ٹرمپ کی جیت کے بعد صدر اوباما کی پہلی صبح
شیئر کریں
محمد اقبال دیوان
اداسی چہرے پر عیاں تھی۔ایسا ہوتا ہے۔اوباما کو بھی پاکستان کے سیاست دانوں کی طرح اس بات کا کامل یقین تھا کہ اگلی بار بھی ان کی اپنی ڈیموکریٹ پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن ہی صدرہوں گی۔ان کے اندازے کے مطابق امریکا میں تاریخ اپنا دھارا موڑ رہی تھی۔ایک سیاہ فام صدر کے بعد اب وہائٹ ہاﺅس میں ان کی سابقہ وزیر خارجہ جسے امریکامیں سیکریٹری آف اسٹیٹ کہتے ہیںان کی آمدتحریر بر سنگ ہے۔
اپنے اس یقین کامل میں صدر اوباما تنہا نہ تھے۔پریس،انتخابی جائزے اور خود ہیلری کے مخالف ڈونلڈ ٹرمپ کا کار سرکار سے مکمل طور پر نابلد ہونا ہی کافی نہ تھے۔ایک ویڈیو بھی ایسی لیک ہوگئی تھی جس میں ڈونلڈ ٹرمپ خواتین کے حوالے سے نہ صرف نا شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے سنے اور دیکھے گئے تھے بلکہ اس حوالے سے ان پر الزامات لگانے والی خواتین بھی دھڑلے سے سامنے آگئی تھیں۔ امریکی میڈیا ان عفت مآب بیبیوں کو پلکوں پر سجائے اس بے باکی اور بے راہ روی کی بہت تشہیر بھی کررہا تھا۔ امریکا ایک حوالے سے بہت قدامت پسند ملک ہے۔وہاں سڑکوں پر شراب پینا خلاف قانون اور کسی خاتون کے جسمانی خطوط کی تعریف کرنا جنسی طور پر ہراساں کرنے کا جرم سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کے ایک وزیر اعظم تھے شوکت عزیز۔انہیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے براہ راست امپورٹ کیا تھا۔ وہ ان کے کراچی میں سینٹ پیٹرک اسکول کے ساتھی تھے ۔مارشل لاءلگاتے ہی انہیں ملک کا وزیر خزانہ لگا دیا گیا۔وزیر اعظم منتخب کرنے کی خاطر تھرپارکر جہاں انہوں نے ساری عمر کبھی قدم بھی نہیں رکھا تھا وہاں سے رجسٹرڈ ووٹوں سے زیادہ ووٹ دلواکر قومی اسمبلی کا ممبر بنادیا گیا۔ شوکت عزیز کو اپنی مردانہ وجاہت پر بڑا ناز تھا۔مقتدر حلقوں میں بیٹھ کر ڈینگیں مارتے تھے کہ وہ جب بھی اپنی عاشقانہ صلاحیتوں کے جلوے دکھاتے ہیں،خواتین ان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا ہوکر دھوپ میں رکھی برف کی مانند پگھل پگھل جاتی ہیں۔ستاون برس کی کونڈا لیزا رائس جو اس وقت بش انتظامیہ میں وزیر خارجہ تھیں اور امریکا میں دوران طالب علمی فگر اسکیٹنگ کی چیمپیئن ہونے کے ناطے بے حد متناسب بدن اور خوب صورت ٹانگوں کی مالک تھیں۔ایک میٹنگ سے پہلے حضرت شوکت عزیز نے ان کی ٹانگوں کے سڈول پن کی تعریف کی تھی وہ سیخ پا ہوگئیں اور سب کے سامنے چیخ کر انہیں یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ ” Will somebody stop this blithering idiot”( کوئی ہے جو اس بے ہودہ انسان کو اپنی اوچھی حرکت سے باز رکھے۔) یہ واقعہ فرانسس موبی کی کونڈا لیزا رائس کی سوانح عمری "Twice as Good” میں صراحت سے درج ہے۔یہ تھی جنسی ہراساں کرنے پر امریکا میں پائے جانے والے سماجی تحفظات کی بات۔ایک بڑی اکثریت کا امریکا میں خیال تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی یہی الزامات لے ڈوبیں گے۔ایسا نہ ہوا۔
ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو صدر اوباما نے اپنے عملے کے تمام ارکان کو اوول روم میں جمع کیا جہاں امریکی صدر اپنا دفتر سجاتا ہے۔اس میں کئی ارکان تو ایسے تھے جنہیں اس سے قبل اس کمرے میں قدم رکھنے کا شرف بھی حاصل نہ ہوا تھا۔اوباما سمیت ان میں سے کئی ارکان انتخاب میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ہکا بکا تھے۔اوباما صاحب نے اپنی تقریب کاآغاز بالکل ویسے ہی کیا جیسے جنرل یحییٰ خان نے سقوط مشرقی پاکستان پر کیا تھا کہ ایک محاذ پر جنگ ہارنے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ جنگ ہم مکمل طور پر ہار گئے ہیں۔اوباما کہہ رہے تھے کہ تاریخ کا سفر ایک سیدھی لکیر پر کبھی نہیں ہوتا ۔وہ کبھی آگے بھاگتی ہے تو کبھی پیچھے، کبھی وہ دائیں بائیں بھی مڑ جاتی ہے۔اس ہار کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری دنیا ختم ہوگئی، امریکاکی دنیا اس دن ختم ہوگی جس دن قیامت آئے گی۔اوباما کا یہ بیانیہ ایک ایسے شخص کی دلیری کا مظہر تھا جس نے پہلا سیاہ فام صدر منتخب ہوکر ملک کی تاریخ رقم کی ہو۔یہ بیانیہ ان مایوس امریکیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بھی تھا جو انتخابی نتائج پر بہت دل گرفتہ تھے۔
انتخابات سے قبل بہت دن پہلے ایک ٹویٹ میں جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں امریکا کا بد ترین صدر کہا۔جب بطور صدر اوباما نے اپنا آخری خطاب کیا تو انہوں نے اس جملے کے ساتھ ہی کسی مشاق ریپر گلوکار کے طور پر مائیک زمین پر ہمارے شہباز شریف کی طرح زمین پر دے مارا کہ” ڈونلڈ ٹرمپ کان کھول کر سن لو میں بطور صدر جارہا ہوں اور یہ تفاخر تمہارا نصیب کبھی بھی نہیں بن پائے گا“۔
اوباما اپنی اس تحقیر میں یہ بات بھول گئے کہ امریکا کی سفید فام اکثریت بالخصوص کم آمدنی والے طبقات امریکا کی بین الاقوامی حیثیت کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنے وہ اپنی زندگی میں بہتری کو دیتے ہیں۔وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت قبول کر بیٹھے جب انہوں نے امریکی ریاست نیواڈا میں یہ اعلان کیا کہ وہ اس غریب اکثریت کو بہت اہمیت دیتے ہیں جوٹیکسوں کی بہتات کے باعث اپنی جائز اجرت سے محروم رہتی ہے۔ان کا کمایا ہوا سرمایہ غیر ممالک کی لاحاصل جنگوں میں جھونک دیا جاتا ہے۔ہمیں اپنی نمبر ون پوزیشن اور حربی برتری ثابت کرنے کے لیے امریکا سے باہر جانے کی ضرورت نہیں۔
چند دن بعد جب ایف بی آئی نے اعلان کیا کہ وہ ہلری کلنٹن کی ای میل لیکس کا از سر نو جائزہ لے کر تحقیقات کا آغاز کرے گی تو اوباما پہلی دفعہ شدید پریشانی کا شکار نظر آئے۔وہ جابجا یوکرین،دولت اسلامیہ،عراق،افغانستان ، ایران اور شام میں اپنی کامیاب پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے پائے گے مگر ایسا لگتا تھا کہ امریکاکی سفید فام عوام اس سب سے لاتعلق اپنا ہی الگ مزاج رکھتی ہے۔وہ مسلمانوں کی آمد،تاریکن وطن کے معاملے میں ڈیموکریٹ پارٹی کی نرم پالیسی سے بھی شدید نالاں دکھائی دی۔انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مضبوط لیڈر کے طور پر سرمائے کو نہ صرف اندرون ملک تحریک دینے میں کامیاب ہوں گے۔اس کے برعکس انہیں ہیلری کلنٹن ایک ایسا امیدوار دکھائی دینے لگیں جو کمزور کنفیوژڈ اور ملکی رازوں کے تحفظ میں بہت غیر محتاط ہو۔الیکشن کی رات اوباما یہ کہتے رہے کہ انتخابات میں مقابلہ بہت کانٹے کا ہے۔ دونوں صدارتی امیدواروں کے سابقہ صدارتی امیدواروں کے منفی نکات زیادہ ہیں ۔اب شاید امریکی عوام کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دونوں میں کم خراب کون ہے۔اب بھی وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی نو نان سینس مضبوط شخصیت کو برتر سمجھنے سے قاصر تھے۔
اوباما اپنی مصروفیت کی وجہ سے ٹیلی ویژن دیکھنے سے اجتناب کرتے ہیں۔وہ جلد سوجاتے ہیں اور صبح باقاعدگی سے جلد اٹھ کر ورزش کرتے ہیں۔چھ بجے انہیں سی آئی اے کا ایک ڈپٹی ڈائریکٹر دنیا کے اس حصے کے بارے میں بریفنگ دینے پہنچ جاتا ہے جو اس وقت جاگ رہا ہوتا ہے جب امریکا میں رات ہوتی ہے۔ان کی اہلیہ بھی رات دس بجے آرام کے لیے چلی جاتی ہیں۔وہ ان کے دفتر آئیں اور بتانے لگیں کہ کئی مقامات پر ہیلری کلنٹن کو بہت بُری طرح سے شکست ہوئی ہے۔
اوباما صاحب کہ بارے میں یہ غلط تاثر بہت عام ہے کہ وہ بہت محتاط رویوں کے مالک ہیں۔ہمیشہ اپنے جذبات کے اظہار میں ہمارے ہر دل عزیز وزیر اعظم اور نئی بنچ کی تشکیل تک ہمارے مسیح موعود کی مانند خود پر بہت کنٹرول رکھتے ہیں۔یہ خیال غلط ہے۔یہ بات البتہ درست ہے کہ انہیں کوئی دوسرا اپنی مرضی سے طیش نہیں دلا سکتا ،چاہے وہ عمران خان یا شیخ رشید ہی کیوں نہ ہو۔انہوں نے اس انکشاف پر کسی رائے کے برملا اظہار کی بجائے یہ مناسب جانا کہ وہ ان اسباب پر غور کریں کہ ہیلری کو شکست کیوں ہوئی؟
دس نومبر کو ٹرمپ بطور منتخب صدر پہلی دفعہ وہائٹ ہاﺅس آئے۔اس دن وہائٹ ہاﺅس کا مجموعی تاثر ایک مردہ خانے کا تھا۔عملہ جسے امید تھی کہ ہیلری کی آمد سے ان کا نوکریاں جاری رہیں گی،کندھے جھکائے،بوجھل قدموں سے راہداریوں میں بددلی سے گھوم رہا تھا۔ اس ملاقات میں صدر اوباما کی کوشش تھی کہ وہ انہیں اس منصب کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں سمجھائیں۔یہ ان کی بالمشافہ پہلی ملاقات تھی۔اوباما کی کوشش تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ ان کے بارے میں یہ تاثر بھلے سے قائم کریں کہ وہ خوش مزاج تو ہیں مگر کسی طور انہیں یہ نہ لگے کہ وہ ٹرمپ کی تمام پالیسیوںسے متفق ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ اوباما کو یہ بھی احساس تھا کہ ٹرمپ زود رنج ہیں اور انہیں جلد ہی کوئی بات بری لگ جاتی ہے۔ٹرمپ کے بارے میں روس،ایران،شام، خواتین،سیاہ فام امریکیوں،مسلمانوں،لاطینی امریکی باشندوں اور L.G.B.T (جن میں جنسی طور پر غیر روایتی افراد شامل ہیں ان کے حوالے سے کوئی بات ایسی نہ ہو جو بعد میں پریشانیوں اور وضاحتوں کا سبب بنے ۔ایک طرح سے یہ ملاقات کسی دوسرے ملک کے سربراہ سے ہونے والی ملاقات سے زیادہ حساس اور پیچیدہ ملاقات تھی۔ٹرمپ سے عام طور پر ناخوش رہنے والا میڈیا اس ملاقات کا بہت سختی سے جائزہ لے رہا تھا اور موقع کی تلاش میں تھا کہ کوئی طوفان اٹھائے۔روس کے حوالے سے بالخصوص امریکی میڈیا صدر ٹرمپ کو باقاعدہ طور پر "useful idiot کا خطاب دے چکا تھا۔
ملاقات کے اختتام پر صدر اوباما کو لگا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہیں جو کچھ ان کے بارے میں میڈیا اب تک رپورٹ کرتا چلا آیا ہے۔یہ علیحدہ بات ہے کہ اوباما کی کھلی ناپسندیدگی کی روشنی میں اوباما کا مسکراکر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنا اسی عملے کے لیے منافقت کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ان کی اہلیہ نے البتہ اپنے قریبی حلقوں کو یہ بتایا کہ یہ ملاقات اُن کے شوہر کے مزاج پر کس قدر گراں گزری ہوگی۔ٹرمپ نے اپنی جیت کی خاطر امریکا کی ورکنگ کلاس میں تعصب اور تنگ نظری کی جو آگ بھڑکائی ہے ،ان کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے بارے میں صدر اوباما کے تاثرات کا اظہار غیر مناسب ہے۔
٭٭