اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب و ترہیب
شیئر کریں
ہم لوگ تجارت و زراعت وغیرہ مختلف ذرائع سے روپیہ پیسہ کمانے میں جتنی محنت اور کوشش کرکے اس کو جمع کرتے ہیں وہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ آنے والے وقت کے لیے کچھ ذخیرہ اپنے پاس محفوظ رہے تاکہ ضرورت کے وقت کام میں لایا جاسکے کہ نہ معلوم کس وقت کیا ضرورت پیش آجائے ، لیکن جو اصل ضرورت کا وقت ہے اور اُس کا پیش آنا بھی ضروری ہے اور اُس میں اپنی سخت احتیاج بھی ضروری ہے اور یہ بھی یقینی ہے کہ اُس وقت صرف وہی کام آئے گا جو اپنی زندگی میں خدائی بینک میں جمع کردیا گیا ہو کہ وہ تو جمع شدہ ذخیرہ بھی پورا پورا ملے گا اور اُس میں اللہ جل شانہ کی طرف سے اضافی بھی ہوتا رہے گا ، اُس کی طرف ہم لوگ بہت ہی کم التفات کرتے ہیں ، حالاں کہ دُنیا کی یہ زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ ہوجائے بہرحال ایک نہ ایک دن ختم ہوجانے والی ہے اور آخرت کی زندگی کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے ۔ دُنیا کی زندگی میں اگر اپنے پاس سرمایہ نہ رہے تو اِس وقت محنت مزدوری بھی کی جاسکتی ہے ، بھیگ مانگ کر بھی زندگی کے دن پورے کئے جاسکتے ہیں ، لیکن آخرت کی زندگی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں ہے ، وہاں صرف وہی کام آئے گا جو ذخیرہ کے طور پر آگے بھیج دیا گیا ۔
چنانچہ حضور اقدس کا پاک ارشاد ہے کہ : ” قیامت کے دن آدمی ایسا (ذلیل و ضعیف) لایا جائے گاجیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا ہے اور اللہ جل شانہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا ، ارشاد ہوگا کہ : ” میں نے تجھے مال عطا کیا ، حشم و خدم دیئے ، تجھ پر اپنی نعمتیں برسائیں تونے اِن سب انعامات میں کار گزاری کی ۔“ وہ عرض کرے گا کہ : ”میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو ( اپنی کوشش سے ) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا ، آپ مجھے دُنیا میں واپس کردیں ، مَیں وہ سب آپ کی خدمت میں حاضر کردوں ۔“ ارشاد ہوگا : ” مجھے تو وہ بتا جو تو نے زندگی میں ( ذخیرہ کے طور پر آخرت کے لئے ) آگے بھیجا ۔“ وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا کہ : ” میرے پروردگار! میں نے خوب مال جمع کیا اُس کو ( اپنی کوشش سے ) بہت بڑھایا اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اُس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا ، آپ مجھے دُنیا میں واپس کردیں ، مَیں وہ سب لے کر حاضر ہوں۔“ ( یعنی خوب صدقہ کروں تاکہ وہ سب یہاں میرے پاس آجائے ) چوں کہ اُس کے پاس کوئی ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا جو اُس نے اپنے لئے آگے بھیج دیا ہو ، اس لئے اُس کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا ۔“ ( ترمذی و مشکوٰة)
ایک اور حدیث میں حضور اقدس کا ارشاد وارد ہے کہ : ” مَیں جنت میں داخل ہو ا تو میں نے اُس کی دونوں جانب تین سطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں ، پہلی سطر میں ” لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ “ لکھا تھا ، دوسری سطر میں ”ما قدمنا وجدنا و ما اکلنا ربحنا و ما خلفنا خسرنا“ لکھا تھا ( یعنی جو ہم نے آگے بھیج دیا وہ پالیا اور جو دُنیا میں کھایا وہ نفع میں رہا اور جو کچھ چھوڑ آئے وہ نقصان میں رہا ) اور تیسری سطر میں لکھا تھا : ” امة مذنبة و رب غفور “ ( یعنی امت گناہ گار اور رب بخشنے والا ہے ۔( برکاتِ ذکر)
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ : ” جب آدمی مرجاتا ہے تو فرشتے پوچھتے ہیں کہ : ” کیا ذخیرہ اپنے حساب میں جمع کرایا ؟کیا چیز کل کے لئے بھیجی ؟ اور آدمی یہ پوچھتے ہیں کہ : ” کیا مال چھوڑا ؟۔“ ( مشکوٰة)
ایک اور حدیث میں ہے ، حضور نے دریافت فرمایا کہ : ” تم میں کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو ؟ ۔ “ صحابہؓ نے عرض کیا : ”یارسول اللہ ! ہم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو ۔“ حضور نے فرمایا : ” آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اُس نے آگے بھیج دیا اور جو چھوڑ گیا وہ اُس کا مال نہیں بلکہ یہ اُس کے وارث کا مال ہے ۔“ (مشکوٰة عن البخاری )
ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدس کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ : ” آدمی کہتا ہے : ” میرا مال ، میرا مال ۔“ اُس کے مال میں سے اُس کے لئے صرف تین چیزیں ہیں (۱) جو کھا کر ختم کردیا ۔ (۲) یا پہن کر پرانا کردیا ۔ (۳) یا اللہ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کرا دیا ۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اُس کا مال نہیں ( بلکہ وہ سب کچھ دوسرے ) لوگوں کے لئے چھوڑ جائے گا ۔“ (مشکوٰة)
ہمارے روز بھر کے شاہدہ میں یہ ایک عجیب باتاکثر و بیژتر آتی رہتی ہے کہ آدمی اکثر ایسے لوگوں کے لئے جمع کرتا ہے ، محنت اُٹھاتا ہے ، مصیبتیں جھیلتا ہے ، تنگی برداشت کرتا ہے ، جن کو وہ اپنی خواہش سے ایک پیسہ دینے کا بھی روادار نہیں ہوتا ، لیکن جمع کرکے آخر کار اُنہیں کے لئے چھوڑ جاتا ہے اور مقدرات اُنہی کو سارے کا وارث بنا دیتے ہیں جن کو وہ ذرا سا بھی دینا نہ چاہتا تھا ۔
حضرت ارباط بن سہیہ ؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے چند اشعار پڑھے جن کا مطلب یہ تھا کہ : ” آدمی کہتا ہے کہ میں نے مال بہت جمع کیا ، لیکن اکثر کمانے والا دوسروں(یعنی وارثوں ) کے لئے جمع کرتا ہے وہ خود تو اپنی زندگی میں اپنا بھی حساب لیتا رہتا ہے کہ کتنا مال کہاں خرچ ہوا ؟ کتنا کہاں خرچ ہوا ؟ لیکن بعد میں ایسے لوگوں کی لُوٹ کے لئے چھوڑ جاتا ہے جن سے حساب بھی نہیں لے سکتا کہ سارے کا سارا کہاں اُڑادیا ؟ پس آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں کھالے اور دوسروں کو کھلادے اور اپنے بخیل وارث سے چھین لے ۔ آدمی خود تو مرنے کے بعد نامراد رہتا ہے ( یعنی کوئی اِس کو اُس مال میں یاد نہیں رکھتا ) لیکن دوسرے لوگ اُس کے مال کو کھاتے اُڑاتے پھرتے ہیں ۔ آدمی خود تو اُس مال سے محروم ہوجاتا ہے اور دوسرے لوگ اِس سے اپنی خواہشات پوری کرلیتے ہیں ۔“ (اتحاف سادة المتقین )
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ : ”مَیں سب سے پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرتا ہوں ، اس کے بعد اپنے دوستوں کو : ”کہ ساتھ جانے والا مال صرف وہی ہے جس کو اللہ کے بینک میں جمع کرادیا ، اور جس کو جمع کرکے اور خوب بڑھاکر چھوڑ دیا وہ اپنے کام نہیں آتا ، بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے اور نہ ہی بیوی بچے پوچھتے ہیں ۔ الا ماشاءاللہ ۔ بلکہ اپنا ہی کیا کام آتا ہے ۔ ان سب کی محبتو ں کا خلاصہ دو چار دن ” ہائے ہائے “ کرنے اور پانچ سات مفت کے آنسو بہانے کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے ۔ بلکہ اگر اِن آنسوو¿ں میں بھی پیسے خرچ کرنا پڑیں تو یہ آنسو بھی نہ رہیں ۔
یہ خیال کہ اولاد کی خیر خواہی کی وجہ سے مال کو جمع کرکے چھوڑنا ہے ¾ نفس کا محض دھوکہ ہے ، صرف مال جمع کرکے اُن کے لئے چھوڑ جانا اُن کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے بلکہ شاید بد خواہی بن جائے ۔ اگر واقعی اولاد کی خیر خواہی مقصود ہے ، اگر واقعی یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد پریشان حال ، ذلیل و خوار نہ پھریں تو اُن کو مال دار چھوڑنے سے زیادہ ضروری اُن کو دین دار چھوڑنا ہے کہ بد دینی کے ساتھ مال بھی اوّلاً اُن کے پاس باقی نہ رہے گا بلکہ چند یوم کی شہوات و لذات میں اُڑ جائے گا اور اگر رہا بھی تو اپنے کسی کام کا نہیں ہے۔ اور دین داری کے ساتھ اگر مال نہ بھی ہو تو اُن کی دین داری اُن کے لئے بھی کام آنے والی چیز ہے اور اپنے لئے بھی کام آنے والی چیز ہے اور مال میں سے تو اپنے کام آنے والا صرف وہی ہے جو ساتھ لے گیا اور بس!۔( فضائل صدقات)