ایک ارب ڈالر کیلئے حکومت نے آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے، شہباز شریف
شیئر کریں
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے ایک بار پھر منی بجٹ پر حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر خزانہ نے کہا تھا عمران نیازی آئی ایم ایف کے آگے ڈٹ جائیگا، ایک ارب ڈالر کی خاطر عمران نیازی گھٹنے ٹیک چکے ہیں،یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہاتھ میں آپ کے کشکول ہو اور دوسرے میں ایٹمی طاقت ہو، کیا کبھی آگ اور پانی اکٹھے چل سکتے ہیں،جو قوم بھیک مانگتی ہے اور بھیک کی عادی ہو جاتی ہے وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتی، جب شفاف الیکشن ہوں گے تو پاکستان کے کروڑوں عوام آپ کو آٹے دال کا بھاؤ بتائیں گے اور عبرتناک سبق سکھائیں گے۔قومی اسمبلی کا اجلاس بدھ کو منعقد ہوا جس منی بجٹ پر بحث کی گئی اور قائد حزب اختلاف نے منی بجٹ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔شہباز شریف نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو سمیت سابقہ حکومتوں کی کاوشوں سے پاکستان ایٹمی طاقت بنا تاہم اس منی بجٹ سے ہمارے پاؤں بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہاتھ میں آپ کے کشکول ہو اور دوسرے میں ایٹمی طاقت ہو، کیا کبھی آگ اور پانی اکٹھے چل سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ممکن نہیں ہے، یا کشکول رکھیں یا آپ کو اپنی ایٹمی طاقت پر سمجھوتہ کرنا ہو گا لہٰذا ہمیں بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلے کرنے ہوں گے۔انہوںنے کہاکہ وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ عمران نیازی آئی ایم ایف کے آگے ڈٹ جائے گا، انہوں نے کہا تھا کہ منی بجٹ نہیں آئے گا اور ٹیکس فری بجٹ ہو گا، آج سات ماہ بعد منی بجٹ بھی آ رہا ہے اور اب ٹیکسز بھی لگائے جا رہے، پی ٹی آئی حکومت نے صرف ایک ہی چیز میں اعلیٰ مہارت حاصل کی ہے اور وہ یوٹرن ہے، جو دعویٰ کرتے ہیں اس پر مکر جاتے ہیں، ٹیکس فری بجٹ اور منی بجٹ پر بھی انہوں نے اپنی روایات کے مطابق یوٹرن مارا۔قائد حزب اختلاف نے کہا کہ غربت ور بیرزگاری سے ستائے ہوئے عوام پر اس منی بجٹ میں مزید 350ارب روپے کے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جب اسد عمر وزیر خزانہ بنے تو انہوں نے منی بجٹ میں 400ارب روپے کے ٹیکس لگائے، اس کے بعد شبر زیدی اور عبدالحفیظ شیخ کی جوڑی آئی، انہوں نے 700ارب کے ٹیکس لگائے اور پھر شوکت ترین آئے اور انہوں نے 300ارب روپے کے ٹیکس بڑھائے اور 350ارب روپے کے ٹیکس لگانے کا مزید نسخہ اس منی بجٹ میں لے آئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ یہ سارے ملا کر 1700ارب روپے کے ٹیکس بنتے ہیں اور اس کے باوجود بھی جی ڈی پی کی مناسبت سے ٹیکس کی شرح وہ نہیں ہے جو ہم نے 2018 میں چھوڑی تھی۔