شہر قائد بدنظمی کے سمندر میں ڈوبا ہوا ہے
شیئر کریں
یہ کراچی شہر نہیں یہ شہر قائد ہے، منی پاکستان ہے، بین الاقوامی شہر ہے، علم و ادب اور روشنیوں کا شہر ہے، اور اس میں بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس شہر کی عوام بیدار مغز، دور اندیش اور فہم و فراست کی حامل ہے ،یہ ان کا ہی حسن کمال تھا کہ ان کی سوچ اور کارکردگی سے اس شہر کو عظےم اعزازات ملے اور ہم آج ماضی، حال اور مستقبل کا ایک نقشہ اور جغرافیہ سامنے پڑا ہم دیکھ رہے ہیں، جب ہم ماضی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں امن و امان سے لے کر ادب و احترام نظر آرہے ہیں اور امن اور ادب اس طرح قائم و دائم تھے کہ یہ شہر ماں کی گود کے بعد دوسری گود کا درجہ حاصل کرچکا تھا اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ماضی کی تاریخ شہر خموشاں میں چلی گئی اور اس کی تمام تر رعنائیاں دفن ہوگئیں۔
ہم ماضی قریب کی حقیقت کو دیکھتے ہیں کہ جس طرح ماضی بعید میں پاکستان بھر سے غریب، دانشمند اور محب وطن اس شہر میں تشریف فرما ہوئے تو انہوں نے اس شہر کا پرچم بھی سرنگوں نہیں ہونے دیا بلکہ بلند ہی رکھا لیکن یہ ماضی قریب کے حالات تھے کہ یہ شہر اپنی حقیقت سے دور نکل گیا اسی طرح ملک بھر کی سیاست کا یہاں جمعہ بازار لگ گیا اور ہر وہ کردار ادا کیا گیا جس کی وجہ سے اس شہر کا تقدس مجروح ہوگیا، ہم پاکستان تحریک انصاف کی نظریاتی جدوجہد کے ہمسفر ہوں گے اور عمران خان کی سیاست کے نہ صرف امین ہوں گے بلکہ شانہ بشانہ ہوکر قومی بقاءاور ملی ارتقاءکی جدوجہد میں شامل ہوگئے لیکن ہمیں بھی حالات اور وقت نے گردش زمانہ کے سمندر میں دھکیل دیا اور عمران خان میاں نواز شریف کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں اہل فکرو دانش اس جنگ کے نتائج میں میاں نواز شریف کی شکست اور عمران خان کو فاتح نہیں سمجھتے چونکہ قوم تماشائی کا کردار ادا کررہی چونکہ قوم یہ سمجھ چکی ہے کہ اب ہماری قومی سیاست کا کوئی اصول نہیں، عوام مسائل کے سمندر میں گری پڑی ہے اور سیاستدان اقتدار کے تحفظ اور حصول کی طبع آزمائی میں مصروف ہیں، قومی مسائل کو شمار کرنا مشکل ہے اور وزیر اعظم ہائی وے کی افتتاحی تقریبات اور فیتے کاٹنے میں مصروف ہیں یہ شہر کراچی پاکستان کے وقار کی عظمت کا نشان ہے لیکن اس شہر کے راستے ختم اور بند ہیں یہاں تک کہ بچوں کی اسکول تک پہنچ بھی مشکل ہوچکی، سڑکیں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں بلکہ قبرستان کا نمونہ بن چکی ہیں، پورا شہر گندگی کا قلعہ بن چکا ہے کوئی پرسان حال نہیں اور نہ ہی کوئی انتظامیہ ہے ہم عوام کی بے پناہ مشکلات سے پریشان ضرور ہیں لیکن ہماری بے بسی بھی موجود ہے کہ ہم جاننے اور سمجھنے کے باوجود نقش فریادی کا کردار ادا کررہے ہیں چونکہ ہم اب اس شہر کو نا اہل اور مفاد پرستوں کے تسلط میں دیکھتے ہیں ایمان کے میرے درجے کا دینے پر مجبور ہیں کہ یہ غلط اور بڑا نظام ہے کوئی بھی امید کا پاسدار اور ذمہ دار نظر نہیں آرہا لیکن شائد قدرت کا انتقامی ڈنڈا حرکت میں آجائے اور وہ کام کر دکھائے جو حال کی ضرورت اور مستقبل کیلئے بہتر ہوسکتا ہے ہم نے ہمدردوں کو بلانا اس لئے ہے کہ ’چلے بھی آﺅ کہ گلشن کا کاروبار چلے‘۔
٭٭