میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلے کی انتخابی کیریز پر واپسی، امپائر کے خلاف تھرڈ ایمپائر کا فیصلہ

بلے کی انتخابی کیریز پر واپسی، امپائر کے خلاف تھرڈ ایمپائر کا فیصلہ

جرات ڈیسک
جمعه, ۱۲ جنوری ۲۰۲۴

شیئر کریں

پشاور ہائی کورٹ نے ایک مرتبہ پھر تحریک انصاف کو اُن کا انتخابی نشان واپس کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنی حدود سے عریاں تجاوز کرتے ہوئے 22/ دسمبر 2023ء کو تحریک انصاف سے ”بلا“ چھین لیا تھا۔ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ اُن بہت سے اقدامات کے تسلسل میں دیکھا گیا جو تحریک انصاف کو تنہا کرنے اور انتخابی عمل سے مکمل نوچ پھینکنے کے حوالے سے مسلسل جاری تھے۔ الیکشن کمیشن نے 22/ دسمبر کو یہ فیصلہ کا فی عرصے سے لٹکا کر تب کیا جب انتخابی شیڈول کا جبر مسلط ہو چکا تھا، تاکہ تحریک انصاف مزید پریشانیوں میں مبتلا ہو سکے۔ تحریک انصاف کے لیے عدالتی انصاف کی سکڑتی گنجائش میں یہ پشاور ہائیکورٹ تھی جہاں ایک رکنی بینچ نے بلے کو بحال کردیا تھا۔ مگر الیکشن کمیشن بضد رہا اور پشاور ہائیکورٹ کے ایک دوسرے ایک رکنی بینچ سے ہی بلے کی بحالی کا فیصلہ واپس کرا دیا۔ جس کے بعد یہ معاملہ ڈویژنل بینچ کے پاس چلا گیا۔ جہاں الیکشن کمیشن کو تفصیلی طور پر سنا گیا اور ایک حقیقی فیصلہ سامنے آگیایعنی بلا بحال ہو گیا۔عدالت نے اپنے مختصر حکم نامہ میں واضح کردیا ہے کہ الیکشن ایکٹ اور الیکشن رولز 2017ء کے سیکشن 215 اور 217کو کسی بھی شق کے ساتھ پڑھا جائے، پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان کی سختی سے حق دار ہے۔ان شقوں کے تحت الیکشن کمیشن کا حکم غیر قانونی اور بغیر کسی قانونی اختیا رکے تھا۔ عدالت کے مختصر فیصلے کے تین نکات ہیں، الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر کا فیصلہ غیر آئینی ہے، پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر جاری کیا جائے، پی ٹی آئی ’بلے‘کے نشان کی حقدار ہے، بلا بطور انتخابی نشان دیا جائے۔عدالت کے اس واضح حکم کے بعد الیکشن کمیشن کے تحریک انصاف کے خلاف جانبدارنہ اقدامات کے الزام کی تائید ہو جاتی ہے۔اُصولی طور پر الیکشن کمیشن انتخابات کے کھیل میں ایک ”ایماندارایمپائر“ کی طرح ہوتا ہے، مگر الیکشن کمیشن اب پاک بھارت میچ میں ”بھارتی ایمپائرز“ کی طرح کا کردار ادا کرنے لگا ہے۔ جس کے باعث ”تھرڈ ایمپائر“ کے کردار کی ضرورت محسوس کی گئی تھی۔ افسوس ناک طور پر الیکشن کمیشن کے جانبدارنہ فیصلوں کے باعث تحریک انصاف نے اس عامیانہ، جانبدارنہ اور متعصبانہ فیصلے پر ”تھرڈ ایمپائر“ سے ”ریویو“ لینے کا فیصلہ کیا۔ اور تھرڈ ایمپائر نے نہ صرف ایمپائر کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا، بلکہ بلے کی کریز میں واپسی کا فیصلہ بھی دے دیا۔ انتہائی بروقت ہونے والے اس فیصلے نے تحریک انصاف کے خلاف پیدا کی گئی شدید رکاؤٹوں میں سے ایک کو پلٹا دیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ فیصلے کے پیچھے ایک ”سازش“ کے موجود ہونے کا ذکر بار بار کیا جاتا رہا ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف سے سادہ لفظوں میں انتخابی نشان نہیں لیا گیا تھا، بلکہ اُس سے انتخابی نشان واپس لے کر کوئی دوسرا نشان پورے ملک میں یکساں بھی نہیں دیا جا رہا تھا۔ کیونکہ یہاں تحریک انصاف کے ”انٹرا پارٹی الیکشن“ کالعدم قرار دے کر دراصل اُس کا پارٹی تشخص ہی چھین لیا گیا تھا۔