میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز تہہ میں دبے گمشدہ شہر میں نفیس تعمیرات کا انکشاف

انٹارکٹیکا میں برف کی دبیز تہہ میں دبے گمشدہ شہر میں نفیس تعمیرات کا انکشاف

منتظم
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

٭ایک پہاڑ کے قریب سے عظیم الجثہ سیڑھی نما شے کے ملنے کے بعد اس کے استعمال پر بحث چھڑ گئی
٭ہزاروں سال قبل لاپتہ ہوجانے والا شہر اٹلانٹس انٹارکٹیکا میں ہی واقع تھا، ناسا کی نئی دریافت پر ماہرین کا اندازا
عدل طباطباعی
ناسا کی حاصل کردہ انٹار کٹیکا میں برف کی دبیز تہہ میں دبے گمشدہ شہر کے بارے میں نئے انکشافات نے دنیا بھرکے سائنسدانوں اور ماہرین آثار قدیمہ کو چکرا کر رکھ دیا ہے، ناسا کی جانب سے اس گمشدہ شہر کے حوالے سے جو نئی تصاویر پیش کی ہیں ان کے مطابق یہ شہر اپنے دور کے بہترین فن تعمیر کا نمونہ تھا بلکہ اس شہر میں ہزاروں سال قبل ہونے والی تعمیرات موجودہ دور کے جدید فن تعمیر سے کسی طرح کم نہیں تھیں، ریسرچرز نے اس حوالے سے بتایا ہے کہ گوگل ارتھ نے اس شہر میں ایک عظیم الجثہ سیڑھی کاپتہ چلایا ہے جو گوگل کی تحقیق کے مطابق ایک پہاڑ کے قریب سے ملی ہے ۔ محققین کاخیال ہے کہ اس دور میں لوگ پہاڑ پر چڑھنے کیلئے یہ سیڑھی استعمال کرتے ہوں گے۔ محققین کے مطابق یہ سیڑھی یو ایف او پر اترنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی یا یو ایف او کے لائٹ ہاﺅس تک پہنچنے کیلئے استعمال کی جاتی ہوگی جو یو ایف او کی جانب آنے والوں کو راہ دکھانے کیلئے لگائے گئے ہوں گے۔محققین کاکہناہے کہ بظاہر ایک سیڑھی نظر آنے والی یہ شے کسی اہرام کا حصہ ہو،محققین کا کہناہے کہ ہم کسی خلائی مخلوق پر یقین نہیں رکھتے لیکن مجھے اس بات کایقین ہے کہ ہم اس کرہ ارض پر ماضی میں بھی موجود تھے، اس لئے ہوسکتاہے کہ یہ سیڑھی نہ ہو بلکہ کسی اونچی انجانی جگہ سے اترنے کی جگہ کے طورپراستعمال کی جاتی رہی ہو۔ محققین کا کہناہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس مقام پر پریاں یا فرشتے اترتے ہوں، یا اس مقام پر اس دور کی کوئی بہت ہی جدید ٹیکنیکل سرگرمی ہوتی ہو۔ لیکن ان تمام مفروضوں کے باوجود سوال یہی ہے کہ یہ سیڑھیوں کی طرح کیوں نظر آتی ہے یا یہ سیڑھیوں سے مشابہ کیوں ہے؟
ناسا کی اس نئی دریافت کے بعد ایک مرتبہ پھر ان خیالات کو تقویت ملتی ہے کہ ہزاروں سال قبل لاپتہ ہوجانے والا شہر اٹلانٹس دراصل انٹارکٹیکا میں ہی واقع تھا اور اس براعظم پر برف کی دبیز تہہ چڑھ جانے کی وجہ سے یہ دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیاہے۔ناسا کی نئی دریافت کے بعد اس پراسرا علاقے کی پراسراریت میں اضافہ ہوگیاہے ،لیکن اب وقفے وقفے سے ہمیں اس علاقے کے بارے میں نئی معلومات ملنے کے ساتھ ہی نئی نئی تصاویر بھی مل رہی ہیں جس سے ہمیں اس خطے میں جاری تبدیلیوں کا پتہ چلنے کے ساتھ ہی ایسے حیرت انگیز شواہد بھی مل رہے ہیں جن سے اس برفانی براعظم میں ماضی میں موجود زندگی اور اس علاقے میں رہنے والوں کے مہذب ،تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہونے کی بھی نشاندہی ہورہی ہے اوریہ ظاہر ہورہاہے کہ اس حیرت انگیز براعظم میں برف تلے قدیم اسٹرکچر موجود ہیں،جن کے منظر عام پر آجانے سے اس علاقے میں موجود تہذیب کاپتہ چلانا آسان ہوجائے گا۔
حال ہی میں ناسا نے سیٹلائٹ کے ذریعے جس پراسرار سیڑھی کی تصویر جاری کی ہے اسے بہت سے حلقے قدیم اہرام یا اٹلانٹس میں موجود قدیم دور کے عبادت خانے سے تعبیر کررہے ہیں۔حقیقت کیا ہے اور نئے تصویر کسی سیڑھی کی ہے ، کسی اہرام کی ہے یا کسی عبادت
گاہ کی ہے ،اس حوالے سے بحث غالباً اس علاقے میں زمین کے نیچے دبے ہوئے کسی اور آثار کی تصاویر سامنے آنے تک جاری رہے گی تاہم ناسا کی جانب سے حال ہی میں جاری کی جانے والی تازہ ترین تصاویر سے اس خیال کی تصدیق ہوگئی ہے کہ انٹارکٹیکا میںقدیم تہذیب دفن ہے ۔خیال کیا جاتاہے کہ برف سے ڈھکے ہوئے اس براعظم کے نیچے اٹلانٹس کا 12ہزار سال قدیم شہر دبا ہواہے ،اور 12ہزار سال قبل تک انٹارکٹیکا میں برف کانام ونشان تک نہیں تھا اور اٹلانٹس نامی یہ پر رونق شہر آباد تھا لیکن پھر اس شہر کو برف نے ڈھانپنا شروع کیا اور اس پورے شہر کو برف نگل گیا۔ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی انٹارکٹیکا کی تصاویر سے یہ واضح ہوتاہے کہ اس کے نیچے ایک شہر کے آثار موجود ہیں اور ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ آثار 12ہزار سال قبل موجود اٹلانٹس کے ہیں جس کا کوئی سراغ نہیں مل رہاتھا۔ گوگل کی اس سے قبل جاری کی گئی تصاویر سے یہ بھی ظاہر ہوتاتھا کہ ایک اہرام جیسی عمارت کا اوپری حصہ اب برف سے سراٹھارہاہے۔
اس طرح نئی تصاویر کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ بھی کسی حد تک ثابت ہوتاہے کہ ہزاروں سال قبل آباد اٹلانٹس نامی شہر کے لوگ بھی مصر کے قدیم لوگوں کی طرح فن تعمیر کے ماہرتھے ۔اس خیال کو ماہرین کے اس خیال سے بھی تقویت ملتی ہے کہ برف سے سر اٹھاتا نظر آنے والا اہرام نما عمارت کا یہ سرا اس بات کاثبوت ہے کہ اس جگہ قدیم شہر اٹلانٹس آباد تھا جہاں خوبصورت عمارتیں اور اہرام موجود تھا لیکن یہ شہر برف میں دب کر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوگیاتھا۔ناقدین بھی اب یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ پروفیسرچارلس ہیپ گڈ کاوہ خیال اور ان کا یہ تجزیہ درست تھا جس کا اظہار انھوں نے 1950 میں اپنے ایک مضمون میںکیاتھا کہ ساﺅتھ پول کے بڑے حصے پر برف کاوجود نہیں تھا اور یہی وہ مقام تھا جہاں قدیم شہر اٹلانٹس آبا د تھاجو اب گم ہوچکاہے۔جبکہ یونانی فلاسفر افلاطون بھی 360قبل مسیح اس شہر کاذکر کرچکے تھے۔ کم از کم 4یوٹیوب پوسٹرز میں بھی یہ خیال ظاہرکیاجاچکاہے کہ انٹارکٹیکا میں گمشدہ شہر موجود ہوسکتاہے۔ ریسرچرز کی ایک ٹیم نے تویہ دعویٰ کیاہے کہ انھوںنے برف پوش براعظم انٹارکٹیکا میں قدیم دور کے 3 اہرام دریافت کیے ہیں اگرچہ یہ دعویٰ کرنے والی ، ٹیم کی جاری کردہ تفصیلات مدھم ہیں لیکن ٹیم نے اپنے دریافت کردہ اہرام کی جو 3تصاویر جاری کی ہیں اوراہرام مصر سے مشابہہ ہیں۔امریکا اور کئی دوسرے یورپی ملکوںسے تعلق رکھنے والے ریسرچرز کی ٹیم بھی یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ انھوںنے دو بڑے اہرام کے ڈھانچے انٹارکٹیکا کے 10میل اندر کے علاقے میں دریافت کیے ہیں جبکہ تیسرا اہرام ساحل سے بہت زیادہ دورنہیں تھا اوریہ اہرام سمندر سے صاف نظر آرہاتھا۔
ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی سیڑھی سے مشابہہ تصویر جاری کیے جانے کے بعد اب ماہرین کے درمیان اس کے بارے میں ایک بحث شروع ہوچکی ہے اور ہرا یک اس کو مختلف پہلوﺅں سے دیکھتے ہوئے اس کے بارے میں نئی رائے پیش کررہاہے اور یہ بحث یقینا اس حوالے سے کسی نئی دریافت تک جاری رہے گی اور عین ممکن ہے کہ اگلی دریافت سے ماہرین میں سے کسی بھی ایک ٹیم کا خیال درست ثابت ہوجائے تاہم یہ پراسراریت انٹارکٹیکا کے اس مقام کی کھدائی تک قائم رہے گی جہاں اہرام نما کوئی عمارت یاشے برف کے نیچے سے سر اٹھاتی نظر آرہی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں