بلوچستان کی بدلتی صورتحال
شیئر کریں
آخرکار طویل غیر یقینی صورتحال کے بعد بلوچستان کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ گیا مگر بڑے بے ڈھب انداز سے۔صورتحال اب بھی واضح نہیں ہے اور کسی بھی وقت کوئی نیا بحران سر اْٹھا سکتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری نے گزشتہ منگل کو اپنے منصب سے استعفا دے دیا اور صوبائی کابینہ تحلیل ہو گئی۔ ثناء اللہ زہری کے مخالفین نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کراد ی تھی جس پر ابھی رائے شماری ہونا تھی لیکن مخالفین نے65 ارکان اسمبلی میں سے 40 اپنے گرد جمع کر لیے تھے جب کہ تحریک کی کامیابی کے لیے صرف33ارکان درکار تھے۔ چنانچہ ثناء اللہ زہری نے یہ صورتحال دیکھ کر پہلے ہی ہتھیار ڈال دیے ورنہ ایک دن پہلے تک ان کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ وہ تحریک کا سامنا کریں گے۔اب ان کا کہنا ہے کہ وہ زبر دستی مسلط نہیں رہنا چاہتے۔ یہ اچھی بات ہے کہ جب بھی کوئی اعتماد کھو بیٹھے تو خاموشی سے الگ ہو جائے۔ تاہم بلوچستان میں خاموشی نہیں رہے گی اور نیاشورشرابہ ہوگا۔ ابھی نئے وزیر اعلیٰ کے تعین کا مرحلہ باقی ہے اور ممکن ہے کہ اس کے لیے جوڑ توڑ شروع ہو گیا ہو۔
وزارت علیا کے کئی امید وار ہیں جن میں سابق وزیر اعلیٰ سر فراز بگٹی بھی شامل ہیں جو اپنے منصب سے مستعفی ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ کے خلاف صف بندی کر رہے تھے۔ حالات کو سنبھالنے کے لیے میاں نواز شریف نے اپنے وزیر اعظم کو کوئٹہ بھیجا تھا مگر بات نہیں بنی۔ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ ملاقات کے دوران میں ثناء اللہ زہری نے عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا چنانچہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے میاں نواز شریف کو مداخلت کرنا پڑی اور اس طرح نواب زہری با عزت طور پر رْخصت ہو گئے۔ ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اگربلوچستان اسمبلی تحلیل ہو گئی تو اس سے ایوان بالا کے انتخابات متاثر ہوں گے جو مارچ میں ہونے والے ہیں۔ اب ایسا کچھ نہیں ہو گا لیکن اس سوال کا جواب مستقبل کے پردے میں چھپا ہوا ہے کہ کیا مسلم لیگ ن ایوان بالا کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر سکے گی۔ اس وقت تو وہاں پیپلز پارٹی کا غلبہ ہے۔ سر فراز بگٹی کے علاوہ ن لیگ کے صالح بھوتانی ، جان جمالی اور چنگیز مری بھی وزارت علیا کے مضبوط امید وار سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم جمعیت علماء اسلام یہ کہہ کر اس دوڑ میں شرکت سے کتراگئی کہ ہم تو پہلے بھی حزب اختلاف میں تھے اور آئندہ بھی وہیں رہیں گے۔
جان جمالی ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں اور انہیں بھی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹایا گیا تھا چنانچہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا انتقام لیا ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق صالح بھوتانی کے وزیر اعلیٰ بننے کا امکان ہے۔ بلوچستان کی حکومت کئی جماعتوں کے اتحاد سے چل رہی ہے اور آئندہ بھی یہ کھچڑی پکتی رہے گی۔ جان محمد جمالی اور صالح بھوتانی دونوں ہی کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ بھوتانی کو اس وقت ارکان اسمبلی کی اکثریت کی تائید حاصل ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی تیاری کے دوران میں بلوچستان کی ایک سیاسی جماعت نے یہ الزام بھی لگایا کہ مخصوص غیر منتخب قوتیں ارکین اسمبلی کو دھمکی دے رہی ہیں کہ تحریک عدم اعتماد کی حمایت نہ کی تو سنگین تائج بھگتنا ہو ں گے۔ یہ محض ایک الزام بھی ہو سکتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو ان مخصوص قوتوں کو بلوچستان میں حکومت کی تبدیلی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔ بلوچستان ایک عرصے سے دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی زد میں ہے اور گزشتہ منگل ہی کو بلوچستان اسمبلی کے قریب خود کش حملہ ہوا ہے جس میں لیویز کے6اہلکاروں سمیت7 افراد جاں بحق ہو گئے۔صوبہ بلوچستان کئی حوالوں سے بڑا حساس ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی تعمیر نے اس کی حساسیت میں اضافہ کیا ہے۔ پاکستان کے دشمن بھی اس صوبے میں متحرک ہیں۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن بھی اس صوبے میں عمل پیرا تھا۔ ایسی صورتحال میں وہاں سیاسی بحران خطرناک ہوگا۔ (تجزیہ)