میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وطن عزیز کے جوہری کس بل نکالنے کا منصوبہ....؟

وطن عزیز کے جوہری کس بل نکالنے کا منصوبہ....؟

منتظم
اتوار, ۱۱ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

sehra-ba-sehra-1

محمد انیس الرحمن
پاکستان کے داخلی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد اب صاف محسوس ہوتا ہے کہ دنیا جس تیزی اور قوت کے ساتھ تاریخ کے بڑے تغیر سے دوچار ہورہی ہے اس میں جان بوجھ کر پاکستان کو داخلی طور پر ایسے حالات سے دوچار کیا گیا ہے کہ وہ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر سر نہ اٹھا سکے۔ یہ اہم ترین تغیرات کیا ہیں؟ ان میں سب سے پہلے مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن یکدم اسرائیل کے حق میں بڑھا دیا جائے گا جوکہ کسی حد تک پہلے بھی ہے لیکن عالمی صورتحال کے تناظر میں اس کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا جاتا تھا۔ دوسرے نمبر پر مشرق وسطیٰ کی جیو پولیٹکل صورتحال تبدیلی کے دہانے پر آ پہنچی ہے۔ یہ وہ صورتحال ہے جس کا براہ راست اثر پاکستان اور خطے کے دوسرے اہم ملک افغانستان پر پڑے گا۔ ابھی تک لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ روس کیوں پاکستان کی ترقی کی شاہراہ یعنی پاک چین اقتصادی راہ داری میں شامل ہونا چاہتا ہے؟ روس اتنا گرا پڑا بھی نہیں کہ اپنا مال پاکستان کے راستے بیچنے پر ہی معاشی استحکام حاصل کرسکے ۔اصل صورتحال یہ ہے کہ بڑی قوتیں بڑی جنگ کے لئے اپنے اپنے مورچے سیدھے کررہی ہیں۔پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے تجربات دنیا کے سامنے ہیں کہ جنگ کے بعد بحالی کے لیے تجارتی راستوں پر جس کا جتنا زیادہ کنٹرول ہوگا وہ تیزی کے ساتھ اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا ۔یہ الگ بات کہ اس مرتبہ کی ©عالمگیر جنگ© میں شاید ہی کوئی دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے!!!
ایک بات اور ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ دور جدید کی جنگوں کو دومراحل میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ایک جوہری جنگ اور دوسری روایتی یا کنونشنل جنگ ہے۔ جہاں تک تیسری عالمگیر جنگ کی بات ہے تو روایتی طور پر اس کا آغاز نائن الیون کے ڈرامے کے بعد ہی کردیا گیا تھاکوئی مانے یا نہ مانے مگر دنیا کو اس وقت روایتی انداز میں ایک محدود لیکن عالمگیر جنگ کا سامنا ہے۔ چاہے اس کا کوئی بھی نام ہویہ جنگ جنوبی ایشیا سے لیکر تمام مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقاتک پھیل چکی ہے ۔ دوسری جانب اس کا دائرہ شمال مغرب کی جانب یوکرین یا بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین تک دراز ہوچکا ہے۔ کسی نہ کسی طور پر یہ تمام خطہ نصف دنیا پر مشتمل ہے جہاں باقاعدہ جنگ کی آگ بھڑک چکی ہے تو کیا اسے تیسری عالمگیر جنگ کا کنونشنل یا روایتی حصہ تسلیم نہیں کیا جائے گا؟جبکہ اس کا جوہری فیز ابھی باقی ہے جو کسی وقت بھی چھڑ سکتا ہے۔
