میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آپ نے ایمان ، اخلاق اور عمل کے حسین امتزاج سے ایک بے مثال انسانی معاشرہ برپا کر دکھایا

آپ نے ایمان ، اخلاق اور عمل کے حسین امتزاج سے ایک بے مثال انسانی معاشرہ برپا کر دکھایا

منتظم
اتوار, ۱۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

سید ابو الا علیٰ مودودیؒ
دنیا جانتی ہے کہ نبی عربی حضرت محمد ﷺ انسانیت کے اس برگزیدہ گروہ سے تعلق رکھتے ہیں ، جو قدیم ترین زمانہ سے نوع انسانی کو خدا پرستی اور حسن اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے اٹھتا رہا ہے ۔ ایک خدا کی بندگی اور پاکیزہ اخلاقی زندگی کا درس جو ہمیشہ سے دنیا کے پیغمبر ، رشی اور منی دیتے رہے ہیں ، وہی آنحضرت نے بھی دیا ہے ۔ آپ نے کسی نئے خدا کا تصور پیش نہیں کیا ہے اور نہ ہی کسی نرالے اخلاق ہی کا سبق دیا ہے جو ان سے پہلے رہبران انسانیت کی تعلیم سے مختلف ہو ۔ پھر سوال یہ ہے کہ آپ کا وہ اصلی کارنامہ کیا ہے جس کی بنا پر ہم انہیں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا آدمی قرار دیتے ہیں ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بے شک آنحضرت سے پہلے انسان خدا کی ہستی اور اس کی وحدانیت سے آشنا تھا ، مگر اس بات سے پوری طرح واقف نہ تھا کہ اس فلسفیانہ حقیقت کا انسانی اخلاقیات سے کیا تعلق ہے ۔ بلا شبہ انسان کو اخلاق کے عمدہ اصولوں سے آگاہی حاصل تھی ، مگر اسے واضح طور پر یہ معلوم نہ تھا کہ زندگی کے مختلف گوشوں اور پہلوﺅں میں ان اخلاقی اصولوں کی عملی ترجمانی کس طرح ہونی چاہیے ۔ خدا پر ایمان ، اصول اخلاق اور عملی زندگی ۔ یہ تین الگ الگ چیزیں تھیں جن کے درمیان کوئی منطقی رابطہ ، کوئی گہرا تعلق اور کوئی نتیجہ خیر رشتہ موجود نہ تھا ۔ یہ صرف حضرت محمد ﷺ ہیں جنہوں نے ان تینوں کو ملا کر ایک نظام میں سمود یا اور ان کے امتزاج سے ایک مکمل تہذیب و تمدن کا نقشہ محض خیال کی دنیا ہی میں نہیں بلکہ عمل کی دنیا میں بھی قائم کرکے دکھا دیا ۔ آپ نے بتایا کہ خدا پر ایمان محض ایک فلسفیانہ حقیقت کے کا نام نہیں ہے بلکہ اس ایمان کا مزاج اپنی عین فطرت کے لحاظ سے ایک خاص قسم کے اخلاق کا تقاضا کرتا ہے اور اس اخلاق کا ظہور انسان کی عملی زندگی کے پورے رویہ میں ہونا چاہیے ۔ ایمان ایک تخم ہے جو نفس انسانی میں جڑ پکڑتے ہی اپنی فطرت کے مطابق عملی زندگی کے ایک پورے درخت کی تخلیق شروع کردیتا ہے اور اس درخت کے تنے سے لے کر اس کی شاخ شاخ اور پتی پتی تک میں اخلاق کا وہ جیون رس جاری و ساری ہو جاتا ہے کہ جس کی سوتیں تخم کے ریشوں سے ابلتی ہیں ۔ جس طرح یہ ممکن نہیں ہے کہ زمین میں بوئی تو جائے آم کی گٹھلی اور اس سے نکل آئے لیموں کا درخت ۔ اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں بویا تو گیا ہو خدا پرستی کا بیج اور اس سے رونما ہو جائے ایک مادہ پرستانہ زندگی جس کی رگ رگ میں بد اخلاقی کی روح سرایت کے ہوئے ہو ۔ خدا پرستی سے پیدا ہونے والے اخلاق اور شرک ، دہریت یا رہبانیت سے پیدا ہونے والے اخلاق یکساں نہیں ہوسکتے، زندگی کے یہ سب نظریے اپنے اپنے الگ مزاج رکھتے ہیں اور ہر ایک کا مزاج دوسرے سے مختلف قسم کے اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے ۔ پھر جو اخلاق خدا پرستی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ صرف ایک خاص عابد وزاہد گروہ کے لیے مخصوص نہیں ہیں کہ صرف خانقاہ کی چاردیواری اور عزلت کے گوشے ہی میں ان کا ظہور ہوسکے ۔ ان کا اطلاق وسیع پیمانے پر پوری انسانی زندگی اور اس کے ہر پہلو میں ہونا چاہیے ۔ اگر ایک تاجر خدا پرست ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کی تجارت میں اس کا خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہ ہو ۔ اگر ایک جج خدا پرست ہے تو عدالت کی کرسی پر ، اور ایک پولیس مین خدا پرست ہے تو پولیس پوسٹ پر اس سے غیر خدا پرستانہ اخلاق ظاہر نہیں ہوسکتے ۔ اسی طرح اگر کوئی قوم خدا پرست ہے تو اس کی شہری زندگی میں اسے کے ملکی انتظام میں اس کی خارجی سیاست میں اور اس کی صلح و جنگ میں خدا پرستانہ اخلاق کی نمود ہونی چاہئے، ورنہ اس کا ایمان با اللہ محض ایک لفظ بے معنی ہے ۔ اب رہی یہ بات کہ خدا پرستی کس قسم کے اخلاق کا تقاصا کرتی ہے اور ان اخلاقیات کا ظہور کس طرح انسان کی عملی زندگی میں اور انفرادی و اجتماعی رویہ میں ہونا چاہئے تو یہ ایک وسیع مضمون ہے جسے ایک مختصر گفتگو میں سمیٹنا مشکل ہے ،مگر میں نمونے کے طور پر محمد ﷺ کے چند ارشادات پیش کرتا ہوں جن سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آنحضرت کے مرتب کیے ہوئے نظام زندگی میں ایمان ، اخلاق اور عمل کا امتزاج کس نوعیت کا ہے ۔ حضور فرماتے ہیں ۔
٭ ایمان کے بہت سے شعبے ہیں اس کی جڑ یہ ہے کہ تم خدا کے سوا کسی کو معبودنہ مانو اور اس کی آخری شاخ یہ ہے کہ راستے میں اگر تم کوئی ایسی چیز دیکھو جو بندگان خدا کو تکلیف دینے والی ہو تو اسے ہٹا دو اور حیا بھی ایمان ہی کا ایک شعبہ ہے ۔ ٭ جسم و لباس کی پاکیزگی آدھا ایمان ہے ۔ ٭ مومن وہ ہے جس سے لوگوں کو اپنی جان و مال کا کوئی خطرہ نہ ہو ۔ ٭ اس شخص میں ایمان نہیں ہے جس میں امانتداری نہیں اور وہ شخص بے دین ہے جو عہد کا پابند نہیں ۔ ٭ جب نیکی کرکے تجھے خوشی ہو اور برائی کرکے تجھے پچھتاوا ہو تو تو مومن ہے ۔ ٭ ایمان تحمل اور فراخدلی کا نام ہے ۔ ٭ بہترین ایمانی حالت یہ ہے کہ تیری دوستی اور دشمنی خدا کے واسطے کی ہو ۔ تیری زبان پر خدا کا نام جاری ہو اور تو دوسروں کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور ان کے لیے وہی کچھ نا پسند کرے جو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے ۔ ٭ تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان اس شخص کا ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے اچھے ہیں اور جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے بڑھا ہوا ہے ۔ ٭ جو شخص خدا اور آخریت پر ایمان رکھتا ہو ، اسے اپنے مہمان کی عزت کرنی چاہئے اپنے ہمسائے کو تکلیف نہیں دینی چاہئے اور اس کی زبان کھلے تو بھلائی پر کھلے ، ورنہ چپ ہے ۔ ٭ مومن کبھی طعنے دینے والا لعنت کرنے والا بدگو بد زبان نہیں ہوا کرتا ۔ ٭ مومن سب کچھ کرسکتا ہے مگر جھوٹا اور خائن نہیں ہوسکتا ۔ ٭ مومن نہیں ہے خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کی بدی سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو ۔ ٭ جو شخص خود پیٹ بھر کر کھائے اور اسکے پہلو میں اس کا ہمسایہ بھوکا رہ جائے وہ ایمان نہیں رکھتا ۔ ٭ جو شخص اپنا غصہ نکال لینے کی طاقت رکھتا ہو اور پھر ضبط کر جائے اس کے دل کو خدا ایمان اور اطمینان سے لبریز کردیتا ہے ۔ ٭ جو شخص کسی ظالم کو ظالم جانتے ہوئے اس کا ساتھ دے وہ اسلام سے نکل گیا ۔ ٭ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا ۔ جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا ، اس نے شرک کیا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی اس نے شرک کیا ۔
٭ وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو اپنے ماتحتوں پر بری طرح افسری کرے ۔
٭ چار صفات ایسی ہیں جس میں پائی جائیں و خاص منافق ہے ۔
٭ امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔ بولے تو جھوٹ بولے ۔ عہد کرے تو اسے توڑ دے اور لڑے تو شرافت کی حد سے گزر جائے ۔
٭ جھوٹی گواہی اتنا بڑا گناہ ہے کہ ہلاکت کے قریب جا پہنچتا ہے ۔ ٭ اصلی مجاہد وہ ہے جو خدا کی فرمانبرداری میں خود اپنے نفس سے لڑے اور اصلی مہاجر وہ ہے جو ان کاموں کو چھوڑے جنہیں خدا نے منع فرمایا ہے ۔ ٭ جانتے ہو کہ قیامت کے روز خدا کے سائے سب سے پہلے جگہ پانے والے لوگ کون ہوں گے ؟ وہ جن کا حال یہ رہا کہ جب بھی حق ان کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے مان لیا اور جب بھی حق ان سے مانگا گیا تو انہوں نے کھلے دل سے دیا اور دوسروں کے معاملہ میں انہوں نے وہی فیصلہ کیا جو وہ خود اپنے معاملے میں چاہتے تھے ۔ ٭ تم چھ باتوں کی مجھے ضمانت دو میں جنت کی تمہیں ضمانت دیتا ہوں ۔ بولو تو سچ بولو ۔ وعدہ کرو تو وفا کرو ۔ امانت میں پورے اترو ۔ بدکاری سے پرہیز کرو ۔ بدنظری سے بچو اور ظلم سے ہاتھ روکو ۔ ٭ دھوکہ باز اور بخیل اور احسان جتانے والا آدمی جنت مےں نہیں جاسکتا ۔ ٭ جنت میں وہ گوشت نہیں جاسکتا جو حرام کے لقموں سے بنا ہو ۔ حرام خوری سے پلے ہوئے جسم کے لیے آگ ہی زیادہ موزوں ہے ۔ ٭ جس شخص نے عیب دار چیز بیچی اور خریدار کو عیب سے آگاہ نہ کیا اس پر خدا کا غصہ بھڑکتا رہتا ہے اور فرشے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں