میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پرویز الہٰی کے اعتماد کا ووٹ تسلیم، گورنر پنجاب نے ڈی نوٹیفائی کا حکم واپس  لے لیا

پرویز الہٰی کے اعتماد کا ووٹ تسلیم، گورنر پنجاب نے ڈی نوٹیفائی کا حکم واپس لے لیا

جرات ڈیسک
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۲۳

شیئر کریں

لاہور ہائی کورٹ کے لارجر بنچ نے گورنر پنجاب بلیغ الرحمن کی جانب سے چودھری پرویز الہٰی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن واپس لینے کے بعد درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی، عدالت نے چیف سیکریٹری کا وزیر اعلیٰ  پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کا 22 دسمبر کا نوٹیفکیشن کالعدم کر دیا، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اسمبلی کے اندر معاملہ حل کر لیا جو اچھی چیز ہے، سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوگیا، ہم تو چاہتے ہیں ایسے معاملات میں عدالت کی مداخلت کم سے کم ہونی چاہیے۔ جمعرات کے روز عدالت عالیہ میں جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو وزارت اعلیٰ کے منصب سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف کی درخواست پر سماعت کی ۔ دیگر ججز میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل تھے۔ اٹارنی جنرل ، گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان اور پرویز الہٰی کے وکیل بیرسٹر سید علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔ پرویز الہٰی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اعتماد کا ووٹ لے لیا اور سیاسی بحران ختم کر دیا ہے۔ وکیل نے اعتماد کے ووٹ کی کاپی عدالت عدالت کے روبرو پیش کی۔ جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کتنے ووٹرز ممبران نے ووٹ کیا۔ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ 186 ممبران اسمبلی نے وزیر اعلیٰ  پنجاب کو ووٹ دیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ ایسے میں گورنر مطمئن ہو گئے ہیں؟ پرویز الہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے ایسے میں اب آپ کیا کہتے ہیں۔ جس پر گورنر پنجاب کے وکیل نے پرویز الہٰی کے اعتماد کے ووٹ پر اعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ بدھ کی رات اعتماد کے ووٹ کے لیے قواعد وضوابط پورے نہیں کیے گئے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اب بھی اگر گورنر کوئی نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں تو صورت حال کیا ہوگی۔ اگر گورنر کل دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہہ دیں تو پھر کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا اسمبلی فلور کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی، ووٹوں کے ریکارڈ کو عدالت دلائل کا حصہ بنا دیا جائے، گورنر کو اس پر اعتراض نہ ہو گا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کا جو پہلا حکم تھا کہ اعتماد کا ووٹ لیں وہ ٹیسٹ کرلیا ہے، گورنر کا دوسرا نوٹیفکیشن وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی  کرنے کا تھا جسے کالعدم ہونا چائیے۔ میرے سامنے انتہائی قابل ججز بیٹھے ہیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ قابل لوگ دیکھنے ہیں تو رات آٹھ بجے سے نو بجے ٹی وی دیکھا کریں۔ کیس ابھی چل رہا ہوتا ہے وہ لوگ تو کیس ختم کرکے رائے دے رہے ہوتے ہیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ اعتماد کا ووٹ تو آپ نے لیا ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا اور پھر آپ اسمبلی جا کر جو چاہیں وہ کریں ،آپ نے یہ جو کاپی پیش کی ہے کہ اس کے مطابق آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے ،اس کا مطلب ہے گورنر کا حکم درست تھا۔ اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہو جائے گا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر دونوں فریقین اس رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم جاری کردیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا۔ اگر دونوں فریقین رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم بھی جاری کردیتے ہیں کہ گورنر نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا وہ ٹیسٹ ہو گیا ہے۔وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ اس میں کسی اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہے عدالت آرڈر کرسکتی ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر دوبارہ گورنر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہے تو اس کے کیا نتاج نکلیں گے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر دوبارہ اعتماد کے ووٹ کا کہے تو کس طرح طے کیا جائے گا کہ گورنر کی وجوہات قابل اطمینان ہیں، کیا اسمبلی کے ہرسیشن پرگورنر کا اعتماد ہونا ضروری ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے تحت گورنر اور صدر قانون پر عمل درآمد کے پابند ہیں۔ وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ18 ویں ترامیم کے بعد گورنر کے پاس یہ اختیار آیا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر ہی وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ آج کیس کا فیصلہ ہوتا ہے کل کو گورنر پھر اس طرح کا حکم جاری کر دیتا ہے تو کیا صورتحال ہوگی۔ وکیل گورنر پنجاب نے کہا کہ معاملہ اسمبلی فلور پر ہی جائے گا۔ گورنر کے وکیل منصور اعوان نے آرٹیکل 109 کے تحت گورنر کے اختیارات بتا تے ہوئے کہا کہ گورنر کو آئین اجازت دیتا ہے وہ اجلاس بلائیں، پرویز الہٰی گورنر کی ایڈوائس پر عمل نہیں کر رہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر اجلاس بلانے کے لیے اسپیکر اسمبلی کو کہہ سکتا ہے، تاریخ اور وقت کا تعین اسپیکر کرتا ہے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ اعلیٰ عدالتوں نے گورنر کے سردار عارف نکئی کو ہٹانے کا آرڈر کالعدم قرار دے دیا، ہم گورنر کے آرڈر پر اپنی راے نہیں دے سکتے، صرف جوڈیشل فیصلہ دے سکتے ہیں۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ مستقبل میں گورنر کے ایسے اقدامات کو روکنے کے عدم اعتماد کے لیے کتنے دن ہونا چاہے؟ علی ظفر نے کہا کہ کم از کم 14 روز کا وقت ہونا چاہے۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ یہاں گورنر نے پرویز الہٰی کو صرف دو روز دیے جو مناسب وقت نہ تھا۔ علی ظفر نے کہا کہ گورنر پابند ہیں کہ کم سے کم سات دن کا نوٹس دیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اسمبلی سیشن چھٹی والے روز بھی ہو سکتا ہے۔ جسٹس عابد عزیز نے کہا کہ منظور وٹو کیس میں عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا تھا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر گورنر کے پاس زیادہ ممبر آ کر عدم اعتماد کرتے ہیں تو کیا اسپیکر تین اور سات روز کے تعین میں لگا رہے گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ہدایت کی کہ بیرسٹر علی ظفر آپ اپنے مناسب وقت اور تاریخ پر دلائل جلدی مکمل کریں، بیرسٹر علی ظفر آپ اس نکتے  پر جلد دلائل مکمل کریں کہ اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت کتنا ہونا چاہیے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب گورنر نے وزیر اعلیٰ  کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تو چیف سیکریٹری کنفیوز ہو گئے، چیف سیکریٹری نے گورنر کو جوابی مراسلہ لکھا اور پوچھا کہ اسمبلی کے سیشن کے بغیر کیسے اعتماد کھو بیٹھے ہیں، چیف سیکریٹری نے وزیر اعلیٰ کو قانونی ماہرین سے ہدایت لینے کی تجویز دی، گورنر نے چیف سیکریٹری کو دوبارہ ضروری ایکشن لینے کی ہدایت کی جس پر چیف سیکریٹری نے نوٹیفکیشن جاری کیا، میری استدعا ہے کہ گورنر اور چیف سیکریٹری کے نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیے جائیں۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اس کے نتائج کیا ہوں گے، جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ ہم نے تو صرف یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ کیس میں گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے جو 2 روز کا وقت دیا تھا وہ درست تھا یا نہیں۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر گورنر کے پاس زیادہ ممبران آکر عدم اعتماد کرتے ہیں تو کیا اسپیکر 3 اور اور 7 روز کے تعین میں لگا رہے گا ۔علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ اگر اسپیکر گورنر کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اجلاس طویل عرصے کے لیے ملتوی کر دے تو معاملہ عدالت میں آئے گا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ گورنر کے تاریخ مقرر نہ کرنے پر اسپیکر تاریخ مقرر کرے گا۔ علی ظفر نے کہا کہ آئین سے بالاتر اختیارات گورنر استعمال نہیں کر سکتے۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر کے اختیارات میں ہے کہ وہ تاریخ دے سکیں۔ علی ظفر نے کہا کہ گورنر نے عدم اعتماد کے لیے پرویز الہٰی کو مناسب وقت نہ دیا۔ گورنر کا وقت اور تاریخ کا تعین کرنا غیر قانونی ہوگا۔گورنر اس طرح غیر قانونی طریقے سے وزیر اعلیٰ کو ہٹا نہیں سکتے تھے۔ گورنر پنجاب کے وکیل نے مشاورت کے لیے مہلت  کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ہدایات کے لیے تھوڑا وقت دیا جائے۔ عدالت نے گورنر پنجاب کے وکیل کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔ وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو گورنر کے وکیل منصور عثمان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ گورنر سے رابطہ  ہو گیا ہے، گورنر نے کنفرم کر دیا ہے کہ اسپیکر کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے، گورنر نے 22 دسمبر کا اپنا حکم واپس لے لیا ہے، اس آرڈر کے ذریعے پرویز الہٰی کو ڈی نوٹیفائی کیا گیا تھا، ایسے میں درخواست کا جواز نہیں رہا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ آپ نے اپنی اسمبلی کے اندر یہ معاملہ حل کرلیا ہے جو اچھی چیز ہے۔ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہو گیا ہے، ہم تو چاہتے ہیں ایسے معاملات میں عدالت کی مداخلت کم سے کم ہونی چاہیے۔ عدالت نے گورنر کے وکیل کے بیان کے بعد فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ  نے 12 جنوری کو اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، وزیر اعلیٰ  پنجاب نے آئین کے آرٹیکل 137 کے سب سیشن 7 کے تحت اعتماد کا ووٹ حاصل کیا، پرویز الہٰی وزیر اعلی بن گئے اور کابینہ بحال ہو چکی ہے۔ اعتماد کے ووٹ کا نتیجہ گورنر پنجاب نے مان لیا ہے، گورنر کے وکیل منصور اعوان نے گورنر پنجاب کی جانب سے اسٹیٹمنٹ عدالت میں دی کہ گورنر پنجاب نے ڈی نوٹیفائی کرنے کا اپنا حکم واپس لے لیا۔ جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ گورنر نے آئین کے مطابق آرڈر جاری کیا، پرویز الہٰی نے گورنر کے آرڈر پر اعتماد کا ووٹ لے لیا ۔ اگر اسپیکر گورنر کی ایڈوائس پر اجلاس میں معاملہ حل کر لیتے تو آج ایسی صورتحال نہ ہوتی۔ عدالت کے لارجر بنچ نے پرویز الہٰی کی درخواست غیر موثر قرار دیتے ہوئے نمٹا دی۔ عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب کا وزیر اعلیٰ  پنجاب کو عہدے سے ہٹانے کا 22 دسمبر کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم کر دیا ہے۔اطلاعات کے مطابق جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ وہ اس کیس میں اضافی نوٹ دیں گے۔ کیس میں معاملے پر انصاف کرنے کے نکتے پر نہیں جائیں گے۔علاوہ ازیں کیس کی سماعت کے موقع پر لاہور ہائیکورٹ میں سکیورٹی بڑھا دی گئی اور پولیس کی نفری داخلی گیٹ کے باہر تعینات رہی ۔ جبکہ ٹریفک وارڈنز کی بھی اضافی نفری لگا دی گئی۔ ہائی کورٹ سے ججز گیٹ کی جانب جانے والے راستے پر ڈائیورشن لگا دی گئی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں