میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سروں کی فصل پک چکی!

سروں کی فصل پک چکی!

ویب ڈیسک
پیر, ۱۱ دسمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ب نقاب ا /ایم آر ملک

ہاں اُس شہر کی ممتانے چند ماہ کے یوسف کا گلا گھونٹ کے اپنی ممتا کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جس شہر میں 2.5بلین ڈالر کی مالیت کے ساتھ وطن عزیز کا امیر ترین شخص رہتا ہے ۔ہاں بسمہ نے تین روز سے بھوکی اپنی دوسالہ مناہل کو اُس شہر میں پانی کے ٹب میں ڈبو کر سانسوں کے بندھن سے آزاد کر دیا جس شہر کاسابق چیف منسٹر اور پرائم منسٹر 1.4بلین ڈالر کے ساتھ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت کے چوتھے امیر ترین افراد ہیں۔ عرصہ پہلے 125ماؤں کے لخت جگر بھوک نے اُس صوبہ میں چھینے جس صوبہ کا مرد آہن 1.8بلین ڈالر مالیت کے ساتھ اپنی ریاست کا دوسرا امیر ترین آدمی ہے، ہاں اُسی صوبہ کے باسی اپنے اثاثوں بالترتیب 1.1بلین،1بلین ڈالر،900ملین ڈالر 850ملین ڈالر،800ملین ڈالر کے ساتھ ملک کے امیر ترین افراد کی فہرست میں پانچویں،چھٹے ،ساتویں،آٹھویں اور نویں نمبر پر ہیں۔ جن کے عالیشان بنگلوں اور آسمان سے باتیں کرتے وسیع و عریض محلات سے صرف ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر بھوک کا عفریت سوا سو سے زائد بچوں کو نگل گیا۔ ان محلات کے باسی وہ افراد ہیں جو نہیں جانتے کہ غریبی کے دکھ کتنے اذیت ناک ہوتے ہیں۔ جن کو غربت کے مسائل کی ہولناکیوں کا علم تک نہیں ۔ہاں خواب ِ استراحت کے مزے لینے والے ان افراد کو علم نہیں ہوتا کہ دن کتنا طویل ہوتا ہے جو یہ نہیں جانتے کہ غریبوں کے آنگن میں اُترنے والی شامیں کتنی بھیانک ہوتی ہیں، جنہوں نے کبھی تاریکیوں کے بھیانک ہیولے نہیں دیکھے ، جنہیں یہ ادراک نہیں کہ اندھیروں کی چبھن کیسی ہوتی ہے ؟ جن کے محلات میں رات کوبھی دن کا سا اُجالا ہوتا ہے جنہیں سورج طلوع ہونے کا پتہ اُس وقت چلتا ہے جب کوئی ملازم ڈرتے ڈرتے کہتا ہے صاحب جی اُٹھیئے ! دن نکل آیا۔ جنہیں یہ نہیں معلوم گھروں میں برتن مانجھ کر اپنی اولاد کو پالنے والی بوڑھی ماں کی حسرتوں کا کرب کیسا ہوتا ہے ؟گھر میں ادھورے خواب آنکھوں میں لیے جوان بیٹی سلائی کڑھائی کرکے نحیف ماں،ضعیف باپ اور اپنے پیٹ کے دوزخ کو کیسے بھرتی ہے ؟چھ جوان بیٹیوں کے بوڑھے مزدور باپ کا درد کیا ہے جو سارا دن خون پسینے سے صرف ساٹھ روپے گھر لاتا ہے تو اس جان کنی سے چولہا کیسے جلتا ہے ؟فیکٹریز اور مل اونر اس عرشی طبقہ کے افراد نے مزدوروں کے ساتھ صرف ایک روز کام کیا ہوتا تو معلوم ہوتا کہ رگوں میں دوڑنے والے خون کا عرق کیا ہوتا ہے ؟ محنت کے پسینے کی مہک کیا ہوتی ہے ؟ کبھی بھوک کی شدت اور لگا تار فاقوں کی حدت محسوس کی ہوتی تو پتہ چلتا کہ زندگی کن اذیتوں کا مجموعہ ہے ؟
ہاں یہی وہ استحصالی طبقہ ہے جنہیں کتے پالنے ،پنچھی قید کرنے سے ہی فرصت نہیں۔ گوشت کھا کھا کر جن کے پالتو کتوں کے دماغ بھر گئے اور لاکھوں پسماندہ غربت میں سسکتے انسانوں کو بقر عید پر ہی مانگے کی چند بوٹیاں نصیب ہوتی ہیں۔ یہی طبقہ ہے جس کی وجہ سے وطن عزیز میں کرپشن کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے جو سالانہ 12600ارب روپے کی کرپشن کرتا ہے اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ ہر سال 65فیصد بجٹ ان لٹیروں کی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ ان محلات کے باسیوں کی وجہ سے ہی ٹیکسز میں کرپشن کی شرح 3000ارب روپے سالانہ تک پہنچی۔ اسی برسر اقتدار باری کا کھیل کھیلنے والوں کی وجہ سے 11ہزار کنٹینرز بغیر ٹیکس ادا کیے چور دروازوں سے افغانستان منتقل کرنے سے 37ارب کی کرپشن ہوئی ۔نیشنل انشورنس کارپوریشن میں کرپشن کے ذریعے 1ارب68کروڑ اسی طبقہ نے لوٹے ، ایک وزیر اعلیٰ اور اہم شخصیات کے ہیلی کاپٹر پر سات ماہ میں تین کروڑ خرچ ہوئے جبکہ عوام کے ان خادمین نے ایک کروڑ کی مزید سمری بھیجی ہے ۔ قارئین!کرپشن کی دیگ کے یہ چند چاول ہیں جن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بد عنوانی کی کہانیاں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں اور اقبال کی دھرتی کو 76برسوں میں منزل سے دور کس طبقہ نے رکھا؟جو چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ میرے مقدر کے تلووں پر منزل کی رسائی کیوں نہیں یاپھر میری منزل کے مقدر میں میرے تلووں کے عکس کیوں نہیں؟ہاں قائد کی دھرتی کہہ رہی ہے کہ وہ جو میرے وارث کہلائے اُن کی نظریں کیا ہوئیں؟وہ یہ سوال پوچھتی ہے کہ آج میرے دشمن مجھے ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہیں اورمیری ذات پر رکھی میرے اصلی وارثوں کی بے پروائی اگر مجھے کسی اور آغوش میں ڈال گئی تو کیا وہ جی پائیں گے ؟اُتنی ہی شاہ خرچیوں اور ڈھٹائی سے جتنا مجھے پاکر جیتے ہیں؟میرے وجود کی بنیادوں میں ہزار ہا قربان گاہیں ہیں جہاں ہزار ہا بے کسوں کے وجود دفن ہیں ۔
کیا میرے اصلی وارث اپنے آبا ؤ اجداد کے جسموں سے ٹپکتے لہو کو بھول گئے ؟ کیا دھرتی کی وراثت کا دعویٰ کرنے والوں نے کبھی سوچا کہ شاہراہوں پر ایک پاکستانی کی کال پر اداروں کی نجکاری کے نام پر لوٹ مار کے خلاف کتنوں نے گھروں کی دہلیز کو پار کیا؟خاموش جذبے زبان مانگتے ہیں 76برس ہوئے زردی مائل چہروں پر نکھار نہیں آیا ۔اندر عجیب گھٹن اور لب ہیں کہ حقیقی مسکراہٹ سے عاری،زندگی کو کوئی تحفظ نہیں رہا ۔خزاں کے موسم کا تسلط ہے کہ چھٹنے کو نہیں آ رہا۔ گلاب،تتلیوں،جگنو،چاند،ستاروں کا ذکر سراب لگتا ہے ۔فاصلے سمٹنے کی بجائے سوا ہوتے جا رہے ہیں۔ اس دیس کے گلابوں سے بہاریں روٹھ گئیں۔ بھوک،بیروزگاری اور بیماری اسے چبا رہی ہے۔ اس میں رہنے والا وی آئی پی طبقہ،بڑی بڑی لیموزین گاڑیوں پر کلاشنکوف بردار باڈی گارڈ ز کی حامل جونکیں اس دھرتی کا لہو پی رہی ہیں۔ دنیا کے عظیم انقلابی رہنما نبی آخر الزماں ۖنے فرمایا تھا کہ وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اُس کا پڑوسی جو اُس کے پہلو میں رہتا ہو بھوکا رہے اور جس بستی میں کوئی شخص بھوکا سوجائے اُس بستی سے اللہ کی رحمت اُٹھ جاتی ہے اور جس بستی میں مائیں اپنی اولاد کو بھوک کی وجہ سے قتل کرنا شروع کر دیں اُس بستی پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ ارسطو نے بھی کہا تھا کہ غربت تمام جرائم اور انقلابات کی ماں ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں