میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کیا ایسا ہوگا؟؟

کیا ایسا ہوگا؟؟

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۲ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

دوستو، کورونا کی وبا کے ساتھ ہی جھوٹی خبروں، کہانیوں اور دعوؤں کا بازار بھی گرم ہے، چاہے وہ آپ کی،کسی دوست یاانکل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے کی جانے والی پوسٹ ہو یا آپ کے کسی رشتہ دار کی جانب سے بھیجی گئی تصویر کی صورت میں ہو۔ کورونا وائرس سے جڑی ایسی من گھڑت کہانیاں آپ کو ہر طرف دکھائی دیں گی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق نوول کورونا وائرس نے ایک نئی مشکل کھڑی کردی ہے اور ممکنہ علاج اور گمراہ کن دعووں، سازشی نظریات کے نتیجے میں عوام کی جانوں کو خطرہ بڑھ گیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کو وائرس کے حوالے سے اب تک 200 سے زائد افواہیں اور کہانیاں ملی ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کو آن لائن پھیلنے والی غلط معلومات کے پھیلاو کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔تقریباً ایک ہزار 600 شرکا پر کنٹرولڈ ٹیسٹس کرتے ہوئے تحقیق میں معلوم ہوا کہ جھوٹے دعوے اس لیے شیئر کیے جاتے ہیں کیونکہ عوام نہیں جانتے کہ یہ قابل اعتبار بھی ہے یا نہیں۔ایک دوسرے ٹیسٹ میں جب عوام کو بتایا گیا کہ وہ جو شیئر کر رہے ہیں اس کے صحیح ہونے پر بھی غور کریں تو صحیح آگاہی کا پھیلاؤدگنا ہوگیا۔رپورٹ میں نتیجہ اخذ کیا گیا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کی جانب سے غلط معلومات کے پھیلاو کو محدود کرنے کے لیے اس کے صحیح ہونے کے حوالے سے ایک مداخلت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔۔یہ تو تھیں وہ باتیں جوہم اپنے اردگرد دیکھ رہے ہیں اور ہمارے مشاہدے میں آرہی ہیں۔۔
اب چلتے ہیں اپنی روایتی اوٹ پٹانگ باتوں کی طرف۔۔ کورونا کے حوالے سے بہت سی باتیں ہماری سوسائٹی میں زیرگردش ہیں۔۔ کوئی اسے امریکا کی کسی لیبارٹری کا ایجاد کردہ بتارہا ہے، کوئی اسے چین کا بائیوکیمیکل ہتھیار بتارہے ہیں جس کی وجہ سے وہ تیسری عالمی جنگ بھی جیت چکا۔۔ کوئی اپنے ایمانی عزم و حوصلے کی بنیاد پر دعوی کررہا ہے کہ۔۔کورونا وغیرہ کچھ نہیں یہ صرف خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ایک شوشا چھوڑا گیا ہے۔۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اس مرض سے بچنے کے لیے صرف اور صرف احتیاط ضروری ہے۔۔ جب کہ کورونا وائرس پر ریسرچ کرنے والے بتاتے ہیں کہ۔۔یہ انفلوائنزا کے خاندان کا ایک فرد ہے، اسے بگڑا ہوا زکام بھی کہہ سکتے ہیں۔۔اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں، اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد سو میں سے صرف دو فیصد ہے۔۔ وہ دو فیصد بھی اس لیے مررہے ہیں کہ وہ بروقت طبی امداد کے لیے اسپتال کا رخ نہیں کرپاتے۔۔ اس مرض کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ اس کا پتہ ہی تب لگتا ہے جب یہ انسانی جسم میں اپنی جگہ بناچکا ہوتا ہے۔۔جیسا کہ ہم نے شروع میں بتایا کہ کورونا وائرس کے حوالے سے کئی کہانیاں مارکیٹ میں چل رہی ہیں۔۔ایسی ہی ایک کہانی ہمارے پیارے دوست نے بھی ہمیں واٹس ایپ کی ہے۔۔ چلیے پہلے آپ کہانی سن لیں۔۔
شاید کسی کو ناہید خان کا وہ انٹرویو یاد ہو، جس میں انہوں نے کارساز دھماکے کا قصہ سناتے ہوئے بتایا تھا کہ۔۔ بینظیر صاحبہ نے انہیں پہلے دھماکے کے بعد، جب سب زمین پر گر پڑے تھے، تو کھڑے ہونے سے منع کیا تھا، یہ کہہ کر کہ ابھی رک جاؤ، ابھی دوسرا بھی ہوگا، اور دوسرا اصل ہوتا ہے، پہلا تو صرف مجمع اکھٹا کرنے کے لیے ہوتا ہے۔۔ کوئٹہ میں بھی وکیلوں کی پوری کھیپ جو صاف کی گئی تھی، وہ بھی اسی طرح سے کی گئی تھی، پہلے چھوٹا دھماکہ پھر جب سب جمع ہوگئے تو اصل دھماکہ۔۔۔ دجالی لوگ بلاکی چالاکی سے کام لیتے ہیں۔۔ مسئلہ صرف ان کی چالاکی کو سمجھنے کا ہے۔۔ کرونا وائرس اصل میں وہ چھوٹا دھماکہ ہے، جس کے بعد ایک بڑا۔۔ بلکہ آخری دھماکہ ہوگا، اصل میں اس وائرس کے ذریعے، تمام دنیا میں اسکی ویکسین لگوانا لازمی قرار دے دیا جائے گا، آپ بغیر ویکسین لگوائے اور سرٹیفیکیٹ حاصل کیے، نہ ہوائی سفر کرسکیں گے، نہ حج و عمرہ، نہ زیارتوں کو جا سکیں گے، یہاں تک کہ نکاح نامہ یعنی شادی بھی نہ ہوسکے گی، بچوں کو اسکول میں داخلہ نہیں ملے گا، اس کام میں پہلے سے شامل بل گیٹس جیسے مخیر حضرات دل کھول کر غریب ممالک کی امداد کریں گے۔۔اب آپ کی شاید سمجھ میں یہ بھی آ جائے، کہ ایک کمپیوٹرسافٹ ویئر کی صلاحیت رکھنے والے دنیا کا امیر ترین شخص، اپنا کام چھوڑ کر ویکسین کی فیلڈ میں کیوں گھس گیا تھا۔۔ اس کام میں پانچ سال تک کا عرصہ لگ سکتا ہے، مگر اس کے بعد تمام لوگوں کی رگوں میں یہ ویکسین دوڑ رہی ہوگی، یوں سمجھیں کہ ایک سرکاری وائرس دوڑ رہا ہوگا، جسے کبھی بھی، کسی بھی طرح سے متحرک کیا جاسکے گا، کبھی بھی کہیں بھی کوئی وبا پھیلائی جاسکے گی، اور کم خرچ اور بالا نشین انداز سے ایسا حملہ کیا جاسکے گا، کہ جس میں نہ ہتھیار استعمال ہونگے، نہ املاک کو نقصان پہنچے گا۔۔اسی دوران دشمن کو ویکسین بیچ کر اور قرضہ دے کر مزید اپنے جال میں پھنسایا جا سکے گا۔۔اس تمام جنگ میں ظالم و غاصب ایک مددگار کے طور پر ابھرے گا جیسا کہ حدیث شریف میں دجال کا اپنے آپ کو مسیحا ظاہر کرنے کے بارے میں پہلے سے درج ہے۔۔تو بھائیو، کرونا یا کووڈ-19, کا کام صرف آپ کو ویکسین لگوانے کے لیے تیار کرنا ہے اصل دھماکہ اس کے بعد ہوگا۔۔
جو سازشی تھیوری ہم نے اوپر بتائی ہے آپ اس پر سوچئے۔۔میں سوچتا تھا کہ محبت سے بڑا کوئی دکھ نہیں لیکن پھر ایک روز میرا ”گوڈا“ منجی دے پاوے نال وجیا۔۔ایک ذہین و فطین شوہر نے بیوی کو کہا کہ شوہر کے پاس کبھی اپنے لیے وقت نہیں ہوتا، بیوی نے چیلنج کردیا کہ ثابت کرکے دکھاؤ۔۔ شوہر نے جھٹ سے اپنا موبائل نمبر ملاکر بیگم کے کان پر رکھا، جہاں آواز آرہی تھی، آپ کا مطلوبہ نمبر اس وقت مصروف ہے۔۔بیوی لاجواب ہوگئی تو شوہر مسکرایا اور کہنے لگا۔۔ پس ثابت ہوا کہ شوہر کے پاس اپنے لیے وقت نہیں ہے۔۔ایک روز باباجی نے باتوں باتوں میں پوچھا، یار عمران کتنے دن ہوگئے لاہور سے کراچی منتقل ہوئے، ہم نے کہا باباجی سولہ مہینے ہوگئے۔۔ باباجی مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ بہت دن ہوگئے لاہوریوں نے کوئی نئی ڈش متعارف نہیں کرائی؟؟
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خوشی کا راز وہ نہیں جو تم دیکھتے ہو۔ خوشی زیادہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ کم میں لطف اندوز ہونے میں ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں