کیوں فراہم نہیں کیا گیا۔ وہ تو اپنی شناخت، رشتہ داریاں، تعلقات، گھر بار، کاروبار، جائیدادیں، ہر چیز قربان کرکے نئے ملک اس وعدے پر جو اس وقت کی مسلم لیگ نے ان سے کیے تھے۔ پاکستان آگئے ۔یہ خواب لے کر کہ یہ نیا ملک ایک مسلم قوم کا ملک ہوگا جہاں اسلامی نظام نافذ ہوگا۔ عمر لاز کے مطابق انہیں حفاظت، عزت نفس، روزگار، ضروریات زندگی، حق عبادت، حق آزادی اظہار سمیت تمام وہ حقوق حاصل ہوں گے جو اسلامی ریاست میں ایک شہری کو حاصل ہوتے ہیں ،جہاں ایک عام شہری کے سامنے حکمران وقت اور قاضی وقت بھی ایسے اعمال کا ذمہ دار اور جواب دہ ہوتا ہے۔ تمام شہری امیرغریب، شاہ و گدا، مالک مزدور، زمیندار کسان، آقا و غلام کے حقوق اور ان سے سلوک ایک جیسا ہوتا ہے۔ جہاں سب مسلمان بھائی بھائی ہوتے ہیں، جہاں زکواة حکومت وقت جبراً وصول کرکے حقداروں میں تقسیم کرتی ہے جہاں ضرورت سے زائد وسائل ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیئے جاتے ہیں ۔جہاں ارتکاز دولت اور وسائل کا تصور نہیں ہوتا جہاں بادشاہ بھی اپنی روزی خود کام کرکے کماتا ہے جہاں حکمران وقت کو اپنی عوام کی فکر ہوتی ہے۔ اس کے دور میں اگر کتا بھی بھوکا رہے تو وہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔وہ بھی ماسوائے تقویٰ کے عام شہری سے زیادہ بڑا نہیں ہوتا۔ مہاجرین یہ تصور لے کر آئے تھے کہ یہ ملک ان کا اپنا نیا گھر ہوگا۔ اس میں عام شہری مسلمان کی اپنی حکومت ہوگی جہاں اصل حکمرانی اللہ کی ہوگی ۔انسان اس کے نائب کی حیثیت سے عوام کے غلام ہوں گے۔ نبی کریمۖ اور ان کے پیروکار حکمرانوں کی طرح سادہ زندگی گزاریں گے اور عوام کی خدمت کریں گے اور یہ ایک آزاد اور خودمختار مملکت ہوگی۔ مملکت کے ستون صرف اور صرف ان کی خدمت، حفاظت ، انصاف اور برابری کے لئے کام کریں گے مگر وہ آج یہاں سر چھپانے اور نان جویں کو ترس رہے ہیں اور حکمران اربوں پتی بن گئے ہیں۔ جن کی ملک اور بیرون ملک جائیدادوں اور اثاثوں کا شمار نہیں۔ بہرحال ہمارا مدعا صرف یہ ہے کہ ہندوستان سے ہجرت کرنے والے خاندان اس ملک کے محسن ہیں۔ انہوں نے اس ہجرت میں جان مال عزت ہر قسم کی قربانی دی ہے۔ اس کے خاندان کے ہر بالغ شادی شدہ فرد کا کم ازکم یہ حق تو ہے کہ اسے چھوٹی سے چھوٹی چھت اور زندگی گزارنے کے لئے روزگار فراہم کیا جائے تاکہ اسے محسوس ہو کہ یہ اس کا اپنا ملک ہے بس اس سے زائد کچھ نہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں