گرین لائن بس منصوبے کاوزیراعظم سے کوئی تعلق نہیں،شاہدخاقان عباسی
شیئر کریں
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نام نہاد احتساب کرنے والوں کا بھی ایک دن احتساب دیکھیں گے۔ جب سچ اور حق چھپایا جائے گا تو ملک نہیں چل سکتا، جب تک شفاف انتخاب نہیں ہو گا، ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اپوزیشن کو دبانے کے لیے جھوٹے ریفرنس بنائے جاتے ہیں۔ ایک بھی ایسا ریفرنس نہیں، جس میں کوئی کرپشن کا الزام ہو۔ وزیرِ اعظم نے جس منصوبے کا افتتاح کیا ہے اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ عمران خان کوئی ایک منصوبہ دکھا دیں جو انہوں نے شروع کیا ہو، ملک تب ترقی کرتا ہے جب قومی نوعیت کے منصوبے لگتے ہیں۔وہ جمعہ کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے بات چیت کررہے تھے ۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم نے الیکٹرانک نظام کرنا ہے، حکومت کو کچھ پتا نہیں ہے، حالت یہ ہے جھوٹے ریفرنس بنا رہے ہیں۔ نیب چیئرمین ایک ایک کر کے بتائے کون سے سیاستدانوں کے خلاف ریفرنس بنائے ہیں۔ سب عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں کیا ان کو جواب دینا نہیں ہوگا کہ آپ نے جعلی ریفرنس بنائے۔ نام نہاد احتساب کرنے والوں کا بھی ایک دن احتساب دیکھیں گے۔انہوںنے کہا کہ انصاف کا نظام یہاں نہیں ہوگا، تو وہاں تو ضرور ہوگا ان لوگوں کو جواب دینا ہوگا۔ ایک نیب چیئرمین کو رکھنے کے لیے دو قانون بنائے گئے، نیب چیئرمین ابھی تک گھر نہیں گیا۔ 6 نومبر سے نیب چیئرمین ریٹائر ہوگیا ہے، لیکن گھر نہیں گیا۔ اب دو ماہ بعد صدر لکھ رہا ہے، مشاورت کا عمل شروع ہو۔جو مشاورت بد نیتی پر مبنی ہو گی تو اس کا کیا ہو گا؟ جو نام وزیرِ اعظم بھیجیں گے سب میں جاوید اقبال ہوں گے، کیا پاکستان میں قابل اور غیر متنازع کوئی شخص نہیں ہے؟سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اپوزیشن کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اپوزیشن کو دبانے کے لیے جھوٹے ریفرنس بنائے جاتے ہیں۔ ایک بھی ایسا ریفرنس نہیں، جس میں کوئی کرپشن کا الزام ہو۔ کیا قانون حق دیتا ہے یہ لوگوں کی زندگیوں سے کھیلیں۔ انصاف تو ایک نہ ایک دن ضرور ہوگا۔ کیا ایسا کوئی شخص نہیں کہ جس پر کوئی اعتماد کر سکے۔ چیئرمین صاحب 6 ارب جمع ہونے کی دعوی کر رہے ہیں، لیکن قومی خزانے میں کچھ نہیں۔انہوںنے کہا کہ یہ لوگ ان کیمرا اجلاس سے ڈرتے ہیں، کیوں عوام سے یہ باتیں چھپاتے ہیں۔ انشا اللہ یہ چیزیں نہ چلنے والی ہیں۔ملک ترقی کرتا ہے، جب قومی نوعیت کے معاملات حل ہوتے ہیں۔ آج نہ ملک میں جمہوریت ہے اور نہ جمہوری قدر، جہاں عدالتیں انصاف سے قاصر ہیں۔ جہاں عوام کی بات کرنے والا کوئی نہیں۔