کاش مشتاق سکھیرا ایسے نہ کرتے ۔۔!
شیئر کریں
یہ درست ہے کہ شخصیات کے مقابلے میں ادارے اہم ہوتے ہیں مگر بعض شخصیات بھی ایسی ہوتی ہے کہ ان کی پرفارمنس اور اعمال کی وجہ سے ان کا قد ادارے سے بھی بڑا لگنے لگتا ہے بلکہ ایسی شخصیات یا ایسے لیڈر اپنے اپنے ادارے کی پہچان، وقار اور عزت بن جاتے ہیں۔ ماضی قریب میں پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اپنی کار کردگی اور اپنے اعمال کی وجہ سے نہ صرف پوری قوم کے ہیرو بن گئے بلکہ انہوں نے پاک فوج کا کھویا ہوا وقار دوبارہ بحال کیا حالانکہ جن حالات میں ان کو پاک فوج کی کمان ملی تھی اس سے قوم کا بچہ بچہ واقف ہے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان سے پہلے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ذاتی مفادات کو ادارے کی نسبت زیادہ ترجیح دی جس سے ان کی ذاتی ساکھ کے ساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ بھی شدید متاثر ہوئی۔ اب جنرل راحیل شریف بطور آرمی کے سربراہ ادارے کا جو معیار چھوڑ کر گئے ہیں، ان کے قد اور امیج تک پہنچنے کے لیے ان کے پیشرو جنرل قمر جاوید باجوہ کو کافی محنت کرنی پڑ رہی ہے اور آنے والے وقت میں اس سے بھی زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ اسی طرح ناصر خان درانی نے بطور سربراہ پولیس خیبر پختونخوا اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر نہ صرف اپنی شخصیت کا لوہا منوایا بلکہ دہشت گردی اور کرپشن کی ماری سپاہ کو نئے سرے سے اپنے پاﺅں پر کھڑا کر دیا اور راحیل شریف کی طرح عزت کے ساتھ رخصت ہونے کو ترجیح دی۔ دوسری طرف آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا 24 گھنٹے قبل سابق ہوگئے۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے محکمہ پولیس کی سربراہی کی مگر ان کو دوران ملازمت اور رخصت ہوتے وقت جس قدر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کی شائد ہی ڈسپلن فورس میں ایسی کوئی مثال ملتی ہو۔ موصوف نے دوران ملازمت نہ اپنی اور نہ ہی ادارے کی عزت کی پروا کی، شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کے فارمولے کے عین مطابق مراعات سے بھر پور وی وی آئی پی نوکری کے پروٹوکول میں موصوف یہ بھی بھول گئے کہ کل کو ریٹائرمنٹ کے مرحلے سے بھی گزرنا ہے اور بادشاہ سلامت کی نوکری کے بعد پھر کبھی عام شہری کی حیثیت سے بھی زندگی گزارنی ہے۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کے کارناموں میں سانحہ ماڈل ٹاﺅن ، چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن کے دوران بے گناہ پولیس اہلکاروں کی شہادتوں سمیت کئی واقعات شامل ہیں۔ موصوف نے ریٹائرمنٹ کے بعد کی نوکری پکی کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تاریخ کی بدترین شیلنگ کی اور سینکڑوں کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر جیلوں میں بند کر دیا۔ ان کے بھائیوں کی طرف سے جائیدادوں پر قبضے کی شکایت عام تھی، کرپشن ، کمیشن کے الزامات بھی ان کے لیے نئی بات نہ تھی۔ آخر میں اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل ممتاز صنعتکار میاں منشاءکو پولیس کی وردیوں کا ٹھیکہ دیکر موصوف نے جو نیک نامی کمائی ہے، اس سے تو الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے بعد پورا سوشل میڈیا ان کو اور ٹھیکہ لینے والوں کو جن الفاظ میں خراج تحسین پیش کررہا ہے اگر کوئی عزت دار شخص یہ گفتگو ،فقرے سن لے اور تحریریں پڑھ لے وہ شرم سے ڈھوب مرے۔ مگر یہاں تو پیسہ چاہئے، شرم کون سی شے ہے؟ اور کہاں سے ملتی ہے۔ سابق آئی جی مشتاق سکھیرا کے خلاف مختلف ادوار میں عدالتوں میں ہونے والی رٹوں اور ان کے خلاف اور ان کے خاندان کے خلاف شکایات کی اگر کتابیں مرتب کی جائیں تو درجن کے لگ بھگ کئی سو صفحات کی کتابیں چھپ سکتی ہیں ۔مجھے لگتا ہے کہ ٹرمپ کی تمام تر غیر اخلاقی حرکات اور ایک سو سے زائد مقدمات میں ملوث ہونے کے باوجود امریکی صدر منتخب ہو جانے اور پاکستان میں حکمرانوں پر پاناما کیس کے بعد بھی ان کی پاپولیرٹی کم ہونے کی بجائے بڑھ جانے جیسے معجزوں کے بعد مشتاق سکھیرا سمیت کئی دیگر حضرات نے بھی فیصلہ کر لیا ہے کہ جس قدر ہاتھ مارا جا سکتا ہے مار لیا جائے۔ روایات ، اخلاقیات نام کی چیزیں ہماری سوسائٹی سمیت دنیا بھر سے رخصت ہوتی جا رہی ہیں۔ مشتاق سکھیرا کو تاریخ جہاں ان کے بعض ذاتی اور نجی نوعیت کے اعمال پر معاف نہیں کریگی وہاں پر ان کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے بعد ان کو خدا تعالیٰ نے ایک ایسا موقع دیا تھا کہ وہ اگر قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے تولیڈر بنتے ، پوسٹنگ، ٹرانسفر اور مراعات سے اوپر اٹھ کر سوچتے تو وہ اپنی سپاہ کو مکمل طور پر غیر سیاسی اور بہترین فورس بنا سکتے تھے کیونکہ سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کے سیاسی استعمال کے خلاف میڈیا، سول سوسائٹی اور زیادہ تر سیاسی جماعتیں با آواز بلند مطالبہ کر رہی تھیں کہ پولیس کو مکمل طور پر غیر سیاسی ہونا چاہئے مگر مشتاق سکھیرا نے وہ موقع ضائع کر دیا اور محکمہ پولیس کو مزید سیاسی بنا دیا۔اور محکمہ پولیس میں پہلے سے موجود گلوﺅں میں اضافہ کر دیا ۔ہو سکتا ہے مشتاق سکھیرا کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی سرکاری نوکری مل جائے مگر اس نوکری اور ذاتی چھوٹے موٹے مفادات کے لیے انہوں نے جو پاپڑ بیلے ہیں اگر وہ ایسا نہ کرتے تو بہت بہتر ہوتا۔ کاش! وہ ایسا نہ کرتے ۔۔۔تو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے اب ان کی جگہ آنے والے نئے کپتان کو محکمہ کے لیے غیر معمولی طور پر نہ صرف کام کرنا پڑے گا بلکہ اپنی لیڈر شپ کے ذریعے پولیس کے کھوئے ہوئے وقار کو دوبارہ بحال کرنا ہوگا۔