نہ خدا ہی ملانہ وصال صنم، پاکستان پیپلزپارٹی ایم کیوایم سے کھیلنے لگی
شیئر کریں
(خصوصی رپورٹ: باسط علی) ایم کیو ایم کا ایڈمنسٹریٹر کرا چی کے نام پر پیپلزپارٹی کے ساتھ بگلا بھگت کا کھیل اُلٹا پڑنا شروع ہو گیا ہے۔ تاریخی طور پر ایک دوسرے کی حریف جماعتیں حلیف بن کر ایک دوسرے کے شکار میںبُری طرف بے نقاب ہو رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ایم کیوایم کے ساتھ اپنے پتے انتہائی پُرکاری سے کھیلنے شروع کردیے ہیں، جس پر ایم کیوایم کا پی پی حلیف ٹولہ انتہائی حیران وپریشان دکھائی دیتا ہے۔ پیپلزپارٹی نے ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن میں سیاسی ایڈمنسٹریٹر لگانے سے انکار کرکے ایم کیوایم کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی کردی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ڈاکٹر سیف الرحمان نے بھی کسی سے ڈکٹیشن لینے سے انکار کردیا۔ ایم کیوا یم کی کمزور سیاسی طاقت کا بھرم کھلنے سے خود ایم کیوایم کے زیر اثر بلدیاتی نظام سے وابستہ سرکاری افسران نے آنکھیں پھیرنا شروع کردی ہیں۔ نئے ایڈمنسٹریٹر نے ایم کیوایم رہنماؤں کے سرپر یہ کہہ کر تقریباً بم گرادیا ہے کہ وہ صرف گورنر سندھ، وزیراعلیٰ اور مرتضیٰ وہاب سے مشاورت کریں گے۔نئے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر سیف الرحمان کا متحدہ کے بجائے پیپلزآفیسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے گرمجوشی سے استقبال نے ایم کیوایم کے حلقوں پر واضح کردیا ہے کہ ہوا کا رخ کیا ہے؟ نئے ایڈمنسٹریٹر نے آتے ہی چارجڈ پارکنگ ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ متحدہ کے حلقوں پر بجلی گرادی ہے۔ کیونکہ یہ شعبہ متحدہ کے کنور ایوب کے پاس تھا۔ اُن کے تمام اختیارات کی سلبی نے بھی واضح کردیا ہے کہ ایم کیوایم کے ساتھ پیپلزپارٹی نے من چاہا سلوک کرنا شروع کردیا ہے۔ واضح رہے کہ کنور ایوب ایم کیو ایم کی آل سندھ آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن چلا رہے تھے اور روزانہ متحدہ ورکرز کے تبادلے پرکشش جگہوں پر کراتے رہتے تھے۔ ۔ متحدہ کے کماؤ پوت سیف عباس، رضا عباس رضوی، جنید صدیقی، عمران راجپوت، مظہر خان، عمران صدیقی اور اقبال نواز سمیت متعدد افسران کو محدود کرنے کی حکمت عملی اختیار کرلی گئی ہے۔جرأت کو اپنے ذرائع سے معلوم ہو ا ہے کہ نئے ایڈمنسٹریٹر کی تمام توجہ لینڈ سسٹم پر ہے۔ اُنہوں نے اپنے دفتر میں یہ کھلے عام کہنا شروع کردیا ہے کہ وہ ایک ایک کو جانتے ہیں۔ اس دوران میںسید امین الحق، وسیم اختر، ارشد حسن، عامر خان اور خواجہ اظہار الحسن کے مختلف معاملات پر دباؤ کو بھی ایڈمنسٹریٹر نے نظرانداز کرنا شروع کردیا ہے۔ ایم کیوایم کی جانب سے پسند ناپسندکی بنیاد پر تبادلوں کی خواہش بھی اس لیے پوری ہوتی نظر نہیں آتی کیونکہ ایڈمنسٹریٹر کی جانب سے اس حوالے سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ افسران کے تبادلوں کا معاملہ آنے والوں پر چھوڑ دیں۔ دوسری طرف یہ خبر بھی گردش کررہی ہے کہ نئے ایڈمنسٹریٹر نے گورنر سندھ کی ہداہت پر فنانس اور دستیاب فنڈز کی تحقیقات بھی شروع کردی ہے، اس دوران ایم کیوایم کے کچھ حلقوں نے اچانک ایڈمنسٹریٹر کے خلاف مہم بھی شروع کردی ہے۔ یہ حلقے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ کا تمسخر اڑانے کے ساتھ یہ پروپیگنڈا بھی کررہے ہیںکہ پیپلز پارٹی سے گھٹنے ٹکوانے آتے ہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ایک طرف ایم کیوایم کوپیپلزپارٹی کے ساتھ تعلق نبھانے پر بھی کچھ خاص ملنے والا نہیں تو دوسری طرف ایم کیوایم لندن کا دباؤ بھی تیزی سے کام کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ایم کیوایم رابطہ کمیٹی نے اس صورتِ حال میں پریشانی کا باعث بننے والی خبر یعنی لندن کی جانب سے بائیس گھروں کو واپس لینے کی اطلاعات پر بھی دباؤ محسوس کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ضمن میںسابق ایم این اے سلمان مجاہد بلوچ ایڈوکیٹ کے ذمے اس سے متعلق قانونی معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری لگائی گئی ہے۔ ایم کیوایم پاکستان اپنے فعال نہ ہونے والے کارکنوں کو دوبارہ فعال کرنے میںناکامی پر اُن کو پریشان کرنے کے لیے سرکاری دباؤ بھی استعمال کررہی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ایم کیوایم رہنما الطاف حسین کی حمایت بھی کر کرنے لگے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رکن سندھ اسمبلی محمد حسین خان نے بھی کھل کر لندن کی حمایت شروع کردی ہے۔اسی طرح رابطہ کمیٹی کے ایک حلقے کی جانب سے بھی کھلے عام آفاق احمد کی حمایت بھی کی جارہی ہے۔ اس پورے منظرنامے میں واضح ہے کہ ایم کیوایم میں انتشار اور تقسیم کا عمل دن بدن تیز ہورہا ہے جس سے ایم کیوایم پاکستان کے اندر ایک بڑی تبدیلی یا بغاوت کے تمام امکانات موجود ہیں۔