اوپر دی گئی اس تمام تمہید کا مقصد صرف یہ جاننا ہے کہ وطن عزیز پاکستان اس تمام تر صورتحال میں کہاں کھڑا ہے۔ تو اس حوالے سے یہی کہا جائے گا کہ صورتحال صرف افسوسناک نہیں بلکہ انتہائی تشویش ناک ہوچکی ہے۔ جس ملک کے اداروں کو کرپشن دیمک کی طرح چاٹ چکی ہو، لوٹ مار اور منی لانڈرنگ ایک فن کا درجہ اختیار کرگئی ہو، جہاں اہم اداروں کے کرتا دھرتا انصاف مہیا کرنے والے احتساب کے اداروں کوانصاف کی فراہمی کے لئے حقائق پر مبنی مواد مہیا کرنے کی بجائے خود بدعنوان سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے ساتھ لین دین طے کرلیںاور جہاں احتساب کرنے والے ادارے انصاف مہیاکرنے کی بجائے ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے لگیں، جس ملک کے ذرائع ابلاغ یا میڈیا کا اسی فیصد حصہ پیسے کی چکاچوند کے آگے اغیار کے منصوبوں کو پروان چڑھانے لگے اور کرپٹ سیاسی اور غیر سیاسی مافیا کو نام نہاد دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے سہارے احتساب سے بالاتر ثابت کرنے لگے، جہاں حکمران جماعت سے لیکر سوائے ایک دو کو چھوڑ کر تمام نام نہاد اپوزیشن جماعتوں کے ناخدا اس بات پر ایکا کرلیں کہ ملک اور قوم کا مفاد جائے بھاڑ میں، ہمیں اپنی کرپشن کو تحفظ دینا ہے تو اس ملک کی صورتحال افسوسناک نہیں رہتی بلکہ تشویش کی حدوں کو پار کرجاتی ہے۔
اس حوالے سے ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے نام پر زرداری گروپ کا آپس کا گٹھ جوڑ کوئی حادثاتی معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ وہ کھچڑی تھی جو لندن اور واشنگٹن کی دیگ میں تیار کی گئی تھی اور اس کا واحد مقصد وطن عزیز کے طاقتور ترین ادارے یعنی دفاعی اداروں اور ان سے منسلک انٹیلی جنس ایجنسیوںکو کمزور کرکے پاکستان کو خطے کے معاملات میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا جائے اور بھارت کو ایک بالادست ریاست کے طور پر پورے خطے کا پولیس مین بنادیا جائے۔ زیادہ دور کی بات نہیں پی پی کے پچھلے دور میں جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو ان کے دور میں وطن عزیز کے دفاع کی فرنٹ لائن آئی ایس آئی کو ایف آئی اے بنانے کی سازش کیوں کی گئی تھی؟ صرف اس لیے کہ عبدالرحمن ملک جیسے شخص کو جس کی ایک جیب میں داخلہ کی وزارت اور دوسری جیب میں برطانوی پاسپورٹ تھا،اس ایجنسی کا سربراہ بنا دیا جائے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظ اداروں کو سمجھ لینا چاہئے کہ جمہوریت کے نام پر جن بدعنوان سیاسی گروپوں نے ایکا کررکھا ہے وہ ایک اور زور لگانا چاہتے ہیں تاکہ پاناما اسکینڈل اور ڈان لیکس جیسے مجرمانہ افعال کو پچھلے این آر او کی طرح ایک مرتبہ پھر ”گنگا نہلا“ دیا جائے تاکہ باہر بیٹھے ہوئے بھگوڑے عناصر بھی اس میں پوری طرح اشنان کرسکیں۔
