کشمیر جل رہا ہے
شیئر کریں
حامد رفیق
کشمیر کا لفظ زبان پر آتے ہی انسانی وجود میں ایک لہر دوڑ جاتی ہے اور ذہن میں ایک نیا پیغام چھوڑ جاتی ہے۔ ظلم اور بربریت کی ایک داستان جو کہ گزشتہ ستر سال سے جاری ہے اور ہر آنے والے دن اس میں تیزی آرہی ہے۔گزشتہ چند سالوں میں جو کشمیری تحریک میں ایک نیا ولولہ پیدا ہوا ہے وہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا ۔برہان وانی کی شہادت نے کشمیری تحریک کو ایک نیا مقام دیا ہے اور ہر آنے والے دن میں یہ تحریک اپنی منزل کے قریب تر ہورہی ہے ۔ بلا شبہ تحریکوں کومنزلوں پر پہنچ کے لیے قربانیوں کی لازوال داستان رقم کر نا پڑتی ہے ۔
اب تک ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 1989ء تا 28 فروری 2018ء تک بھارتی حکومت نے کشمیر میں جعلی مقابلے میں 94,922 افراد کو شہید 7 ہزار گمنام جبکہ 7 ہزار کو حراست کے دوران ظلم کر کے شہید کیا گیا۔یہ وہ اعداد و شمار ہیں جو کسی طرح منظر عام پر آگئے جبکہ گمنام قتل کتنے ہو گئے اس کی کوئی خیرخبر نہیں ہے ۔یکم اپریل کو ہونے والی شہادتوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو ایک نیا پیغام دیا ہے جس میں 13 مجاھد 4 سویلین کی شھادتیں ہوئیں اور بھارتی فوج کی بدترین فائرنگ سے 200 کشمیری زخمی ہوئے۔جانوروں کے حقوق کی بات کرنے والو !کیا کشمیر میں ہونے والا ظلم نظر نہیں آتا؟ کیا وہ انسان نہیں؟ آخر ان کا قصور کیا ہے؟ کیا آزادی کی بات کرنا جرم ہے؟ ہے کوئی انسانی حقوق کی بات کرنے والا۔ کشمیر کو صرف اس بات کی سزا دی جارہی ہے کے وہ اپنی آزادی اور پاکستان سے الحاق کی بات کرتے ہیں ۔ان چند دنوں میں ظلم اور بربریت کی انتہا ہو گئی جس میں اسرائیل ساختہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے گئے۔سید علی گیلانی، یاسین ملک، اشرف صحرائی اور میر واعظ عمرفاروق سمیت حریت قیادت کو نظر بند و گرفتار کیا گیا۔ وادی جموں کشمیر جیل کامنظر پیش کررہی ہے ۔
جب نہتے کشمیری شہداء کے جسد خاکی کشمیریوں کے حوالے کئے گئے تو ایک نیا ہنگامہ پھوٹ گیا ۔ضلع شوپیاں میں یونیورسٹی اور کالجز کے طالب علم بھارتی فورسز کی بربریت کے خلاف شدید احتجاج اور پاکستان کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔آپا آسیہ اندرابی نے اپنے پیغام میں پاکستانی حکمرانوں کو جھنجھوڑا ۔پاکستانی عوام نے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے اور پاکستانی سیاست دانوں کو خواب غفلت سے جگانے کی سعی بھی کی ۔ سوشل میڈیا پر کشمیریوں سے اظہار یکجہتی اور دنیا کو بھارتی چہرہ دکھانے کی غرض سے مختلف کشمیری،پاکستانی ایکٹویسٹ متحرک رہے ۔ ٹویٹر پر #KashmirBleedsکے نام سے ٹرینڈ مسلسل ٹاپ پر رہا جو کہ کشمیریوں سے پاکستانیوں کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ایک وقت آیا جب بھارت نے کشمیر کے سارے علاقے میںانٹرنیٹ کی سہولت بند کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون جیسی بنیادی سہولت کو بھی بند کردیا لیکن پھر بھی کشمیریوں کی آواز دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر گونجتی رہی۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے مذمتی بیانات جاری کیے گئے ۔کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کا رویہ اس بار بھی شرمناک حد تک رہا ۔
کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے انہیں سب سے پہلے کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنی چاہیے تھی لیکن جب ان سے میڈیا نے کشمیر کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا جواب تھا کیا میں حملہ کردوں؟اس پر ان کی ہنسی صحیح معنوں میں مجھے تو زہر لگی ۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سے فوری طور پر مولانا فضل الرحمن کو ہٹایا جائے اور ان کی جگہ کسی ایسے بندے کو لایا جائے جو کشمیر کاز کو مکمل طور پر سمجھتا ہو اور اپنی زندگی بغیر کسی لالچ کے اس کاز کے لیے وقف کرچکا ہو۔کشمیر یوں کو ان کا حق دئیے بغیر اس خطے میں امن کا قیام ناممکنات میں سے ہے ۔امریکہ جو بھارتی وفاداری میں محب وطن پاکستانیوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے اور ان پر پابندیوں کا جال پھینک کر بھارتی لابی کو خوش کرتا ہے ۔کشمیر میں بھارتی ظلم پر اس کی نظر نہیں جاتی ۔بھارتی کشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہورہا ہے لیکن اقوام متحدہ ،امریکہ اور دیگر مقتدر طاقتیں اسے کچھ بھی کہنے سے انکاری ہیں ۔ایسے میں اگر کشمیری بھارت کے اندر گھس کر کسی فوجی کانوائے یاپھر کسی فوجی تنصیبات پر حملہ کرتے تو پوری دنیا چیخ پڑتی ہے کہ یہ دہشت گردی ہے ۔جناب والا! جو بھارت کرتا ہے وہ کیا ہے؟ذرا اس طرف بھی اپنی نظر کرم کیجیے گا ۔