نواز ،بلاول اور عمران کا مستقبل
شیئر کریں
رفیق پٹیل
پاکستانی سیاست کے جائزے کے اور مسلم لیگ ن کے رہنمائو ں کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ ملک کا تمام انتظام نواز شریف کو سونپ دیا گیا ہے وہ ملک کے باقاعدہ وزیر اعظم بن جائیں گے۔ ن لیگ نے کھل کر اعلان کردیا ہے کہ ان کی بات ہو چکی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ پس پردہ سب کچھ طے ہوچکا ہے ۔حالات اور واقعات بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ ان کی برطانیہ سے واپسی کے وقت پاکستانی سفیر سے الوداعی ملاقات اور گفتگو،ملک کی انتظامی مشینری کی جانب سے ان کا استقبال ان کے لیے سرکاری مشینری کے ذریعے جلسوں کا انتظام بھی یہی ظاہر کرتا ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم سے ان کے معاملات طے کرادیے گئے ہیں ۔جی ڈی اے بھی سندھ میں ان کے ساتھ ہوگی ۔جمعیت علماء اسلام بھی ان کی کی ہم نوالہ اور ہم پیالہ ہے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے مختصر مدّت کا سمجھوتہ کیا ہو،یقینی طور پر یہ سمجھوتہ ایک طویل مدّت کے لیے ہوگا۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے خاندان اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے کررہے ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم سیاسی طور پر سرگرم عمل ہے اور ان کے لیے راہ ہموار کرنے میں معاونت کررہی ہیں ۔ مریم نواز کو ان کا جانشین تصوّر کیا جاتاہے۔ مریم نواز کے شوہر کیپٹن صفدر بھی فیصلہ سازی میں اہم حیثیت حاصل کرچکے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ دو سال بعد مریم نواز ملک کی اگلی وزیر اعظم ہونگیں۔نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اپنے سینے پرسابق وزیر اعظم کا تمغہ سجا چکے ہیں۔ شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز بھی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ نواز شریف ایک اور قریبی رشتہ دار اسحٰق ڈارجو شہباز حکومت میں وزیر خزانہ تھے ان کی ٹیم کا اہم حصّہ ہیں۔ دیگر رشتہ دار بھی پس پردہ کردار ادا کرتے ہیں جو کہ معمول کاحصہ ہیں ،نواز شریف کو اندازہ ہے کہ وہ جلسہ جلوس نہ بھی کریں تو ان کے لیے میدان صاف ہی ہے۔ آج کل وہ اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں کہ جن دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر انہیں حکومت بنانی ہے ان کی نشستوں کا فیصلہ کرنا ہے یعنی ایم کیوایم کی کتنی نشستیں ،بلوچستان عوامی پارٹی کی کتنی نشستیں ، جے یو آئی کی کتنی نشستیں وغیرہ وغیرہ ۔ اس انتظام کا اندازہ بلاول بھٹو نے لگا لیا تھا ۔اس لیے وہ اسے نیا سلیکٹڈ کہنے لگے تھے لیکن مفاہمت کے بادشاہ آصف زرداری نے انہیں خاموش کرادیا اور کہا کہ بلاول ابھی زیر تربیت ہے۔ آصف زرداری کے اس بیان کی وجہ سے بلاول کی ساکھ پر منفی اثرات مرتّب ہوئے لیکن اب آصف زرداری بھی اب لاڈلا کا لفظ استعمال کرکے دبائو ڈال رہے ہیں کہ ان کو بھی اقتدار میں بڑا حصہ دیا جائے تاکہ ان کا بنایا ہواسسٹم مزید مضبوط ہو۔ آصف زرداری ایک مرتبہ پھر شریفوں کے جال میں پھنس چکے ہیں۔ وہ اگر شہباز شریف کی جگہ خود وزیر اعظم بن جاتے یا پی پی کے کسی رہنما کو وزیر اعظم بناتے تو شاید ان کے مفاہمت کے فارمولے کے ذریعے پاکستان کو شہباز حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے موجود ہ خوفناک بحران اور تباہی سے بچا یا جاسکتا تھا ۔ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی صحت کارڈ سے ملتی جلتی اسکیم لاتی ،احساس پروگرام کے ذریعے شفاف انداز میں باعزت طور پر غریبوں میںرقم تقسیم کرتی ، لنگڑ کھانے اورمفت رہائش گاہوں کا انتظام کرتی، بیروزگاروں کے لیے قرضے اور تربیت کی اسکیم کو جاری رکھتی،مہنگائی کو قابو میں رکھتی ،بجلی قیمت کے مسئلے کا حل نکال لیتی،ڈالر کی قیمت کو دوسو کے قریب رکھتی، معیشت کو فروغ دیتی صنعت اور کاروبار کے پہّیے کو تیزی سے گھماتی لیکن اس وقت کی شہباز حکومت نے تما م اچھے منصوبوں کو روک دیا اور پیپلز پارٹی کو معاشی معاملات سے دور رکھا جس کا شکوہ خود آصف زرداری نے کیا تھا کہ ہمیں معاشی معاملات سے دور کردیا گیا ہے۔ اس وقت ہر گزرتے دن کے ساتھ نواز شریف، بلاول اور مولانا فضل الرحمان کی مخالفت میں اضافہ ہورہاہے۔ عمومی طور پر خود ان کی اپنی جماعتوں کا ووٹر بھی ان کے اشتراک سے خوش نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے آنے والے وقت میں نوازشریف اپنی بیٹی کے قدم جمانے کے لیے سندھ کو پی پی کا قلعہ نہیں بننے دیں گے۔ ان تین جماعتوں کی عوام میں بڑھتی ہوئی مخالفت کی ایک وجہ پی ٹی آئی کے خلاف جاری آپریشن بھی ہے ۔پی ٹی آئی مظلومیت کی ایسی علامت بن گئی ہے جس سے حکمرانوں کے خلاف نفرت کا طوفان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ہاتھ پیر باندھ کر انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے خلا ف عوام کا غصہ بڑھتا جائے گا۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ پر جو مقدمات قائم کیے گئے ہیں ،اس میں عمران خان کو موت اور بشریٰ بی بی کو حدود آرڈینینس کی سزا دی جاسکتی ہے۔ مستقبل میں بار بار اس کے اثرات رونما ہونگے ۔پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عدم استحکام بڑھتا چلا جارہا ہے ،عوامی امنگوں اور خواہشات کے خلاف جبراً مسلط کردہ حکومت سے استحکام کی توقع رکھنا عقل اور دانش کی نفی ہے۔ آنے والے کچھ دنوں میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ووٹرز کا کچھ حصہ بھی اپنی جماعتوں سے ناراض ہوتا ہو ا نظر آرہا ہے ۔حکمران طبقے نے جس طرح کے حالات پیدا کردیے ہیں، اس میں عدلیہ ، انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور میڈیا کی ساکھ ختم ہورہی ہے۔ بازاروں، گلیوں محلوّں سے صحافیوں کی مختلف رپورٹوں سے ہر طرف فکسڈ میچ ،جانبداری،ناانصافی اور جبر کا تاثرعام ہورہا ہے۔ اس تاثر کے ساتھ قائم کردہ حکومت نہ ہی استحکام لا سکے گی۔ نہ ہی ملکی معیشت چلاسکے گی بلکہ اپنے اقتدار کے دوام کے لیے مزید آمرانہ رویہ اپنائے گی ۔ ملک جمہوریت سے دور ہو جائیگا ۔تمام ادروں کے ساتھ مقننہ کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ اس وقت کے انتخابی عمل نے ایسے خربوزے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ وہ چاقو پر گرے یا چاقو خربوزے پر، نقصان خربوزے کا ہی ہوگا ۔اس لیے اس عمل کی ساکھ کی بحالی ضروری ہے۔ جمہوریت کا سب سے اہم جز منصفانہ انتخاب ہے جس کے ذریعے عوامی نمائندوں پر مشتمل حکومت قائم ہوتی ہے ۔بد قسمتی سے پاکستان میں جنرل ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاء کے بعد عوامی لیگ کو اقتدار نہ دینے کی وجہ سے پاکستان بھی دو حصوّں میں تقسیم ہوا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد جمہوریت مکمل طور پر بحال نہ ہوسکی ۔جمہوریت کا مقصد عوامی رائے سے منتخب نمائندوں پر مشتمل حکومت کی تشکیل ہے لیکن عوامی رائے کے بہت بڑے حصے کو باہر رکھ کر اقلیتی حکومت کا قیام تقریباً جمہوریت کی نفی ہے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی کہاتھا کہ جلد ہی اس بوتل پر جمہوریت کالیبل چڑھا دیا جائے گا۔ انہوںنے متحدہ مجلس عمل،ایم کیو ایم اور ق لیگ کو ساتھ ملایاتھا آج وہ فارمولہ بھی نہیں چل سکتا۔ وقت بدل گیا ہے۔ حالات مختلف ہیں ،عدلیہ، میڈیا ،انتظامیہ کی غیر جانبداری اور عوامی خواہشات کی ترجمان مقننہ کے بغیر سب کچھ بکھر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