پیپلز پارٹی خواتین کی نمائندگی سے ہاتھ کھینچنے لگی ؟؟
شیئر کریں
سندھ کابینہ سے آخری خاتون وزیر بھی ہٹادی گئیں
ایک ہی خاتون وزیر بچی تھیں ، ان کو بھی کابینہ سے الگ کر دیا گیا ، ضیاءالحسن لنجارکو وزارت قانون و جیل خانہ جات کا قلمدان تفویض
نئے وزیر فریال تالپر کے قریبی ساتھی ہیں،وزیر اعلیٰ کی پھرتیاں ختم ، سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی طرح بے اختیار بنا دیا گیا
الیاس احمد
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ جب گزشتہ سال وزیر اعلیٰ بنے تھے تو اس وقت ان کی پوزیشن دوسری تھی، وہ بڑے فعال تھے ہر جگہ خود پہنچ جاتے تھے لیکن صرف چار ماہ بعد وزیراعلیٰ ٹھنڈے پڑ گئے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کو سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کی طرح بے اختیار بنا دیا گیا ہے۔ محکمہ آبپاشی محکمہ ورکس اینڈ سروسز، محکمہ تعلیم محکمہ صحت اور محکمہ بلدیات میں ان کی ایک نہیں چلتی اور وہ صرف چند چھوٹے محکموں کے وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں ۔حال ہی میں ان سے آئی جی سندھ پولیس کے تبادلے کے لیے جس طرح گھناﺅنا کردار ادا کرنے دیا گیا اس سے ان کا سیاسی کردار بھی داﺅ پر لگ گیا ہے۔
ان کی کابینہ میں اب تبدیلیوں کا آغاز کر دیا گیا ہے ،ان کی کابینہ میں ایک نئے وزیر کا اضافہ جبکہ خاتون وزیر شمیم ممتاز کا انخلا ہوا ہے ۔ ان دنوں سندھ کابینہ میں صرف ایک ہی خاتون وزیربچی تھیں لیکن ان کو بھی کابینہ سے الگ کر دیا گیا ہے اور ضیاءالحسن لنجار کو نیا وزیر بنایا گیا ہے۔ ضیاءالحسن لنجار رکن قومی اسمبلی فریال تالپور کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں، ان کا سندھ کابینہ میں شامل ہونا اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اب محترمہ فریال تالپور جو بھی بات کابینہ تک پہنچانا چاہیں گی، وہ ضیاءالحسن لنجار کے ذریعہ پہنچا دیں گی، اس کے علاوہ کابینہ کی کار کردگی پر بھی ایک چیک اینڈ بیلنس رکھ دیا گیا ہے، کابینہ کے بارے میں جو رپورٹ ضیاءالحسن لنجاربالائی قیادت کو دیں گے اس کی اپنی اہمیت ہوگی۔ حالانکہ سہیل انور سیال بھی فریال تالپور کی نمائندگی کرتے ہیں مگر وہ بھی اتنے اعتماد والے نہیں ہیں، جتنے ضیاءالحسن لنجار ہیں، وزیر اعلیٰ سندھ کو اب ہوشیار رہنا ہوگا۔
دوسرا اہم فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ ضیاءالحسن لنجار کو محکمہ قانون اور محکمہ جیل خانہ جات کے قلمدان دیئے گئے ہیں جس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ پی پی کی اعلیٰ قیادت خصوصاً آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو اب نثار کھوڑو پر اعتماد نہیں رہا ،اس لیے یہ محکمہ ان سے واپس لے کر ضیاءالحسن لنجار کو دیا گیا ہے۔ اب جو قانون سازی ہوگی وہ ضیاءالحسن لنجار کی منظوری سے ہوگی اور وہ کسی بھی قانون سازی سے قبل وزیراعلیٰ کے بجائے آصف زرداری اور فریال تالپور سے منظوری لیں گے۔ اس طرح ان کو دوسرا محکمہ جیل خانہ جات کا دیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر حکومت کسی سیاسی مخالف کو جیل بھیجنا چاہیے تو اس پر کتنی سختی اور کتنی نرمی کرنی ہے اس کا فیصلہ پی پی کی اعلیٰ قیادت کرے گی اور ضیاءالحسن لنجار اس پر عمل کریں گے اور اس میں حکومت سندھ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ ایک خاتون وزیر کو ہٹانے کے بعد ثابت ہوگیا کہ حکومت سندھ اب خواتین کو آگے لانے کے بجائے ان کو پیچھے دھکیل رہی ہے ۔ حکومت سندھ پہلے ہی بیورو کریسی میں خواتین کو نظر انداز کر رہی ہے اور 45 محکموں میں سے صرف دو خواتین کو سیکریٹری بنایا گیا ہے اور سندھ سے تعلق رکھنے والے تین اعلیٰ افسران سندھ کے بجائے وفاق میں خدمات سرانجام دینے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ سندھ کابینہ میں حالیہ توسیع کے بعد وزیراعلیٰ پر ایک اور تلوار لٹکنے والی ہے جب شرجیل میمن کو سندھ کابینہ میں شامل کیا جائے گا ،شرجیل کے آنے سے حکومت سندھ پر وزیراعلیٰ کی گرفت ڈھیلی پڑ جائے گی اور پھر متبادل وزرائے اعلیٰ کام کریں گے۔ اس وقت نصف درجن محکموں کا وزیراعلیٰ سے قطع تعلق ہے، محکمہ آبپاشی جیسا اہم ترین محکمہ دبئی میں بیٹھے حاجی علی حسن زرداری چلا رہے ہیں حتیٰ کہ اس محکمے کے کاغذات میں قلمدان وزیراعلیٰ کے پاس ہے لیکن اس محکمہ میں وزیراعلیٰ کو ایک چپڑاسی تبدیل کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے ۔اب سندھ کابینہ دو تین حصوں میں بٹ گئی ہے، وزیراعلیٰ کی پوزیشن دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اور ان پر چند وزراءحاوی ہوتے جا رہے ہیں اور وزیراعلیٰ بے بسی سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ کو کابینہ کے علاوہ غیر سرکاری کردار یا نان اسٹیٹ ایکٹرز کا بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے، ان میں ایک نام انور مجید کا ہے جو پولیس کے انچارج ہیں، ان کی فرمائش پر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے لیے حکومت سندھ نے اپنی جس جگ ہنسائی کروائی ہے اور اس پر جو ہزیمت اٹھانا پڑی اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یوں سندھ کابینہ میں چند وزراءبراہ راست آصف زرداری اور محترمہ فریال تالپور سے رابطہ رکھتے اور احکامات لیتے ہیں اور کابینہ سے باہر بیٹھے ہوئے نان اسٹیٹ ایکٹرز الگ سے وزیراعلیٰ سندھ پر حاوی ہیں۔