کراچی پولیس میں1988ءکے بعد پہلی مرتبہ میرٹ پر بھرتیاں
شیئر کریں
کراچی میں آئندہ ماہ 4400 افرا د بلاسفارش اور میرٹ پر بھرتی ہوں گے
عقیل احمد
کراچی میں امن وامان ایک مسئلہ رہا ہے۔ قیام پاکستان لے کراب تک مختلف اوقات میں کراچی میں امن وامان کی ایسی خراب صورت حال رہی ہے کہ جس کو یاد کرنے سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 1988ءسے لے کر2016ءکے اختتام تک کراچی میں جتنی بھی بھرتیاں ہوئی ہیں وہ سفارش اور رشوت کے عوض ہوتی رہیں۔ کبھی ایم کیوایم نے، کبھی پی پی پی نے توکبھی اتحادی حکومتوں نے بھرتیاں کیں ۔ہردفعہ میرٹ کا قتل عام کیاگیاجس پرکسی بھی شہری یا سیاسی ومذہبی جماعت نے آواز نہیں اٹھائی۔ اس کا بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ پولیس میں سیاسی جماعتوں کے سفارش کردہ افراداوپر آگئے۔ اورپھر آگے چل کر ان سیاسی پولیس افسران نے وہ کام کیے کہ زبان گنگ اور شہر دنگ رہ گیا۔ عا م نوجوان جس نے محنت کی۔قابلیت دکھائی اس کونائن زیرو اوربلاول ہاﺅس کی سفارش نہ ہونے کے باعث بے روزگاری جھیلنا پڑی۔ پچھلے سال جب اے ڈی خواجہ سندھ پولیس کے آئی جی بنے تو انہوںنے ایک اچھا اور یادگار کام کیا کہ ایپکس کمیٹی سے پولیس کی بھرتیوں کی پالیسی منظور کروائی۔ جس کے تحت پولیس کی بھرتیوں میں فوج کا ایک افسربھی شامل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ پہلے مرحلے میں لاڑکانہ، دوسرے مرحلے میں سکھر، تیسرے مرحلے میں نوابشاہ، چوتھے مرحلے میں حیدرآباد، پانچویں مرحلے میں میرپورخاص ڈویژنوں میں میرٹ پربھرتیاں ہوئیں ۔ پانچ ڈویژنوں میں دس ہزار کے قریب بے روزگار نوجوان این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کرکے فوج کے افسر کی موجودگی میںجسمانی کارکردگی دکھاکر پولیس میں بھرتی ہوئے۔ اب چھٹے اورآخری مرحلے میں 2600 پولیس اہلکار کراچی ڈویژن کے لئے بھرتی کیے گئے ہیں ٹوٹل4000نوجوانوں نے ٹیسٹ اورجسمانی فٹنس کے مقابلے میں حصہ لیا۔جن میں سے2600نوجوانوں کوپولیس میں بھرتی کیاگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایم کیوایم نے حکومت سندھ سے رابطہ کیاتھا کہ ان کی سفارش پر بھرتیاں کی جائیں۔ خود پی پی کے کراچی سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمنٹ نے بھی حکومت سندھ سے رابطہ کیا کہ ان کے حامی افراد کوپولیس میں بھرتی کیاجائے جس پر وزیراعلیٰ ہاﺅس نے ایم کیوایم یا پی پی کے ارکان پارلیمنٹ کوواضح جواب دیا کہ آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے بھرتیوں کی جوپالیسی بنائی ہے اس میں پولیس افسران کے ساتھ فوج کا افسر بھی شامل ہے اوربھرتی کرنے والی کمیٹی کسی کی بات بھی نہیں سنتی۔ غالباً ان کا اشارہ سابق صدر آصف علی زرداری کے دوست انورمجید کا تھا۔ جنہوں نے آئی جی سندھ پولیس کو 12 ہزار پولیس اہلکاروں کی بھرتی کی فہرست دی تھی لیکن آئی جی نے وہ فہرست ان کو واپس کردی تھی۔ اس جواب کے بعدپی پی اور ایم کیوایم کے ارکان پارلیمنٹ خاموش ہوکربیٹھ گئے۔ لیکن ان کویہ احساس نہیں ہے کہ انہوں نے جب بھی حکمرانی کی کراچی پولیس میں میرٹ پربھرتیاں نہیں کیں۔ آئی جی سندھ پولیس نے کراچی میں بھرتیوں کے لئے13سلیکشن کمیٹیاں بنائیں جس میں فوجی افسران بھی شامل تھے۔ ”جرا¿ت“ کی خصوصی تحقیقات میں پتہ چلا کہ زیادہ ترامیدواروں سے سوال مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں پوچھے گئے تاکہ پتہ چل سکے کہ ان امیدواروں میں سے کون زیادہ اعتدال پسند ہے اورکون انتہا پسند سوچ کا حامل ہے ؟ پولیس اورفوجی افسران کویہ دیکھ کرحیرت ہوئی کہ تمام کامیاب امیدواروں میں مذہبی انتہا پسندی کا عنصر موجود نہیں تھا اوروہ کالعدم تنظیموں کوناپسند کرتے تھے۔ اب پیر کے روزسے ان2600 امیدواروں کوآرڈر دیے جائیں گے اوروہ رواں ماہ کے آخر میں ٹریننگ سینٹر ز میں ٹریننگ شروع کردیں گے۔ آئی جی سندھ پولیس نے کراچی کے1800 امیدواروں کی بھی ایک فہرست منظور کرلی ہے جوپچھلے ماہ ٹیسٹ اورجسمانی ورزش کے مقابلوں میں کامیاب ہوئے تھے، اس طرح آئندہ ماہ تک کراچی میں4400 نوجوان میرٹ پرپولیس میں بھرتی ہوجائیں گے ۔ان کو اس با ت کی دلی خوشی ہے کہ انہوں نے یہ ملازمت محنت اور قابلیت سے حاصل کی ہے۔ کسی سیاسی ومذہبی جماعت کی منت سماجت نہیں کی اور نہ ہی کسی سے سفارش کرائی ہے اورانہوںنے کسی کورشوت بھی نہیں دی۔ اورنئے اہلکارجب ٹریننگ کرکے آئیں گے تووہ کسی کی بھی سفارش نہیں سنیں گے اس سے کراچی میں قیام امن کے لیے کافی مدد ملے گی۔