نئے صوبے کی آواز
شیئر کریں
فرزانہ زین بُلند و بالا پہاڑوں کی دھرتی خیبر پختونخواہ کی ایک ایسی قابل فخر بیٹی ہے جس کی شخصیت کی استقامت نے ہمیشہ راستی کے پیغام کو عام کیا ہے ۔ وہ اپنی سوچ اور فکر کے حوالے سے اپنی ہم عصر خواتین رہنماؤں میں بہت ممتاز ہیں۔ جہاں اس بیٹی سے رشک کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں اُس کے سامنے احساس کمتری کا شکار لوگوں کی بھی ایک پوری کھیپ موجود ہے ۔ خیبر پختونخواہ کے صوبائی وزیر شاہ فرمان نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو پختون تحریک کے پروگرام سے دور رہنے کی ہدایت کی ۔ لیکن خیبر پختونخواہ میں سرگرم ہونے والی پختون تحریک کے پس منظر میں فرزانہ زین نے بڑے سلیقے اور قرینے سے کہا کہ ’’جب اپنے مُلک کے لوگ اپنے ہی اداروں سے ناراض ہوں ۔ تو ان کی بات سُننی چاہئے ۔ جس حد تک ممکن ہو تلافی کرنا چاہئے نہ کہ غدار اور غلط الفاظ استعمال کرنے چاہئے۔‘‘
ؔ یہاں مجھے سیموئل جانسن کا یہ قول بھی یاد آ رہا ہے کہ ’’ حُب الوطنی ایک بد معاش کی آخری پناہ ہوتی ہے ۔ساتھ ہی پاکستان کی پولیس سروس کے نابغہ روزگار ذوالفقار احمد چیمہ کے یہ الفاظ میرے ذہن میں مچلنے لگے ہیں جو انہوں نے اپنی آپ بیتی کے باب ’’ پولیس سروس کا پہلا پڑاؤ ۔ سبی ‘‘ میں یوں قلمبند کیے ہیں کہ ’’بلوچستان میں اس وقت جو حالات ہیں اس کی ذمہ داری مشرف حکومت پر ہے، نواب بُگٹی کے ساتھ رائلٹی کا جھگڑا تھا ۔وہ اپنی ناراضگیوں کے باوجود پاکستان کے آئین کے تحت سیاست کرتے رہے، مشرف حکومت ضد پر اڑی رہی اور انتہائی قابل احترام بزرگ رہنما کو قتل کر کے بلوچ نوجوانوں کو ایک شہید فراہم کردیا گیا ۔نواب اکبر بُگٹی مرحوم کو چند کروڑ مزید نہ دیے گئے اور بعد میں امن و امان ٹھیک کرنے پر کروڑوں لگانے پڑے ۔‘‘
مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے والے سات ارکان اسمبلی نے سابق نگران وزیر اعظم میر بلخ شیر مزاری کی سرپرستی میں ’’ جنوبی پنجاب محاذ ‘‘ کے نام سے اپنا ایک علیحدہ گروپ قائم کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے نام سے ایک علیحدہ صوبے کے قیام کو اپنا نصب العین قرار دیا ہے۔ آج کے کالم میں بات سے بات نکلنے کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ اس محاذ کے مطالبے سے کالم نگار کو 2013 ء کے اوائل کے وہ دن یاد آ گئے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے چوتھے دورِ اقتدار کی آئینی عمر پوری ہونے والی تھی تو پنجاب میں ’’ جنوبی پنجاب بہاولپور ‘‘ نام سے ایک نئے صوبے کے قیام کا اعلان کر دیا گیا تھا۔ اس اعلان کا حکومت کے اختتام کے ساتھ ہی خاتمہ ہو گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے بلاول بھٹو زرداری ملتان میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی میزبانی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران تقریر کرتے ہوئے ’’ گھِن سوں گھِن سوں ۔ صوبہ گھِن سوں ۔۔‘‘ کی قوالی بھی پیش کرتے سُنے گئے ۔ دلچسپی کی بات ہے سید مردان علی شاہ پیر پگاڑو مرحوم کی سفارش سے نگران وزیر اعظم بنائے جانے والے میر بلخ شیر مزاری اور ان کے ساتھیوں کا اپنے نئے نصب العین کے حصول کے لیے ہوم ورک تلاش کرنے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
بلاول بھٹو اور اس نئے محاذ کی سابقہ کارکردگی کی بنیاد پر خاطر خواہ پزیرائی ابھی اپنے ظہور میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ اطلاعات کی وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب کے اس حوالے سے اعتراضات اس قدر بے جا بھی نہیں کہ انہیں یکسر مسترد کر دیا جائے ۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے سردار فاروق احمد خان لغاری صدرپاکستان کے منصب پر فائز رہے ۔ ان کے بیٹے اور خاندان عرصہ دراز سے اقتدار میں ہے ۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے مزاری اور دریشک اور کھوسہ خاندان کبھی بھی اقتدار میں اپنے وافر حصے سے محروم نہیں رہے ۔پنجاب کے سابق سات گورنروں مشتاق احمد گورمانی ، ملک غلام مصطفی کھر ، نواب صادق حُسین قریشی ، محمد عباس عباسی ، مخدوم سجاد حُسین قریشی ، سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ ، سید احمد محمود اور موجودہ گورنر محمد رفیق رجوانہ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے۔ ملتان کے سید یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم اور قومی اسمبلی کے اسپیکر رہے ۔ اسی طرح سید فخر امام بھی قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے ۔ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے ۔ سردار ذوالفقارعلی خان کھوسہ اور شاہ محمود قریشی کے پاس پنجاب کی وزارت خزانہ کا قلمدان بھی رہا ۔ خطے کے غلام حیدر وائیں اور سردار دوست محمد کھوسہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔لیکن پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وسیع و عریض جنوبی حصہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ترقی سے کوسوں دور ، پسماندگی اور درمانگی کا شکار ہے ۔ یہ درست ہے کہ سینٹرل پنجاب کی قیادت نے ترقی کے ثمرات اس علاقے تک پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ لیکن اس سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ اس علاقے خاص طور پر بہاولپور ڈویژن ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کی قیادت نے بھی ایسی کوئی قابل ذکر کاوش نہیں کی جو یہاں کی ترقی کے لیے مہمیز کا کام دے سکے ۔ البتہ بہاولپور کے عباسی خاندان کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے کہ انہوں نے صرف بہاولپور کی تعمیرو ترقی کے لیے یاد گار کام کیے بلکہ وہ شروع دن سے ہی بہاولپور صوبے کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ اور ریاست بہاولپور کے پاکستان میں انضمام کے وقت کیے جانے والے وعدے کے ایفاء کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔
پاکستان میں پہلے پہل یہ روایت عام تھی کہ صوبے اور اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والوں پر فوری طور پر غداری کا الزام لگا دیا جاتا تھا ۔ سرائیکی صوبے کی تحریک کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخواہ میں صوبہ ہزارہ کے حامیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اس کا واضح ثبوت ہے۔
پاکستانی سماج میں روایتی سیاست سے بغاوت کا جو عنصر سامنے آیا ہے اُس نے سیاست کی ترجیحات بدل ڈالی ہیں ۔اب پنجاب میں بھی صورتحال بدل رہی ہے ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کے دو صوبائی ادوار میں ترقی کو لاہور اور سینٹرل پنجاب کے ایک آدھ علاقے تک محدود رکھنے اور سوشل میڈیا کے آگاہی ثمرات کی بدولت جنوبی پنجاب کے علاقے کی سیاسی اپروچ نے زبردست انگڑائی لی ہے۔ عوام کہنے لگے ہیں کہ گزشتہ ستر سالہ دور میں جنوبی پنجاب کے لوگوں کی محرومیوں پر مرہم نہیں رکھا جا سکا تو اس کے لیے مزید انتظار کرنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہذا س علاقے میں آئینی حدود میں رہتے ہوئے نئے صوبے کے قیام کی جدوجہد کو وقت کی ضرورت کوایقان کی حد تک سمجھا جانے لگا ہے ۔ یہی وجہ ہے تمام سیاسی جماعتیں اس نعرے کو اپنانے پر مجبور ہیں ۔ بلاول بھٹو زرداری کی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے تین تین دور اقتدار میں اس مسئلے کے حل پر نہ تو کوئی توجہ دے پائی ہیں اور نہ ہی ان دونوں جماعتوں نے اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار نمایاں طریقے سے ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نئے صوبے کے قیام کے حامی ان دونوں جماعتوں سے اُمید بہار رکھنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
عمران خان نے گزشتہ دنوں نئے صوبے کی تجویز کی حمایت میں جو بیان دیا ہے اُسے جنوبی پنجاب کے علاقے میں بھر پور پزیرائی ملی ہے۔پختونوں کے حقوق خاص کر راؤ انوار کے حوالے سے موجود تحفظات اور نئے صوبوں کے قیام کی تحریکوں جن میں صوبہ جنوبی پنجاب ، سرائیکی صوبہ ، صوبہ ہزار اور پوٹھوہار صوبے کی تحریک شامل ہیں ان سب کے مطالبوں پر کھلے ذہن کے ساتھ غوروخوض کرنا چاہیے او ر انتظامی بنیادوں پر نئے صوبوں یا انتظامی یونٹوں کی تشکیل کو کسی جانب سے انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اس حوالے سے قومی سطح پر ایک ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے تو صورتحال کسی حوصلہ افزا ء اور مفید نتیجے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔ کسی کے موقف کو بھی بلا سوچے سمجھے غداری اور ملک دشمنی کا سرٹیفیکٹ دینے سے گریز کرنا چاہئے۔