یہ ایک بھونڈا مذاق ہی تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلہ والے دن تک پی ٹی آئی کا نام ان 145جماعتوں میں شامل نہیں تھا جن کے انتخابی نشانات کی فہرست الیکشن کمیشن سے ریٹرننگ افسروں کو بھیجے گئے ایک مراسلے کا حصہ ہے۔ گویا اپنے تیئں الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو ایک جماعت کے طور پرہی تحلیل کردیا تھا۔ اس طرح تحریک انصاف کے امیدوار اب آزاد حیثیت میں ہی الگ الگ انتخابی نشانات کے ذریعے ہی چپکے چپکے 8/فروری کو الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔ یہ کھیل مختلف آزاد سرویز میں دراصل پی ٹی آئی کی 65 فیصد مقبولیت کے خلاف ایک بڑے منصوبے کی کامیابی کی بنیاد فراہم کرتی تھی۔ جس میں آزاد امیدواروں کے حق میں تحریک انصاف کی مہم چلانے میں دشواری، دور دراز دیہاتوں میں سادہ لوح حامیوں کے لیے انتخابی نشان سمجھنے میں پریشانی اور آزاد امیدواروں کو ہرانے میں زیادہ آسانی جیسے کھیل شامل تھے۔ اگر ان تمام رکاؤٹوں کو پھلانگ کر بھی کچھ آزاد امیدوار کامیاب ہو جاتے تو پھر ریاست کے متوازی بندوبست سے پہنچائی گئی آگ کی تپش اُنہیں پگھلانے کے کافی ہوتی۔ آزاد امیدوار کے طور پر پارٹی سے انحراف کی صورت میں لاگو ہونے والا قانون بھی یہاں کچھ نہ کر سکتا۔ یوں تحریک انصا ف کو انتخابات سے پہلے ہی شکست دینے کا یہ پورا منصوبہ اس کے انتخابی نشان”بلے“ کو چھیننے سے جڑا تھا۔پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے نے بلے کی واپسی کے ساتھ ہی دراصل تحریک انصاف کو اُس کا انتخابی تشخص ہی واپس نہیں کیا بلکہ بعد از انتخاب لگائے جانے والی ارکان کی غیر قانونی منڈی کے خدشات کا بھی کسی حد تک خاتمہ کردیا ہے۔ پشاور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ ان قانون پسندوں،سویلین بالادستی کے خواہاں شہریوں، انتخابات کی سرگرمیوں کوشفاف دیکھنے کے خواہش مندوں، قومی اداروں کو حدود آشنا رکھنے کی جدوجہد کرنے والوں اور حقیقی جمہوریت کی طرف پیش قدمی کرنے والے پاکستانیوں کو ایک ڈھارس دیتا ہے۔
درحقیقت یہ معاملہ کسی ایک جماعت کے ساتھ الیکشن کمیشن کے سلوک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہئے۔ یہ مجموعی طور پر ایک جمہوری تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پشاور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے خلاف کھڑے ہونے والے ایک وکیل نے ”لاڈلے“ کی معیوب اصطلاح استعمال کی تو عدالت نے اعلیٰ شعور کی سطح سے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہر سال دوسال میں ”لاڈلا“ تبدیل ہو جاتا ہے اس لیے سیاسی نہیں قانونی بات کریں“۔ ہمارے نزدیک یہ اس پورے معاملے کا سب سے اہم تناظر ہے جسے ایک ریمارکس کے طور پر شاید کہیں زیادہ دیر موضوع بحث بھی نہ بنایا جا سکے مگر اصل بات ہی یہی ہے اور یہ سادہ ریمارکس اس فیصلے کو دیکھنے کا ایک ہمہ گیر تناظر بھی مہیا کرتا ہے۔ کسی ایک جماعت کی مخالفت میں دوسری جماعتوں اور اُن کے کارکنوں کو ایک حد سے آگے نکلنا نہیں چاہئے اور نہ ہی اپنے مخالف جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی حمایت کا حصہ بننا چاہئے کیونکہ وقت کی سوئی گھوم کر کب لاڈلے کے ہیر پھیر کے ساتھ خود اُن کے خلاف بھی اسی نوع کی کارروائیوں کی موجب بن جائے، او ریوں یہ تمام کارروائیاں اُن جماعتوں کے خلاف بھی ہونے لگیں جو آج اس کی حمایت کر رہے ہیں اور وقت کے ہیر پھیر میں لاڈلے سے قابل نفرت بن گئے ہیں۔ پاکستان میں کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر ایک بات جو ابھی تک سیکھی نہیں جا رہی، وہ یہ ہے کہ اس کھیل میں ہارنے والے ہی نہیں جیتنے والے بھی ہار رہے ہیں۔ نون لیگ کی مثال سامنے ہے۔ نون لیگ کے خلاف جو بھی اقدامات اُٹھائے گئے، وہ سب طاقت کے اسی کھیل کا حصہ تھے، مگر تب عمران خان نے اس کی ذمہ داری اوڑھ لی اور وہ دیگر جماعتوں کے آسان ہدف بن گئے۔اب یہی کچھ اُن کے ساتھ زیادہ شدید طور پر ہورہا ہے تو نون لیگ جو کل اسی دائرے سے گھوم کر نکلی ہے وہ تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے وہی کچھ کرنے لگی ہے جو ماضی میں اس کاوتیرہ تھا۔ اگر وقت نے پھر اُنہیں اسی کڑی دھوپ میں پہنچا دیا ہے تو اس کا آج کا کردار خود اسی کے سامنے مثال کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اس کھیل میں نون لیگ نے اتنی بار اپنے چہرے اور کردار تبدیل کیے ہیں کہ اب وہ عوام میں اپنی مقبولیت کھو چکی ہے۔ اور اس کا یہ حال ہو گیا ہے کہ ایک ماہ سے کم مدت رہ جانے کے باوجود وہ ٹھیک طرح سے انتخابی میدان میں اُترنے کے قابل نہیں رہ گئی۔ یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک سبق ہے۔ تحریک انصاف پر تنقید ایک عمل ہے مگر تحریک انصاف کو سیاست سے نوچ پھینکنے کی مہم کامیاب بنانے کی یہ مثال آج بننے دی گئی تو کل دوسری جماعت کے خلاف بھی یہ دہرائے جا سکے گی۔ اس لیے پشاور ہائیکورٹ کا یہ فیصلہ صرف یہ نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو اس کا بلا واپس مل گیا۔ بلکہ یہ بھی ہے کہ نون لیگ سے کوئی شیر نہیں چھین سکتا، پیپلزپارٹی سے کوئی تیر نہیں چھین سکے گا اور جماعت اسلامی سے کوئی ترازو نہیں ہتھیا سکے گا۔ اس فیصلے کو تحریک انصاف کے بجائے ایک قانونی او روسیع تر جمہوری تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے اور اِسے دراصل جمہوری جدوجہد کے دائرے میں رکھ کر قانون کی بالادستی کی خواہش میں تولنے کی ضرورت ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے نے ایک اور طرح کی ضرورت کو بھی شدت سے محسوس کرایا ہے کہ کیا الیکشن کمیشن کو کہیں پر جواب دہ بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا یہ معاملہ بس یہاں چھوڑ دینا کافی ہے کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو واپس پلٹا دیا۔ کسی سرکاری ادارے پر بیٹھے ایک شخص کا اس طرح آمرانہ اور عامیانہ انداز سے بروئے کار آنے کے عمل کو اگر جواب دہ بنائے بغیر چھوڑ دیا گیا تو کل یہ رویے زیادہ بھیانک طور پر سامنے آئیں گے اور ملک کے اندر عملاً جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق واقعات جنم لینے لگیں گے۔ صرف الیکشن کمیشن نہیں بلکہ ملک میں تمام سرکاری اداروں پر بیٹھے جتنے بھی افراد ہیں اُن کے کردار اگر حد سے تجاوز کرتے ہیں یا وہ اپنے فرائض قواعد وضوابط کے تحت ادا نہیں کرتے تو اُن کی باز پرس کا ایک نظام حرکت میں لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ریاست پر اعتماد قائم ہو۔ ملک میں لاقانونیت کا موجودہ رواج دراصل اسی وجہ سے ہے کہ یہاں آج تک کسی کو بھی کہیں پر جواب دہ نہیں ٹہرایا گیا۔ یہ موقع ہے کہ یہاں اس کا احساس کر لیا جائے۔

 


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں