میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
لڑاؤ اور حکومت کرو

لڑاؤ اور حکومت کرو

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۲ اپریل ۲۰۱۷

شیئر کریں

ایک دور تھا کہ مشرق تا مغرب تاج برطانیہ کاجھنڈا لہراتا تھا اور یہ جھنڈا 24 گھنٹے سورج کی کرنوں سے منور رہتا تھا لیکن آج یہ جھنڈا کئی کئی دن تک سورج کی روشنی کو ترستا رہتا ہے ۔ایسا کیوں ہو؟ا یہ تاریخ کا ایسا سبق ہے جو کوئی بھی حکمران پڑھنے کو تیار نہیں۔ تقریباً 500سال قبل جب برطانیہ کے حکمرانوں نے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھا تو اس کے لیے ایک طویل منصوبہ بندی کی تھی ،جس علاقے پر قبضہ کرنا ہوتا پہلے اس میں تاجر کے روپ میں داخل ہوتے، وہاں تجارت کے بہانے اپنے پیر مضبوط کرتے۔ یہ دور بادشاہوں کا تھا، بادشاہوں کے حضور نذرانے پیش کئے جاتے، یوں بادشاہوں کی قربت حاصل ہو جاتی اور سازش کی پہلی لڑی مکمل ہو جاتی ۔جب بادشاہوں کی خوشنودی مل جاتی تو اس ملک میں نقل وحمل آسان ہو جاتی، تخت شاہی تک رسائی یوں بھی شاہ کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ کلید شاید آج کے قاری کے سمجھ میں نہ آئے تو اس کو آج کی زبان میں” ماسٹر- کی "بھی کہہ سکتے ہیں۔( اب ہمیں اپنی مادری زبان کچھ مشکل سے سمجھ آتی ہے اور سابقہ آقاو¿ں کی زبان جلد سمجھ آجاتی ہے)۔جب برصغیر میں انگریزپہلی دفعہ داخل ہوئے تواس وقت 16 ویں صدی اختتام کو پہنچ رہی تھی، یہ چند انگریز تاجروں کا قافلہ تھا جو اپنی دہقانی کشتیوں پر سوار ہو کر بمبئی کی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوا تھا ۔یہ اپنے ساتھ چند یورپی اشیاءلاتے تھے اور ہندوستان کے گرم مصالحہ جات لے جانا چاہتے تھے، ابتداءمیں یہ تجارتی قافلے صرف تجارت تک محدود رہے لیکن اس کے بعد منصوبہ بندی کے تحت ان انگریزوں نے جو کہ یہاں مستقل سکونت اختیار کر گئے تھے، مقامی آبادیوں میں اپنا میل جول بڑھایا اور اینگلو انڈین کلچر کو پروان چڑھایا ۔اینگلو انڈین گھرانہ وہ ہوتا تھا جس میں زن وشوہر میں سے ایک کا تعلق انگلینڈاور دوسرے/دوسری کا تعلق ہندوستان سے ہوتا تھا۔ اس کلچر کی جانب ہندووں خصوصاً ہندووں کے مذہبی طور پر پس ماندہ طبقہ کا رجوع زیادہ تھا وہ اس طرح معاشر ہ میں ایک بہتر مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہو پاتا تھا۔ آج بھی اس نسل کی باقیات پائی جاتی ہیں ۔ہندووں کے مقابلے میں مسلمانوں کا اس طرف رجوع بہت کم تھا ،وہ بھی اس طرح انگلش کلچر میںرنگ جانے والا نہیں تھا ،جو مسلمان اس کلچر کا حصہ بنے انہوں نے بھی فریق مخالف کو تبدیلی مذہب پر آمادہ کیا۔(اب اس تبدیلی مذہب میں دین سے تعلق کا کتنا حصہ تھا یہ تو مذہب تبدیل کرنے والا اور رب ہی جان سکتے ہیں، کسی کے بھی قبول اسلام کے بعد اس کے سابق مذہب کے حوالے سے سوال اُٹھانا دراصل اس کو اسلام سے متنفر کرنا ہے ،اس کے تبدیلی مذہب کے بعد بھی اس کو دائرہ اسلام میں قبول نہیں کیا جا رہا ہے ،یہ رویہ مسلمانوں میں شدت سے موجود ہے اور اگر معاملہ کسی صاحب حیثیت سے وابستہ ہو تو اس کو زیادہ شک کی نگاہ سے دیکھا اور اس کے پس پردہ مفادات کو کھوجا جاتا ہے، یوںبھی کھوج لگانے کی اسلام میں منع ہے لیکن ہندووں کے ساتھ رہ کر ہندووں کی یہ بیماری مسلمانوں میں سرایت کر گئی ہے۔ ہندو اپنی بستی میں نئے آنے والے کی ذات اور مذہبی طبقہ کو کھوج لازماً لگاتے ہیں کہ ان کے مذہب کے مطابق ہر ذات اور مذہبی طبقہ کے مندرمخصوص ہیں۔ نچلی ذات والا اعلیٰ ذات کے مندر جاکر پوجا نہیں کر سکتا ،ہر ذات اور مذہبی طبقہ کے دیوی دیوتا مختلف ہیں۔ جب انگریز تجارت کے نام پر ہندوستان میں داخل ہوئے تو اس وقت یہ طبقاتی تقسیم بہت گہری تھی مسلمانوں میں بھی تقسیم موجود تھی لیکن یہ تقسیم طبقات کی نہیںنکتہ نظراور نظریاتی بنیادوں پر تھی ،یہ فقہ کی بنیاد پر قائم تقسیم تھی ۔غالب طبقہ اہل سنت سے تعلق رکھتا تھا تو ایک حصہ جو کہ مسلمان آبادی کے8 سے9 فیصد کے درمیان تھا فقہ جعفریہ سے تعلق رکھتا تھا۔تاج برطانیہ کی عمل داری میں آسڑیلیا، نیوزی لینڈ، کینیڈاسمیت کئی ممالک آتے تھے۔ یوں مشرق تامغرب برطانوی سامراج کی حکمرانی تھی۔ انگریزوں نے تقریباً ایک ہزار سال قبل ایک پالیسی بنائی تھی، دنیا میں نوآبادیاتی نظام قائم کرنے کے لیے اس پالیسی کا بنیادی نکتہ جس علاقہ پر قبضہ کرنا مقصود ہوتاتھا، وہاں کے باشندوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیکر ٹکراو¿ کی فضاءپیدا کرتے۔ مقامی باشندوں کی اجتماعیت کو توڑ کر اپنا قبضہ پکا کرنا ہوتا تھا، اگر آج بھی آسڑیلیا کا دورہ کیا جائے، مشرقی اور مغربی آسڑیلیا کے عوام میں بہت دوریاں پائی جاتی ہیں حالانکہ دونوں آسڑیلین ہیں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ اور آسڑیلیا میں بھی تعلقات کی نوعیت اچھی نہیں ہے ،یہ سب برطانوی نو آبادیاتی نظام کا کارنامہ ہے۔ پھر برصغیر میں جب انگریزداخل ہوئے تو ہندوستان کی واضح اکثریت جو ہندو مذہب سے تعلق رکھتی تھی وہ مذہبی طور پر 4طبقات میں تقسیم تھی اور اس کا حکمران طبقہ اقلیت میں تھا پھر ہندوستان پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی ،مسلمانوں نے مقامی آبادی کو مکمل آزادی دے رکھی تھی، ان کے مذہبی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائی تھی۔ یوں مقامی آبادی کی غالب اکثریت حکمرانوں سے خوش تھی کہ غیر ہندو حکمرانوں کے باعث انہیں وہ حقوق حاصل تھے جو ہندومذہب کے مطابق حکمران طبقہ قرار پانے والے انہیں دینے پر آمادہ نہیں تھے اور مذہب کے مطابق بھی انہیں نہیں مل سکتے تھے۔ یوں ان کی ہمدردیاں اعلیٰ ذات کے ہندووں کے بجائے مسلمان حکمرانوں کے ساتھ تھیں۔انگریز سامراج کا فلسفہ ہے کہ عوام کو لڑاکر ہی بہتر حکومت کی جا سکتی ہے جس کا اندازہ انگلینڈ اور آئرلینڈ کے مابین کشیدگی سے کیا جاسکتا ہے۔ برصغیر کے ہندووں میںتقسیم کی گہری خلیج موجود تھی لیکن مسلمانوں میں ایسا کوئ
ی مسئلہ نہیں تھا۔ فقہ جعفریہ اوراہلسنت کا اختلاف ذاتی ومفاداتی نہیں تھا نکتہ نظر کا اختلاف تھا، یہ علمی مباحثہ تھا، ہے اور رہے گا کہ مباحثہ سے سوچ کی نئی جہت کھلتی ہے۔ لیکن انگریز سامراج نے اہلسنت میں 4 مسالک کے فروعی اختلاف کو ہوا دی، برصغیر میں امام احمدبن حنبل، امام شافعی اور امام مالک کے فقہی پیروکاروں کی نسبت امام ابو حنیفہ کے پیروکاروں کی اکثریت تھی۔ امام ابو حنیفہ کے مکتبہ فکر سے وابستہ برصغیر کی سب سے بڑی جامعہ دیوبند میں تھی جہاں سے بلاشبہ لاکھوں طلبہ نے فیض حاصل کیا تھا او ر نہ صرف برصغیر میں بلکہ دنیا کے کونے کونے میں اپنی مادرعلمی کا نام روشن کیا تھا۔
انگریز سامراج کی طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ 1857 میںاقتدار پر قبضہ کی صورت نکلا۔ انگریز کو ہندووں سے مزاحمت کا کوئی خطرہ نہیں تھا اور انہوں نے پہلے مرحلہ پر جعفریہ، اہل سنت اختلاف کو اُٹھایا اور لکھنو کو اس کا مرکز بنایا۔ لیکن یہ چونکہ علمی اختلاف ہے، یوں انگریز اس سے وہ فائدہ نہ اُٹھا سکا جو اس کا مقصد تھا۔ اس کے بعد کاذب کا بیج بویا یہ پودا بھی بارآور نہ ہو سکا۔ انگریز بیک وقت کئی منصوبوں پر ایک ساتھ کام کرتا ہے، اس نے برصغیر میں اپنے اے اور بی پلان کی ناکامی کے بعد پلان سی کے تحت اہل سنت خصوصاً امام ابو حنیفہ کے پیروکاروں میں موجود فروعی اختلاف کو ہوا دی اور دیوبندی اور بریلوی تفریق پیدا کی، یہ انگریز کی سازش کا حصہ ہے کہ آج مساجدُ اللہ کے گھر پر فقہ کا نام بھی لکھا نظر آتا ہے اورمسلمان مساجد کو دوسرے مسلک کی مسجد قراردیکر اس میں ادائیگی نماز سے بھی گریز کرتے ہیں۔برصغیر میں انگریزوں کا قیام طویل نہ ہو سکا، اول تویہاں مزاحمت بہت تھی، دوئم یہ کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے دنیا کا نقشہ بدل دیاتھا اور اس جنگ(دوسری جنگ عظیم)میں ہندوستانی سپاہیوں کی اشد ضرورت تھی یوں اس نے برصغیر سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن ابتدائی منصوبے میں برصغیر سے رخصت مارچ1948 میں ہونا تھی لیکن 1946 کے اواخر میں ملکہ برطانیہ نے وائسرائے ہند کو تبدیل کرتے ہوئے لارڈماوٹنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند مقرر کیا، لارڈ ماو¿ننٹ بیٹن اور اس کی بیوی یہودی النسل تھے اور اسرائیل کے قیام کی منصوبہ بندی سے آگاہ تھے۔برصغیر پر قبضہ کے کچھ عرصہ بعد ہی تاج برطانیہ کے نمائندے وائسرائے ہند نے کشمیر کو ڈوگروں کے ہاتھوں صرف 75 لاکھ روپے کے عوض فروخت کر دیا تھا، اس وقت کشمیر کی آبادی 50 لاکھ کے قریب تھی یوں فی فرد قیمت ڈیڑھ روپیہ وصول کی گئی تھی۔جب 3 جون1947 کو برصغیر کی تقسیم اورقیام پاکستان کے اعلان اور منصوبہ کے مطابق خودمختار ریاستوں کو اختیار دیئے گئے تھے کہ (1) خودمختار حیثیت برقراررکھیں(2) کسی بھی ملک کے ساتھ الحاق کافیصلہ کرلیں۔ جس میں ریاست کی آبادی کے مذہب کو مدنظر رکھا جائے کہ تقسیم کے فارمولے کے تحت مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان اور غیر مسلم اکثریت والا علاقہ ہندوستان کا حصہ بننا تھا۔ کشمیر میں78 فیصد مسلمان اور 22 فیصد غیر مسلم تھے یوں تقسیم کے اصول کے تحت کشمیر کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا تھا۔ اسی طرح14 جولائی1947 کو کشمیر کی اسمبلی نے اتفاق رائے سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی تھی، اس اسمبلی میں موجود غیرمسلم ارکان نے بھی قرارداد کی مخالفت یا غیر حاضر رہنے کے بجائے حمایت میں ووٹ دئیے تھے۔ یہ قرارداد وائسرائے ہند کو بھی ارسال کردی گئی تھی لیکن فتنہ پرور انگریز لارڈ ماو¿نٹ بیٹن جو کہ کشمیری النسل پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن سروجنی ٹائینڈو کے اشارہ آبروکو حکم کا درجہ دیتا تھا، نے اس قرارداد کی توثیق نہیں کی ،یوں کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا معاملہ التواءکا شکار ہو گیا۔ بعدازاں ڈوگرہ راجہ ہری سنگھ کی ایک مشکوک دستاویز کی توثیق کر دی جس وقت راجہ ہری سنگھ کی جانب سے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز گورنرجنرل ہند لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کو پیش کی گئی، اس وقت راجہ ہری سنگھ ہاتھوں میں لرزہ کے مرض میں مبتلا ہو چکا تھا لیکن اس دستاویز پر ثبت دستخط ظاہر کرتے تھے کہ دستخط کرنے والے کے ہاتھوں میں لرزہ نہیں ہے۔ اس ہی طرح اسمبلی کی قرارداد او ر تقسیم ہند کے اصول کی موجودگی میں مہاراجہ ہری سنگھ کی اس دستاویز کی حیثیت ردی کے کاغذ سے زائد نہ تھی لیکن گورنرجنرل ہندوستان کی جانب سے اس دستاویز کی منظوری کے ساتھ ہی اکتوبر1947 میں بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں داخل کر دیں۔ دوسری جانب پاکستانی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل گریسی نے قائد اعظم کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا، جنرل گریسی کے اس انکار نے محمد علی جناح کو سخت صدمہ پہنچایا تھا۔ اس وقت وزیر اور محسود قبائل نے پیش قدمی کی اور کشمیر کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیا، جنوری1948 میں جب یہ قبائلی لشکر سرینگر سے 20 میل سے بھی کم فاصلہ پر تھا اور سرینگر کے سرنگوں ہونے اورمکمل کشمیر کے اس قبائلی لشکر کے مفتوحہ علاقہ میں تبدیل ہونے میں دو دن کا وقفہ بھی نہیں تھا، پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی بہن سروجنی ٹائینڈو جو کہ اس وقت اقوام متحدہ میں ہندوستان کی سفیر تھی کو گورنر جنرل ہندوستان لارڈ ماو¿نٹ بیٹن کے ذریعہ سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے اور کشمیر میں جنگ بندی کرانے کی درخواست کی۔ اس درخواست میں وعدہ کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کے بعد کشمیری عوام کی رائے کے مطابق الحاق کا فیصلہ کیا جائے گا لیکن پنڈت کا وہ وعدہ ہی کیا جو پورا ہو جائے۔ یوں 70 سال سے کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے ،اصولی اور اخلاقی طورپر تاج برطانیہ یہ مسئلہ حل کرانے کا پابند ہے کہ اس نے ہی تقسیم ہند کا اصول وضع کیا تھا لیکن مارکیٹ کا لالچ برطانیہ کے کاربواہٹ سیکٹر کوحق کافیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور لگتا یوں ہے کہ برطانیہ کے کاربواہٹ سیکٹر کے سامنے تاج برطانیہ بھی بے بس ہے۔
٭٭….٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں