میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سوشل میڈیا جہادی

سوشل میڈیا جہادی

منتظم
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں


آج کل میڈیا اور خصوصاً سوشل میڈیا پرلاہور، ملتان، اسلام آباد اور ننکانہ سے غائب کیے جانے والے سوشل میڈیا ٹرالز کی غیر قانونی طریقے سے گرفتاری یا غائب کیے جانے کا چرچا ہے۔ مختلف اطلاعات کے مطابق ان نو سے گیارہ مختلف افراد کو ننجا ٹرٹل ٹائپ کی کوئی مخلوق اٹھا کر لے گئی ہے اور حکومت اس پر کچھ بولنے سے قاصر ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر قابض سیکولر لبرل حضرات نے ان میں سے محض تین چنیدہ ’اپنے بندوں‘کے بارے میں رہائی کی مہم چلا رکھی ہے جب کہ خود کو” صوفی اسلام کا داعی “کہہ کر سوشل میڈیا پر ”اسلام کا جھنڈا بلند “کرنے والے ان کو غائب کیے جانے کے حق میں زمین و آٓسمان سے دلیلیں اور جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کر لانے میں مصروف ہیں۔ہم نے ان کے لئے ”سوشل میڈیائی جہادی“ کی اصطلاح اس لئے استعمال نہیں کی کیوں کہ جہاد کے لفظ سے ان کواسلامی تاریخ میں ظہور پزیر ہونے والے تمام فتنوں کی طرح ایک عجیب قسم کی الرجی ہے۔
ان غائب کیے جانے والے حضرات کے بارے میں غیر سرکاری طور پرسوشل میڈیا پر یہ تصور پھیلایا جا رہا ہے کہ یہ حضرات کچھ ایسے فیس بک پیج چلا رہے تھے جن پر مذاہب، نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ، امہات المومنینؓ اور مذہب پسند طبقے کے بارے میں عمومی طور پرٹھٹھا اڑانے سے بڑھ کرگالم گلوچ کی جاتی تھی ۔ اس کے علاوہ یہ حضرات ان صفحات پر پاک فوج کی عوام کش کارروائیوں کے بھی صدقے واری جاتے تھے ۔ لیکن جب سے مشرف صاحب کی اقتدار کے ایوانوں سے رخصتی ہوئی تھی ، ان صفحات پر چلنے والوں کی توپوں کا رُخ پاک فوج کی طرف بھی ہو گیا تھا۔
ہمارا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ اسلام کے اکابرین اور شخصیات کے بارے میں ہمارے معاشرے میں کبھی بھی ایسی واہیات سوچ رکھنے والے لوگوں کی کمی نہیں رہی۔ یہ آزادی¿ رائے کے نام پر آپ کی ہر مقدس ہستی پر زبان درازی کا حق چاہتے ہیں لیکن جیسے ہی آپ ”چی گویرا “کی شان میں کوئی گستاخی کریں اور یاد دلائیں کہ موصوف نے تمام انقلابیوں کو جنگ میں جھونک کر دراصل نوآبادیات کے ایجنٹ ہونے کا گھناو¿نا کردار ادا کیا تھا اور اس کی لاش دو خواتین کے پہلوو¿ں سے برآمد ہوئی تھی، تو آپ کی جان کو آ جاتے ہیں اور آپ کو جہادی، تکفیری، بنیاد پرست کے القابات سے نواز کر کسی بھی مجلس کا مزا کرکرا کر دیتے ہیں۔ یادش بخیر ایک ایسے ہی صاحب نے ایسے ہی خیالاتِ عالیہ نوے کی دہائی کے آخر میں ہمارے سامنے لاہور پریس کلب میں بیٹھ کر ادا کیے تو انہیں دلیل سے جواب دیاگیا لیکن انہوں نے قائل نہ ہونا تھا نہ ہوئے، لیکن کچھ سال بعد پہ چلا کہ موصوف وائس آف امریکا میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائض ہو چکے ہیں۔ یہی حال بی بی سی کا بھی ہے۔
بی بی سی ہو ، وائس آف امریکا ہو یا وائس آف جرمنی، اور دیگر ادارے ،دراصل ان بین الاقوامی نشریاتی اداروں کی یہ پالیسی بن چکی ہے ، اور جس کا اظہار باقاعدہ ان کی ”ہیومن ریسورس‘ پالیسی میں موجود ہے جو ان کی ویب سائیٹس پر دستیاب ہے، کہ وہ کسی بھی معاشرے میں اپنے نمائندے کا انتخاب اقلیت یا اقلیتی سوچ کے حامل افراد میں سے کرتے ہیں۔ بھارت میں بی بی سی کا زیادہ تر اسٹاف اگر مسلمانوں پر مشتمل ہے تو پاکستان میں یہ قرعہ یہاں کے کسی اقلیتی گروہ کے نام نکلتا ہے۔ اپنے ارد گرد موجود اکثریت کی موجودگی سے خائف یہ لوگ بڑی آسانی سے ان مقاصد کے لیے استعمال ہو جاتے ہیں یا کیے جاتے ہیں جو عمومی یا اکثریت کی حامل سوچ کے لوگ نہیں کرپاتے۔ایسے میں بہادر کمانڈو مشرف صاحب کی وہ بات یاد آ گئی کہ پاکستان میں اپنی عصمت دری کا دعویٰ کرنے والی خواتین کی اکثریت بیرونِ ملک سیاسی پناہ کی متلاشی ہوتی ہے۔ شاید اسی ناطے ڈیرہ بگٹی میں ایک فوجی افسر کے ہاتھوں عصمت دری کا شکا رہونے والی لیڈی ڈاکٹر کو ہمارے اداروں نے ہی ملک سے باہر بھجوانے میں عافیت جانی اور خاتون نے باہر جاکر جو دو انٹرویوز دیے ان میں اس نے خاص طور پر ڈاکٹر شاہد مسعود کا ذکر کیا جو ان کے پاس اداروں کی یہ آفر لے کر گئے تھے۔ چوں کہ ڈاکٹر صاحب نے عالمی اداروں پر نشر ہونے والے ڈاکٹر شازیہ کے اس الزام کی ابھی تک تردید نہیں کی تو اس مطلب یہی ہے کہ الزام درست ہے۔
حیرت انگیز طور پر ان میڈیا پر ذکر صرف تین حضرات کا ہی ہورہا ہے جب کہ باقی کے بارے میں ابھی تک کوئی ایک لفظ بھی نہ تو مین ا سٹریم میڈیا پر اور نہ ہی سوشل میڈیا پر نظر آیا ہے۔ ہم نے صحافی ہونے کے ناطے مختلف لوگوں سے رابطے کیے ، لیکن آگے سے جواب ہائے لاجواب آئے کہ ان کو چھوڑیں، ان سیکولر اور مذہب بیزار لوگوں کی بات کریں۔ ایک فاضل دوست تو ہمیں سلمان حیدر کی خاندانی تاریخ بتانے پر جُت گئے کہ کس طرح اس کا چھوٹا بھائی فراز حیدر ان کے ساتھ کام کرتا رہا ہے اور کس طرح انہوں نے غائب کیے جانے والے اس گمراہ شخص کو سمجھانے کی کوشش کی۔
عرض کیا آپ یہ ساری حرکتیں کرکے تو ا ن کا کام آسان کر رہے ہیں۔ یہی تو وہ چاہتے ہیںکہ ان کا ذکر میڈیا میں اس قدر ہو جائے کہ ان کو کسی بھی مغربی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے جھوٹے سچے کاغذات اور جعلی سرٹیفیکیٹ بنوانے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ مغربی ممالک کی طرف سے ہمارے ہاں توہین ِ رسالت کے قوانین کی مخالفت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے ہاں بھاگ کر جانے ، اور سیاسی پناہ کے متلاشی نوے فی صد افراد انہی قوانین کو اپنے خلاف استعمال کیے جانے کا رونا روتے ہیں، جب کہ ہمارے اہلِ اسلام اس کو اسلام کے خلاف یہود و ہنود کی سازش اور اسلام کی اساس پر حملہ قرار دینے پر مُصر رہتے ہیں۔
ان صفحات کی مبلغ اوقات یہ تھی کہ ان کو لائیک کرنے یا فالو کرنے والے افراد کی تعداد ہزاروں کا ہندسہ پار نہیں کر پائی ۔ ہمارا ایک چھوٹا سا ریڈیو پروگرام ہے ، جو لاہور میں نشر ہوتا تھا جو کہ پیمرا کی کرم فرمائی سے اب نہیں ہوتا۔ اس پر پیج کولائیک کرنے والوں کی تعداد تیرہ لاکھ کا ہندسہ عبور کر چکی ہے، ایسے میں پتہ چلتا ہے کہ معاشرے میں ایسے مذہب بیزار عناصر کی پزیرائی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دراصل اداروں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، اور چوں کہ ان اداروں کو ہم نے گورے سے جہیز میں لیا ہے اور اس کے اعلیٰ افسران کی ابھی تک امریکا اور برطانیہ کے اداروں سے ہی تربیت بھی دلاتے رہتے ہیں تو مذہب سے ایک لاتعلقی ان افسران کی طبیعتِ ثانیہ ہوا کرتی تھی۔ اس لیے وہ مقاصد کے حصول کے لیے کسی بھی طرح کے افرادِ کار کو استعمال کرلیتے ہیں۔ ان افراد کی جب ضرورت تھی تو ان کے خلاف آنے والی سینکڑوں شکایات بھری درخواستو ں کو پرِ کاہ کے برابر بھی اہمیت نہیں دی گئی۔ یہ صفحات مشرف صاحب کی بڑھ چڑھ کر حمایت کرتے رہے۔ انہیں کرنے دی گئی کیوں کہ اُس وقت ضرورت تھی، یہ لوگ ضربِ عضب کے سب سے بڑے حامی تھے، انہیں حمایت کرنے دی گئی ، کیوں کہ اس کی ضرورت تھی۔ لیکن جب ان کی ضرورت نہ رہی اور نئی قیادت نے ترجیحات میں تبدیلی فرمادی ، تو یہ بوجھ محسوس ہونے لگے لیکن اس بات کا اہتمام کیا گیا کہ ”بھینسا “کے ساتھ ”موچی“ کو بھی رگڑدیا جائے تاکہ کسی کو اس آپریشن کے غیر جانبدار ہونے پر شک نہ رہے۔ موچی نامی فیس بک پیج پاک فوج کے جرنیلوں اور اس کی ’شکرگزار‘ مخلوق کو طنز کا نشانہ بنایا کرتا تھا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ہم نے ان تین کے علاوہ باقی غائب کے گئے لوگوں کے بارے میں بات کرنا چاہی تو ہمیں اسلام پسند اور اسلام بیزار دونوں کی طرف سے انتہائی شرمناک حد تک کی خاموشی سننے کو ملی۔ جیسے کہ اسلام پسندوں کو دن دیہاڑے غائب کیا جانا اور ان کی کسی بھی قانون تک رسائی کا حق جیسے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اور تو اور ہمیں باقیوں کے نام تک بھی نہیں بتائے گئے۔ ایک سابق جہادی تو ان سب پر بازی لے گئے ۔ اُنہوں نے ازراہِ رعایت فرمایا کہ میں غائب کیے جانے افراد کے بارے میں خاموش رہ کر اداروں کو مدد فراہم کر رہا ہوں، یعنی جہادی ٹریننگ کیمپ میں لائن میں لگ کر لنگر لینے والی عادت گئی نہیں۔
ہم اپنی تحریروں میں خفیہ اداروں کی طرف سے ان آٹھ ہزار سے زائد لوگوں کے غیر قانونی طور پر گرفتار کر کے غائب کیے جانے والے افراد کے بارے میں آواز اٹھاتے رہتے ہیں، جس کی ہمیں قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔لیکن ہمارا اب بھی یہی مطالبہ ہے اور ہر قانون پسند شخص کا یہی مطالبہ ہونا چاہیے کہ اگر ان افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں ’شہید‘ بننے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے ، قانون کے سامنے پیش کیا جائے۔ ویسے بھی آج کل سائبر کرائمز ایکٹ کے تحت بننے والی عدالتیں ترنت فیصلے صادر کر رہی ہیں۔ ان مقدمات میں کسی گواہی، اعتراف یا تفتیش کی ضرورت تو ہوتی نہیں۔ موصوف کا پوسٹ کیا گیا مواد ہی اس کے خلاف گواہی ہوتا ہے، جو ان کے کمپیوٹرز سے با آسانی مل جاتاہے۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں