میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی سپہ سالاری کا اعزاز

اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کی سپہ سالاری کا اعزاز

منتظم
جمعرات, ۱۲ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

سید عامر نجیب
سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف جب اپنے منصب اور اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوئے تو وہ ان تمام محب وطن پاکستانیوں کے ہیرو تھے جو پاکستان کو پُر امن ، خوشحال اور ترقی یافتہ ملک دیکھنے کے خواہشمند ہیں ۔ جنرل (ر) راحیل شریف نے پاکستانیوں کے دل میں اپنی محبت صرف باتیں اور تقریریں کر کے نہیں کمائی تھی بلکہ ایمانداری اور جوش و جذبے کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر نے کے صلے میں انھیں یہ مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔ پاکستانیوں کے ساتھ” محب وطن “کا اضافہ اس لیے کر رہا ہوں کہ بہت سے پاکستانی ایسے بھی ہیں جو رہتے پاکستان میں ہیں ، کھاتے پاکستان کا ہیں لیکن ان کے دل پاکستان کے ساتھ نہیں دھڑکتے ، انھوں نے اپنا سیاسی قبلہ و کعبہ کسی دوسرے ملک کو بنا رکھا ہے ۔ انھیں ایجنڈا باہر سے ملتا ہے انھیں پاکستان سے زیادہ اس ملک کے مفادات عزیز ہیں یہ پاکستان کے میڈیا میں ہوں ، کسی سیاسی جماعت یا سرکاری محکمے اور ادارے میں ہوں اپنے پسندیدہ ملک کے مفادات کا تحفظ انھیں بے نقاب کرتا رہتا ہے ۔
پاکستانیوں کے لیے یہ فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ انکا ایک سپوت 39 اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کا سپہ سالار بنایا گیاہے ۔ مشترکہ فوج جسکا خواب کئی عشروں سے ملت اسلامیہ کا درد رکھنے والے دیکھ رہے تھے ۔ شاہ فیصل ، ذوالفقار علی بھٹو اور معمر قذافی جیسے حکمران اپنی چاہت کے باوجود اس خواب کو عملی شکل نہیں دے سکے تھے ۔ مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں پھیلتی ہوئی دہشت گردی نے بالآخر اس منزل کو آسان کیا اور سعودی عرب ، پاکستان ، ترکی ، مصر ، قطر ، امارات ، ملائیشیا اور سوڈان جیسے مستحکم ممالک سمیت 39 اسلامی ممالک دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا حصہ بنے اور مشترکہ فوج کی تشکیل پر متفق ہوئے ۔
دنیا بھر میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے ان لوگوں کا اثاثہ ہیں جو نوع انسانی کو اسلام کی حقیقی تعلیمات سے محروم رکھنا چاہتے ہیں لوگوں کے سامنے اسلام کا گمراہ کُن تعارف پیش کرنا چاہتے ہیں اور مسلمانوں کو اور ان کے ممالک کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں اسی لیے دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے اتحاد سے سب سے زیادہ تکلیف بھی انھیں ہے جو یا تو خود دہشت گردی میں ملوث ہیں اور یا دہشت گردوں کی پُشت پناہی کرتے ہیں تاکہ اسلام کا امیج خراب ہو۔
انتہائی خوش آئند بات ہے کہ اس اتحاد کی تحریک کا آغاز سعودی عرب نے کیا جسے خدمت حرمین شریفین کی نسبت سے عالم اسلام میں خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔ اس سے پہلے عرب ممالک اپنے دفاع اورتحفظ کے حوالے سے کبھی اتنے حساس نہیں تھے ۔ یہ تحریک عالم اسلام کی خود انحصاری کی تحریک ہے اور یہ تحریک دراصل امریکا اور مغرب پر عدم اعتماد کی تحریک بھی ہے ۔ سعودی عرب کی قیادت میں اسلامی ممالک کی مشترکہ فوج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں جو جتھے اسلام کا نام لے کر پرائیوٹ اور غیر ریاستی سطح پر جہاد کے دعویدار ہیں وہ اپنا جواز کھو رہے ہیں اور غیر مسلم دنیا میں بھی یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ یہ عسکریت پسند اسلام کے نمائندے نہیں کیونکہ اسلامی ممالک کی مشترک فوج ان سے لڑ بھی رہی ہے اور انھیں مسترد بھی کر رہی ہے پھر داعش جیسی مغربی پروڈکٹ پر لگایا گیا اسلام کا لیبل کسی کام نہیں آئے گا ۔
