میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
غزہ کانوحہ

غزہ کانوحہ

ویب ڈیسک
هفته, ۱۲ اپریل ۲۰۲۵

شیئر کریں

حمیداللہ بھٹی

کچھ سمجھ نہیں آتا کہ غزہ کے بارے ایساکیا لکھاجائے جس سے عالمی ضمیر بیدار ہو جائے؟ انسانوں کیاجانوروں تک کے حقوق کی علمبرداراورمہذب ہونے کی دعویدار دنیا جب غزہ کے معصوم ومظلومین کی بات آتی ہے تویوں چُپ ساد ھ لیتی ہے جیسے کچھ انوکھانہ ہوا ہو ہرروز اسرائیلی دہشت گرد نہتے لوگوں پر باردوبرساکر جلا رہے ہیں لیکن دنیا کو لب کشائی کی ہمت نہیں ہورہی خواتین کے حقوق کی باتیں کرنے والے خاموش ہیں ۔بچوں کی لاشیں دیکھ کر بھی کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں ہو رہی ۔ہسپتالوں میں زخموں سے چور بے بس مریضوں پر بمباری جاری ہے جو جنگی اصولوں سے متصادم ہے مگر کہیں سے مذمت کے الفاظ سنائی نہیں دیتے ۔اسرائیلی وحشت کا ساتھ دینے کے ایجنڈے پرمتفق امریکہ سمیت مغربی طاقتوں نے توعالمی قوانین غزہ میں دفن کردیے ہیں ۔افسوس کا مقام تویہ ہے کہ ستاون اسلامی ممالک بھی جارحیت ختم کرانے کے حوالے سے متفقہ موقف اپنانے اور لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ سات اکتوبر 2023سے اسرائیل کی فضائیہ اور بری فوج جس درندگی میں مصروف ہے ۔اُس کے نتیجے میں رہائشی عمارات ملبے کا ڈھیر بن چکیں ،اسکول ،ہسپتال اور خیمہ بستیاں تک تباہ کردی گئیں۔ اِتنے مظالم کے باجود عالمی ضمیر سورہا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ رزقِ خاک بننے والے مردو زن مسلمان ہیں اب تو جلد ایسی طلاعات سامنے آنے والی ہیں کہ غزہ میں انسانی آبادی ختم ہو چکی جس کے بعد مذمت کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہے گی پھر غزہ کے نوحے ہی تاریخ میں رہ جائیں گے۔
کچھ عرصہ سے امن قائم کرنے کی بجائے اقوامِ متحدہ کاکام کمزور ممالک پر دبائو ڈالنا رہ گیا ہے یہ اِدارہ طاقتورملکوں کے آگے بے بس ہے۔ بظاہر یہ تمام اقوام پر مشتمل اِدارہ ہے اور اِس کے اراکین ممالک بظاہر برابر ہیں کوئی بھی محکوم یا برتر نہیں مگر سچ یہ ہے کہ یہ اِدارہ چند ایسے بڑے ممالک کی کٹھ پتلی ہے جن کے پاس ویٹو پاور ہے۔ یہ ویٹو پاور والے ممالک اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کو جوتے کی نوک پر رکھتے اور اپنے مفاد کے لیے من مرضی سے کام لیتے ہیں۔ اسی لیے اقوامِ متحدہ کی افادیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ اِدارہ امن و انصاف کو یقینی بنانے میں بُری طرح ناکام ہو چکا ہے کیونکہ ساری دنیا چاہے ایک طرف ہو جائے مگر پانچ ویٹو پاورز میں سے کوئی ایک بھی اختلاف کردے تو ساری دنیا کی رائے کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔غزہ میں جاری نسل کشی سے ساری دنیا آگاہ ہے ۔طویل عرصہ سے یہ علاقہ نہ صرف ناکہ بندی کا شکارہے۔ علاقے میں خوراک سمیت ادویات تک دستیاب نہیں ۔بمباری کے ساتھ اسرائیل بھوک کو بھی بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے لیکن دنیا کیا اقوامِ متحدہ کچھ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ایسی ہر قراردادجواسرائیلی مفاد سے متصادم ہو کو امریکہ ویٹو کردیتا ہے اور دنیا خاموشی سے تماشہ دیکھنے پر مجبور ہوجاتی ہے ۔
جب طاقتور کی بات ہوتودنیا بہری ہے۔ دنیا اندھی ہے۔ دنیا اپاہج ہے۔ جب مسلمانوں کی بات ہو تو دنیا نہ بول سکتی ہے نہ دیکھ سکتی ہے اورنہ ہی حرکت کرنے کے قابل رہتی ہے۔ غزہ پر جارحیت کے دوران دنیا کاکردارایساہی ہے مسلم اُمہ ڈری سہمی ہے۔ چاروں طرف سے مسلم ممالک میں گھری چھوٹی سی صیہونی ریاست نے عالم ِ عرب کو خوفزدہ کررکھاہے ۔حالانکہ آج غزہ کو جس قیامت کا سامنا ہے ایسی ہی قیامت جلد دیگر ہمسایہ ممالک کے حصے آنے والی ہے۔ توکیا بہتر نہیں کہ ایک ہی بار تمام ممالک متحد ہو کر ظالم ،جابر اور درندہ صفت اسرائیل کی راہ روک دیں؟ اسرائیل نے غزہ پر کارپٹ بمباری کے ساتھ بیک وقت شام،لبنان اور عراقی عسکری طاقت تباہ کرنے کے لیے حملے شروع کررکھے ہیں۔ جارحیت کا نشانہ بننے والے ممالک بے بسی سے اپنی تباہی ہوتی دیکھ رہے ہیں لیکن دفاع کرنے سے قاصر ہیں۔ اب تو عیاں ہو چکا کہ شام میں اقتدار کی تبدیلی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوئی ہے ۔اِس دوران روسی تعاون سے ہی بشار الاسد کو شام سے نکلنے پر آمادہ کیاگیا جس کا مقصد فلسطین کی رسدروکنا تھا بشارالاسد کے نکلنے کے بعد اسرائیل مزید بے لگام ہوکر غزہ کو مکمل طور پر اُجاڑنے ،تباہ کرنے اور انسانی آبادی سے پاک کرنے پر مصروف ہے۔ اگر عالمِ اسلام کے اندر سے بغاوت نہ ہوتی تو شاید حالات کچھ مختلف ہوتے خیراغیارسے کیا گلہ کریں جب اپنے مسلمان بھائی ہی مددکو نہ آئیں تو تاریخ میں نوحے ہی رہ جاتے ہیں ۔
اسرائیل کی دہشت گردی کو امریکی سرپرستی حاصل ہے برطانیہ بھی اِس کھیل میں مکمل طورپر شریک ہے جب اسرائیل کے مفاد کی بات ہو تو روس اور فرانس کا وزن بھی عربوں کے خلاف پلڑے میں ہوتا ہے یہی ممالک آجکل اقوامِ متحدہ کے کرتا دھرتا ہے جن کی ویٹو پاور انھیں ساری دنیا سے ممتاز اور طاقتور بناتی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ روس اور یوکرین جنگ بندی پرتو ہے لیکن مسلسل محاصرے میں غزہ کے لوگ کس طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہوکررزقِ خاک بن رہے ہیں ؟ کسی کو احساس تک نہیں ظلم و جبر پر احتجاج ہوتا ہے لیکن امریکی ٹرمپ انتظامیہ نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ جو اسرائیلی جارحیت اور نسل کشی کے خلاف احتجاج کرے گا اور فلسطینیوں حقوق کے لیے آواز بلند کرے گا اُن کے ویزے منسوخ کرنے کے ساتھ رہائشی اجازت نامے بھی ختم کردیے جائیں گے ۔ایسی طرفداری اور جانبداری سے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا جب انصاف کی بجائے بے انصافی ہو گی تو دنیا جہنم ہی بنے گی جس طرح اسرائیل نے غزہ کو بنا رکھا ہے اور دنیا خاموش ہے اورنوحہ لکھنے کی منتظر ۔
اقوامِ متحدہ نے اسرائیل کے خلاف درجنوں قراردادیں پاس کررکھی ہیں لیکن پاس کی گئی قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر ہے۔ اِس اِدارے کا جنرل سیکرٹری انتونیوگوتریس بے بس ہے۔ اُس کے اپنے کارکن محفوظ نہیں۔ اسرائیلی بمباری کا شکارہیں لیکن اقوامِ متحدہ نامی لاش اپنے کارکنوں کابھی تحفظ کرنے کے قابل نہیں دراصل عالمی طاقتوں کا طرزِ عمل انصاف پر مبنی نہیں بلکہ جانبدارانہ ہے۔ یہ طاقتیں صرف وہیں اقوامِ متحدہ کو استعمال کرتی ہیں جہاں اِن کا اپنا مفاد ہوجہاں مفاد نہ ہو تویہ اقوامِ متحدہ کے قواعد وضوابط پامال کرنے کے بھی جواز تلاش کرلیتی ہیں۔ غزہ کو موجودہ صورتحال تک لانے میں حماس کا بھی کردار ہے۔ اگر وہ سات اکتوبر2023 کی شب حماقت نہ کرتی تو شاید غزہ کے مکین آج یوں رزقِ خاک نہ بن رہے ہوتے ۔حماس کی حماقت کو شاید مستقبل کامورخ بے نقاب کردے کہ اُس نے کس کے ایما پر احمقانہ قدم اُٹھایا؟ جس طرح صدام حسین سے امریکی سفیر نے ملاقات میں یقین دہانی کرائی کہ اُن کا ملک جنگ میں غیر جانبدار رہے گا۔ اسی یقین دہانی کے بعد ہی عراق نے کویت پر چڑھائی کی اور پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ اب غزہ کے نوحے لکھنے کاوقت بھی قریب ہے اورشاید مزید عرب ممالک کی تباہی کا بھی ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں