میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( تیسرا حصہ )

کراچی کے شہری اور ایم کیو ایم ( تیسرا حصہ )

ویب ڈیسک
اتوار, ۱۲ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

سید عامر نجیب
ایم کیو ایم اسی (80 ) کی دہائی کے آخری چار سالوں میں جب عملی سیاست میں ابھر رہی تھی ،ضیاءدور کے آخر ی بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور کراچی میں پہلی مرتبہ ان کا مئیر منتخب ہوا اس کے بعد 1988 کے قومی انتخابات میں ایم کیو ایم نے کراچی اور حیدر آباد کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر جدی پشتی اور سینئر سیاستدانوں اور ماضی میں کراچی و حیدرآباد کی نمائندگی کی دعویدار سیاسی و مذہبی جماعتوں کے نامزد امیدواروں کو عبرتناک شکست سے دوچار کردیا ۔ ماضی میں الیکشن جیتنے والے امیدوارں کی ضمانتیں ضبط ہو گئیں۔
کراچی کے شہریوں نے ایم کیو ایم پر اندھا اعتماد کرنا شروع کردیا، ادھر یہ سیاسی کامیابیاں ایم کیو ایم کو حاصل ہو رہیں تھیں اور تصویر کا دوسرا رخ یہ تھا کہ کراچی کے منظم سرکاری اسکولوں کا ڈسپلن تباہ کرنا شروع کردیا گیا تھا۔ اسکول انتظامیہ اور اساتذہ ان سیکنڈری اسکولوں کے کم عمر طالبعلوں کے سامنے بے بس ہو رہے تھے جو ایم کیو ایم کے یونٹوں اور سیکٹرز دفاتر میں بیٹھ کر مہاجر حقوق کے نام پر سرکشی اور بدمعاشی کا سبق سیکھ رہے تھے ۔ ایم کیو ایم قیادت کی یہ جذباتی اور سطحی سوچ تھی وہ جس قوم کی مسیحائی کا دعویٰ کر رہے تھے سطحی ذہن سے تیار کردہ ان کا ایجنڈا اس قوم کی گویا جڑیں کاٹ رہا تھا ، نویں دسویں کلاس کے طلبہ جو کبھی اساتذہ کے سامنے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے تھے وہ اساتذہ کو ڈراتے دھمکاتے پائے گئے ، چھوٹی کلاسوں کے طلباءکے لیڈر بن کر سرکاری اسکولوں کا نظم و ضبط تباہ کر ڈالا، آئے دن ہجوم کی صورت میں کلاسوں سے باہر نکلنا اور سیاسی کال پر پڑھائی کے دوران اسکولوں کو بند کرانا یہ معمول بن گیا تھا۔ اب نہ اساتذہ کا احترام ہو رہا تھا نہ اسکولوں کے اُن قوانین کا جس کی وجہ سے نظم و ضبط قائم رہتا ہے ۔ رفتہ رفتہ امتحانات کو بھی غیر موثر بنا دیا گیا اساتذہ اور اسکول انتظامیہ کو ڈرا دھمکا کر نقل کا کلچر عام ہو گیا ۔ سرکاری اسکول اس قدر غیر منظم ہوئے کہ عام لوگوں کا ان اسکولوں پر سے اعتماد اٹھتا گیا اور پھر پرائیوٹ اسکولوں ، ٹیوشن سینٹرز اور کو چنگ سینٹرز کا کلچر عام ہو نے لگا ۔ تعلیم دلانا مہنگا کام بن گیا اس کے باوجود اچھی اور معیاری تعلیم سے کراچی کے شہریوں کی اکثریت محروم ہو گئی جو اس سے پہلے انھیں فری میں دستیاب تھی۔
کراچی کی تعلیم پر شب خون مارنے کے پس پردہ ذہنیت کیا کارفرما تھی ، کیا کوئی سازش تھی یا کسی ملک دشمن کا دیا ہوا ایجنڈا تھا ؟ میرے خیال میں ایسا کچھ نہ تھا اصل مسئلہ ایم کیو ایم قیادت کے متعصبانہ اور سطحی مائنڈ سیٹ کا تھا، اُن کا ذہن یہ تھا کہ سندھ کے محکموں میں بھرتی ہو کر افسر بننے والے تعلیم کی وجہ سے نہیں اپنے سیاسی اثر رسوخ کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں اور جب سندھ کے دیہاتوں سے اُٹھ کر اندرون سندھ کے اسکولوں اور کالجز سے نقلیں کر کے پاس ہونے والے یا جعلی ڈگریوں کے ذریعے سرکاری نوکریاں حاصل کرنے والے محکموں اور اداروں کو چلا رہے ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا ضرورت ہے کہ ہمارے لوگ تعلیم کے حصول کے لیے اتنی محنت کریں جب محنت کے بغیر منزل مل سکتی ہے تو پھر محنت کیوں کی جائے تعلیم کے معاملے میںایم کیو ایم قیادت کی مجرمانہ لاپرواہی اور غفلت انھیں قوموں کی قیادت کے حوالے سے نا اہل ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔
تعلیم کا مقصد صرف نوکری کا حصول سمجھ لینا حماقت ہے ، تعلیم زندگی اور سماج کی ضرورت ہے ۔ ایک طرف کراچی کے شہریوں کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں یہ ہاتھ ہو رہا تھا اور دوسری طرف ایم کیو ایم یہ تاثر دینے میں کامیاب تھی کہ اس نے کراچی اور حیدر آباد کی نمائندگی کے لئے پڑھے لکھے لوگ قومی اور صوبائی اسمبلی میں بھیجے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے یہ تعلیم یافتہ ارکان اسمبلی اُن ہی سرکاری تعلیمی اداروں کے فیض یافتہ تھے جنھیں اب ایم کیو ایم کی پالیسیاں تباہ کرنے پر تُلی ہوئی تھیں۔ کراچی کے سرکاری اسکولوں کی ویرانی، نقل کلچر ، جعلی ڈگریوں کا کاروبار ، غیر معیاری پرائیوٹ اسکولوں کا فروغ اور ٹیوشن و کوچنگ سینٹرز کا کاروبار اسی دور میں پھلا پھولا جب کہ کراچی کے شہریوں نے اپنی قیادت ایم کیو ایم کو سونپی ہوئی تھی اگر ایم کیو ایم قیادت کو تعلیم کی اہمیت کا درست شعور ہوتا اور وہ ان لوگوں کے ساتھ مخلص بھی ہوتی جن کی وہ قیادت کر رہی تھی تو حکومت میں نہ ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے منظم نیٹ ورک کے ذریعے کراچی کی تعلیم کو تباہی سے بچا سکتی تھی لیکن یہ لوگ نہ صرف حکومت میں تھے بلکہ صوبائی وزارت تعلیم بھی ان کے ہاتھوں میں رہی ، مشرف دور میں اُنھیں صوبے میں بے انتہا اختیارات بھی حاصل ہوئے لیکن اصل میں اُن کے ایجنڈے اور ترجیحات میں تعلیم کو اہمیت حاصل ہی نہیں تھی ۔ آئے دن کی ہڑتالوں اور یوم سوگ نے کتنے امتحانات ملتوی کروائے اور کتنا تعلیم کا حرج کیا وہ ایک الگ داستان ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم کا ایک بھی احتجاج تعلیم کی حمایت کے لئے نہیں تھا ۔ ( جاری ہے )
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں