پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
شیئر کریں
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کے ملکی حالات نے انقلابی شاعر حبیب جالب کی یادیں تازہ کردی ہیں اور آج تو ویسے بھی انکی30ویں برسی ہے جو ہر سال 12مارچ کو منائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھ پڑھ کر میاں شہباز شریف آج وزیر اعظم بن چکے ہیں لیکن قوم کی حالت نہیں بدلی۔ آج بھی لوگ بھوک سے خودکشیاں کررہے ہیں جبکہ حبیب جالب کا جو پیغام ہے اس کے برعکس ہے۔ وہ خود مرنے کے قائل نہیں بلکہ جوافراد ایسے حالات پیدا کررہے ہیں کہ غریب انسان موت کو گلے لگا لے وہ ان کو غرق کرنے کے قائل ہیں۔ غربت کی کوکھ سے جنم لینے والے حبیب جالب نے اپنی آنکھوں سے جو دیکھا ،اسے من و عن شاعری کے قالب میں ڈھال دیا۔ نتائج سے بے پروا ہ ہو کر حبیب جالب نے ہر دور میں جابر اور آمر حکمران کے سامنے کلمہ حق بیان کیا۔
حبیب جالب کے سرکش قلم نے محکوم اور مجبور انسانوں کوظلم کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ عطا کیا۔ حبیب جالب بنیادی طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ کمیونزم کے حامی تھے اور وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سرگرم رکن بھی تھے۔ حبیب جالب کی انقلابی شاعری کے پانچ مجموعے منظر عام پر آئے جن میں بر گ آور، سر مقتل،عہد ستم،ذکر بہتے لہو کااور گوشے میں قفس کے قابل ذکر ہیں۔ انہیں پاکستانی فلم ” زرقا ” کے ایک مشہور گانے ” رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ” سے شہرت حاصل ہوئی۔ حبیب جالب 12مارچ 1993ء کو علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔حبیب جالب کی وفات کے 16برس بعد انہیںان کی خدمات کے عوض حکومت پاکستان نے نشان امتیاز سے نوازا۔ فیض احمد فیض نے کہا تھاکہ حبیب جالب عوام کے شاعر تھے۔ انہوں نے فوجی بغاوتوں اور منتظمین کی مخالفت کی اور کئی بار جیل بھی گئے۔
حبیب جالب برطانوی ہندوستان میں 24 مارچ 1928 کو ہوشیار پور کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اُن کا نام حبیب احمد رکھا گیا ۔ اُنہوں نے تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کر لی پھر کراچی کے روزنامہ امروز میں بطور پروف ریڈر کام کیا۔ وہ ایک ترقی پسند مصنف تھے اور جلد ہی اپنی پرجوش شاعری سے سامعین کو اپنی گرفت میں لینا شروع کر دیا۔ انہوں نے سادہ زبان میں لکھا سادہ انداز اپنایا اور عام لوگوں اور مسائل کو حل کیا لیکن ان کے الفاظ کے پیچھے یقین اس کی آواز کی موسیقی اور اس کی جذباتی توانائی کے ساتھ سماجی و سیاسی تناظر کی حساسیت نے سامعین کو ہلا کر رکھ دیا۔ جالب ایوب خان کی آمریت سے کبھی مفاہمت نہیں کر سکے اور جب ایوب خان نے 1962 میں ملک میں اپنا تیار کردہ آئین نافذ کیا جسے ایک سابق وزیراعظم چوہدری محمد علی نے لائل پور کے کلاک ٹاور سے تشبیہ دی اس پر حبیب جالب نے اپنی مشہور نظم لکھی:
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
میں بھی خائف نہیں تختہ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
پھول شاخوں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جھوٹ کو ذہن کی لوٹ کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا
ایک اور واقعہ جو کہ ملک کی مزاحمتی لوک داستانوں کا حصہ بن چکا ہے مغربی پاکستان کے گورنر نواب آف کالاباغ نے فلمسٹار نیلو کو ایران کے شاہ رضا پہلوی کے سامنے رقص کرنے کی دعوت دی جس پراس نے انکار کر دیا اور پھر پولیس کو زبردستی اسے لانے کے لیے بھیجا گیا جس کی وجہ سے اس نے خودکشی کی کوشش بھی کی۔ اس واقعے نے جالب کی ایک نظم کو متاثر کیا، جسے بعد میں نیلو کے شوہر ریاض شاہد نے فلم زرقا (1969) میں شامل کیا نظم کا عنوان تھا رقصِ زنجیر (زنجیروں کا رقص) ۔
تو کہ ناواقفِ آدبِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
بے نظیر بھٹوجب اقتدار میں آئیں تو حبیب جالب سے پوچھا گیا کہ کیا آپ جمہوریت کے بعد کوئی تبدیلی محسوس کرتے ہیں تو انہوں نے کہا ۔
حال اب تک وہی ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
حبیب جالب نے اپنی شاعری کے ذریعے ہمیں پیغام دیا ہے کہ کبھی کسی ظلم کے سامنے سر نہیں جھکانا بلکہ اپنا حق بھی چھیننا ہے اور دوسروں کا حق بھی لیکر دینا ہے۔