مگر مذکورہ بالابین الالقوامی صورتحال کی جانب دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا کہ یہ کرپٹ عناصر سب سے پہلے خود فنا ہوں گے کیونکہ ایک بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ بین الاقوامی سرد و گرم پر حاوی قوتیں اس بات سے پوری طرح واقف ہیں کہ کس ملک کے کون سے عناسر کرپٹ ہیں اورمغرب میں ان کی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ دینے کا وعدہ کرکے ان سے مطلوبہ خطوں میں کیسے کام نکلوایا جاسکتا ہے؟ یہ سلسلہ گزشتہ پون صدی سے پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے۔۔۔اس حوالے سے فلپائن کے سابق آمر مارکوس، چلی کے پنوشے، پانامہ کے ڈکٹیٹر نوریگا اور دیگر کی مثالیں اور انجام ہمارے سامنے ہیں۔ 2005ءکے بعد جب امریکی اور برطانوی افغانستان میں مار کھانے لگے تو انہیں اس بات کا بھی علم تھا کہ خطے میں سلامتی کے معاملات کے حوالے سے تمام تر تعاون کے باوجود مشرف انتظامیہ کس حد پر جاکر رک جائے گی۔ چونکہ اقتدار کی ہوس انسان کو اس کے استحکام کی خاطر وہ کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی اور برطانوی اس بات سے واقف تھے کہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر مشرف اپنی ”خدمات“ کے صلے میں امریکیوں سے اپنے سیاسی استحکام کی قیمت مانگے گاجو اس نے بینظیر سے بات چیت کرانے کی صورت میں مانگا ۔یہی وہ لمحہ تھا جب بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ نے خطے میں ایک نئے کھیل کی شروعات کی جس کے بطن سے پہلے نون لیگ اور پی پی کے درمیان لندن میں”چارٹر آف ڈیموکریسی“ نے جنم لیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ معاہدے میں طے پایا تھا کہ دونوں جماعتیں اقتدار کی خاطر آمروں سے بات چیت نہیں کریں گی لیکن اسی آسمان تلے تھوڑا سا ہٹ کر دبئی میں بے نظیر اور مشرف کے درمیان خفیہ مذاکرات بھی ہورہے تھے جس میں ایک ایسا این آر او تشکیل پایا جانا تھا جس کے تحت نئے سیاسی سیٹ اپ میں وزارت عظمیٰ پی پی کے پاس اور صدارت مشرف کے پاس ہوتی۔نتائج کو اپنے حق میں کرنے کے شوق میں پیپلز پارٹی کی قیادت جمہوریت کی عظمت کا وہ تمام فلسفہ بھول چکی تھی جو وہ بھٹو کی پھانسی کے وقت سے قوم کے سامنے بگھارتی آئی تھی دوسری جانب مشرف صاحب اپنی ہی پیدا کردہ ”قاف لیگ“ کو پیروں تلے روندنے پر تیار تھے ۔ اس تمام کام کو تیز کرنے کے لئے وکلاءکی تحریک ”آزاد عدلیہ“ کے نام پر سڑکوں پر آچکی تھی تاکہ مشرف کےلئے این آر او سے رجوع کرنے کا کوئی راستہ باقی نہ بچے ۔ بعد کی صورتحال تاریخ ہے۔
یہ تاریخ جو زیادہ دور کی بات نہیں ہے کسی طور بھی بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت سے کم نہیں لیکن جب آنکھوں پر اقتدار کی چربی چڑھ جائے توکچھ سجھائی نہیں دیتا۔آج پھر حکمران وہی کھیل کھیل رہے ہیں۔ ہم پہلے بھی اس بات کا ذکر کرچکے ہیں کہ نائن الیون کے بعد پاکستان سمیت دنیا کے ترقی پزیر ملکوں کی سیاسی اشرافیہ میں یہ بات رسوخ کرگئی تھی کہ سیاسی بالادستی اور اقتدار کے حصول کے لئے امریکاکے پڑھائے ہوئے سبق کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ یہی وجہ کہ پاکستان سمیت بہت سے ملکوں کی سیاسی اشرافیہ کو لبرل ازم کا بخار چڑھ گیا جس میں نون لیگ بھی پوری طرح مبتلا ہوچکی ہے۔ وہ تمام عناصر جو ماضی میں بھارت کے گن گایا کرتے تھے، نون لیگ کے مشیر قرار پائے، مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی بات ہو یا پاکستان کے حصے کا پانی روکنے کی بھارتی دھمکیاں ، بنگلہ دیش میں پاکستان کے دفاع کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کو پھانسیوں پر لٹکانے کا معاملہ ہو یا بلوچستان میں بھارتی دہشت گردی اور را کے ایجنٹ کی گرفتاری ہوحکمرانوں کا زبان نہ کھولنا سمجھ میں آتا ہے، کیونکہ یہ زبان اگر پاکستان کے موقف کو بیان کرنے کے لئے کھل گئی تو مغرب میں پڑی ہوئی دولت اور دیگر مفادات سلب ہوسکتے ہیں۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دور میں سفارتی سطح پر ملک کو بانجھ رکھا گیا ۔کوئی ڈھنگ کا وزیر خارجہ تعینات نہیں کیا گیا۔۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گئی بانسری۔۔۔جبکہ جوہری صلاحیت کو ٹھکانے لگانے کے لئے معاشی بدحالی کا کوڑا بے پناہ قرضوں کی شکل میں پہلے ہی تیار کیا جارہا ہے تاکہ جب قرضوں کا بوجھ سرخ لائن عبور کرجائے تو پھر یہ بڑی طاقتیں ملکی معاملات چلانے کے لئے مزید قرضہ دینے سے انکار کردیں گی اور مطالبہ کیا جائے گا کہ پہلے لیا گیا قرضہ اُتارا جائے، اس وقت یہ سوال اٹھایا جائے گا کہ ملکی دفاع کے لئے جو بجٹ مختص کیا جاتا ہے اسے کم کیا جائے۔ ”پڑوسی ملکوں“ سے تعلقات اس قدر اچھے کرلیے جائیں کہ جوہری ہتھیاروں کی ضرورت ہی نہ رہے۔ قوم پر مالیاتی بوجھ کم کرنے کے لئے فوج کی تعداد بھی کم کردی جائے ۔صحت کی سہولتوںاور تعلیم کے فروغ کے لئے اس رقم کو استعمال کیا جائے حالانکہ صحت اور تعلیم کا بجٹ حکمرانوں نے سب سے پہلے کھایا ہے ۔ ملکی ادارے یہاں تک کہ موٹر وے بھی اس وقت گروی رکھ دی گئی ہے، پی آئی اے اور ریلوے پہلے ہی تباہی کا شکار ہیں۔ اب پیچھے کیا بچا؟
دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے علمبردار آپریشن ضرب عضب پر سیاسی طور پر ضرب لگائی جارہی ہے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی نورا کشتی عروج پر ہے ۔ ذرائع کے مطابق بلاول کی جانب سے جن چار نکات کوتسلیم کرنے کا راگ الاپا جارہا ہے اس کی خالق خود نون لیگ ہی ہے جو دبئی میں طے کیے گئے ہیں۔ یہ معاملات اسحاق ڈار کی دبئی ”آنیاں جانیاں©©“ کے دوران ہی طے ہوئے ہیں جسے ایک طے شدہ مدت کے بعد حکومت نے تسلیم کرلینا ہے….تاکہ ملک میں دو پارٹی سسٹم چلے ۔ باقی سب ”اتحادی“ ہوں اور عمران خان کا کردار ختم کیا جائے کیونکہ یہ دوپارٹی سسٹم کے خلاف سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس حوالے سے قوم جلد دیکھے گی کہ تحریک انصاف میں سے کچھ ”بڑے نام“ طے شدہ منصوبے کے تحت الگ ہوجائیں گے اور باہر آکر قوم کو آگاہ کریں گے کہ جناب عمران خان میں سیاسی قیادت کی صلاحیت کا فقدان ہے…. یہ وہ لوگ ہیں جنہیں منصوبہ بندی کے تحت تحریک انصاف میں انجیکٹ کیا گیا تھا اور جلد ہی وہ جاوید ہاشمی والا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔
خاکم بدہن اگر دشمنان ملک وقوم اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوںگے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟ یقینا وہ جو طاقت سے یہ سب کچھ روک دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں