نادرا میگا سینٹر حیدری کوبرانچ منیجر نے اپنی ذاتی کمپنی میں تبدیل کردیا
شیئر کریں
( رپورٹ: جوہر مجید شاہ) ڈسٹرکٹ سینٹرل نادرا میگا سینٹر حیدری برانچ منیجر نے سرکاری ادارے کو اپنی ذاتی پرائیویٹ کمپنی میں تبدیل کردیا۔ منیجر اور اسکا فرنٹ مین کھلاڑی سینئر صحافی سے الجھتے ہوئے ہاتھا پائی کی کوشش کرتے رہے۔ گزشتہ روز صحافی اپنی بیٹی کے شناختی کارڈ کے حوالے سے سینٹر گئے دوپہر بارہ بجے سے رات گئے تک منفی اور اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے صحافی اور اسکی فیملی کو نہ صرف بے جا پریشان کیا بلکہ ذہنی اذیت بھی پہنچاتے رہے، موصوف منیجر نہ صرف پبلک ڈیلنگ سے یکسر نابلد ہیں بلکہ انکا انداز صوبے کے چیف ایگزیکٹو سے بھی بڑھ کر دکھائی دے رہا تھا، موصوف نے سرکاری دفتر اپنی میراث / ملکیت سمجھ رکھا ۔ موصوف نے سینٹر کے باہر موجود سیکورٹی گارڈز کو حکم دے رکھا ہے کہ کسی صحافی کو اپنی شناخت کروانے پر قطعی نہ چھوڑا جائے موصوف سے جب اس حکم نامے پر سوال کیا گیا تو فرمانے لگے میں نے کئی بڑے بڑے صحافیوں کو انٹرویو دیا ہے مجھے معلوم ہے صحافیوں کی اوقات، موصوف کا انداز سرکاری افسر سے زیادہ گلی کوچے کے غنڈے بدمعاش کا تھا موصوف نے سینٹر کو جیسے سی آئی اے سینٹر میں بدل رکھا ہے،موصوف کا بات کرنے کا انداز کسی جلاد کا سا تھا موصوف نادرا کا افسر کیا بنا جیسے چیف جسٹس سپریم کورٹ بن کے بیٹھا ہو اس قسم کے افسران اور انکی عادت و اطوار، رویہ نہ صرف شہریوں میں منفی جذبات کو فروغ دیتے ہیں بلکہ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بھی بغاوت کا باعث بنتے ہیں۔ موصوف اپنے تعلقات حساس اداروں سے بھی ظاہر کررہا تھا۔تعلقات کا بھاشن حکومتی سطح پر بھی جتلا رہا تھا، موصوف کو نادرا جیسے ادارے جس میں سارا شہر اور مختلف جماعتوں مسلک فرقے سے تعلق رکھنے والوں کا جم غفیر روزانہ کی بنیاد پر آتا ہو وہاں ایسے احمق معاملات فہمی سے نابلد شخص کی اہم ترین پوسٹ پر تعیناتی نہ صرف ادارے بلکہ حکام بالا کیلئے کئی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ نیز اس تعیناتی کو شہریوں کیلئے کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں کہا جاسکتا، جبکہ اس شخص کی موجودگی کسی بڑے حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہے ایسے شخص کا پبلک ڈیلنگ کے شعبہ میں مزید رہنا تباہ کن ہوسکتا ہے، مزکورہ شخص کی تعیناتی سے متعلق تحقیقات کی جائیں کہ آیا یہ شخص اس اہم سیٹ کی اہلیت بھی رکھتا تھا یا پھر یہ کسی اثر رسوخ یا سیاسی پرچی کا شاخسانہ ہے اس شخص کی تعلیمی اسناد کے ساتھ اسکے محلے علاقے سے بھی اسکا چال چلن اور ریکارڈ ماضی حال مستقبل کا معلوم کیا جائے، مزکورہ شخص نہ صرف محکمے بلکہ شہریوں کیلے بھی سنگین خطرات کا باعث ہے۔ مختلف سیاسی سماجی مذہبی جماعتوں اور شخصیات نے سپریم کورٹ وفاقی وزیر داخلہ وفاقی وزیر اطلاعات و مواصلات ڈائریکٹر جنرل فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی وزیر اعلیٰ سندھ گورنر سندھ وزیر داخلہ سندھ انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس تمام وفاقی و صوبائی تحقیقاتی اداروں سے اپنے فرائض منصبی اور اٹھائے گئے حلف کے عین مطابق سخت ترین قانونی و محکمہ جاتی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