پاکستان اگرچہ اس اتحاد کا حصہ ہے لیکن فخر پاکستان جنرل (ر) راحیل شریف کی اس اسلامی اتحادی فوج میں بحیثیت سربراہ تقرری کو سیاست اور میڈیا کی مخصوص لابی نہ صرف متنازع بنا رہی ہے بلکہ راحیل شریف کو بے عزت کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ پاکستان کا وہ میڈیا گروپ جو اکثر پاکستانی فوج اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو بدنام کرنے کے درپہ رہتا ہے اس کے ٹی وی اینکرز اور کالم نویس بڑھ چڑھ کر جنرل (ر) راحیل شریف کی ساکھ کو نشانہ بنا رہے ہیں اس گروپ کے ایک مشروب زدہ کالم نویس نے تو حد ہی کردی لبرل ازم کی آڑ میں مخصوص فرقے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے اسی کالم نویس کو راحیل شریف اس وقت پسند تھے جب ان کی قیادت میں پاک فوج پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ موصوف نے اس وقت اپنے ہیرو سے یہ توقعات بھی باندھ لی تھیں کہ دہشت گردوں سے نبٹنے کے بعد وہ پاکستان کے سیاسی اصطبل کی بھی صفائی کرے گا ۔ موصوف نے اپنے 11 جنوری کے کالم کا عنوان ” غازی جنرل کا بے مثال غوطہ “ رکھا ہے روزنامہ جنگ میں چھپنے و الے اس کالم میں سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 39 اسلامی ممالک کے اتحاد کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے جیسے اس اتحاد کی سب سے زیادہ تکلیف اسی شخص کو ہے ۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والے اس کالم نویس کو شام اور برما میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے چنگیزی مظالم پر کبھی بے چینی نہیں ہوئی۔ اس اسلامی اتحاد کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کر کے یہ مشروب زدہ کالم نویس فکر مندی کا اظہار کرتا ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کا کیا بنے گا ۔ اس طرح کی فکر مندی مخصوص لابی کے اینکرز اور کالم نویس سب ہی کر رہے ہیں کہ ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوجائینگے کوئی ایران کو یہ نہیں سمجھاتا بھائی تم اگر شام میں سنی مسلمانوں کی نسل کشی کرو گے ، افغانستان میں پاکستانی مفادات کے خلاف اقدامات کرو گے ، ہمارے دشمن بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھاﺅ گے ، بھارتی خفیہ ایجنسی (را ) کو پاکستان کے خلاف کام کرنے کے لیے اپنے علاقے پیش کرو گے ، پاکستان میں بلوچستان کی بغاوت کی تحریک کو تقویت دو گے ، ، پاکستان میں فرقہ واریت کو اسپانسر کرو گے تو پاکستان کے ساتھ تمہارے تعلقات خراب ہو جائیںگے ۔ یہ مخصوص لابی پاکستانی مفادات کے خلاف میڈیا اور سیاست میںاپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہے جس نے یہ جواز پیدا کردیا ہے کہ وطن کے تحفظ کی ذمہ دارفوج کو میڈیا اور سیاست میں بھی آپریشن ضرب عضب کی اجازت ہونی چاہئے ۔
مشروب زدہ کالم نویس نے جنرل (ر) راحیل شریف کو کرائے کا فوجی اور دولت کا حریص قرار دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی کو ایک قدامت پسند ادارہ قرار دیا جو صرف انتہائی ہنگامی حالات میں ہی رد عمل کا اظہار کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں موصوف نے بری ، بحری اور فضائی افواج کے ریٹائرڈ افسران کو بھی دولت کی ہوس کے طعنے دیئے۔ لگتا یہ ہے کہ کالم ہو ش و حواس میں نہیں لکھا گیا لیکن ایڈیٹوریل بورڈ کو تو کم از کم ہو ش و حواس میں ہونا چاہئے تھا ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں