جوش کے بجائے ہوش سے کام لیا جائے!
شیئر کریں
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں کی مثالوں نے ملک کا بیڑہ غرق کر دیا۔ عدالت عظمیٰ میں محکمہ آبادی پنجاب کے ملازم کی نظر ثانی کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ غیر آئینی اقدام کی توثیق کا اختیار ججز کے پاس کہاں سے آجاتا ہے، ججز کی اتنی فراخ دلی ہے کہ غیر آئینی اقدام کی توثیق کر دی جاتی ہے، عدلیہ کبھی مارشل لا کی توثیق کر دیتی ہے، کیا ججز آئین کے پابند نہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں یہی ہو رہا ہے ایک کے بعد دوسرا مارشل لاآجاتا ہے، عدالتی فیصلہ کا حوالہ وہاں آئے جہاں آئین و قانون کا ابہام ہو، عدالتی فیصلہ آئین و قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتا، لگتا ہے وقت آگیا ہے کہ ججز کی کلاسز کرائی جائیں، کیا جج بننے کے بعد آئین و قانون کے تقاضے ختم ہو جاتے ہیں، وکلا کو آئین کی کتاب سے الرجی ہو گئی اور وہ اب آئین کی کتاب اپنے ساتھ عدالت نہیں لاتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کبھی کہا جاتا ہے نظر ثانی درخواست جلدی لگا دی،اور کبھی کہا جاتا ہے ڈھائی سال پرانی نظر ثانی کیوں لگائی۔
چیف جسٹس نے گزشتہ روز جن خیالات کااظہار کیا ہے ان کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے لیکن چیف جسٹس کو یہ بات ایک ایسے وقت یا د آئی یا محسوس ہوئی ہے جب ان کے پاس بھی اب زیادہ وقت نہیں ہے وہ ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل اس طرح کی باتیں کرتے اچھے نہیں لگتے، محترم چیف جسٹس طویل عرصہ عدالتی منصب پر گزارا ہے چیف جسٹس بننے کے بعد ان کے پاس عدالتوں اور خاص طورپر نچلی عدالتوں کے ججوں کی اصلاح کیلئے کافی وقت تھا لیکن انھوں نے اس دوران کبھی اس طرف توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی یا مصروفیت نے انھیں اس کا موقع نہیں دیا،اب یہ خواہش ہی کی جاسکتی ہے کہ چند روز بعد ان کی جگہ سنبھالنے والی شخصیٹ اس حوالے سے کچھ کرنے کی کوشش کرے، تاہم اس منصب پر ان کے جو چند دن باقی ہیں ان میں بھی وہ چاہیں تو بعض اچھے فیصلے کرکے اپنا نام ہمیشہ کیلئے روشن کرسکتے ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی مدت پوری ہونے سے قبل ہی یہ فیصلہ کردیں کہ آئندہ جو جج مارشل لا یا غیر آئینی عمل کی توثیق کرے گا وہ ازخود ملازمت کیلیے نااہل قرار پاجائے گا اور اس سے سینیارٹی میں قریب ترین جج اس کی جگہ لے لے گا۔یہی اصول فوج میں بھی نافذ کردیں کہ مارشل لا لگانے والا افسراس عمل کے ساتھ ہی فوج سے ریٹائر اور تمام مراعات سے محروم ہوجائے گا۔اور اس کے بعد سینئر ترین افسر آرمی چیف بن جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیاوہ ایسا فیصلہ دینا چاہیں گے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ وکلا کی کلاسز لی جائیں لیکن وکلا کی کلاسز لینے سے پہلے ججز کی کلاس لینے اور یہ فیصلہ دینے کی ضرورت ہے کہ جو جج اپنے ذرائع آمدنی سے زیادہ خرچ کرتا یا جائیداد بناتا یا بینک بیلنس بناتا پکڑا جائے اسے فوری طورپر نہ صرف اس کے عہدے سے سبکدوش کر دیا جائے گا اس کے تمام بینک اکاؤنٹس، جائیدادیں اور اس کی تمام مراعات ضبط کرلی جائیں گی بلکہ اپنی آمدنی کی منی ٹریل دینا بھی متعلقہ جج ہی کی ذمہ داری ہوگا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اس بات کا بھی نوٹس لینا چاہئے کہ کسی سیاسی پارٹی کی نقل وحرکت کو روکنے کیلئے پورے شہر بلکہ ملک کے متعدد شہروں کو کنٹینر لگاکر بند کرکے عوام کی زندگی عذاب بنانے کا حکومت کو کس نے حق دیاہے،پوری دنیا نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے اسلام آباد ڈی چوک میں جلسے کی کال پر مقررہ دن سے دو روز پہلے ہی وفاقی حکومت نے ڈی چوک کی طرف جانے والے تمام راستے جگہ جگہ کنٹینر لگا کر بند کر دیے تھے۔ اسی طرح ریڈ زون کی طرف جانے والے تمام داخلی راستے بھی بند کردیے گئے تھے۔ جگہ جگہ کھڑی کی گئی ان رکاوٹوں کی وجہ سے جڑواں شہروں میں آمدورفت شدید متاثر ہوئی۔ ہفتہ کے روز یہی صورتحال لاہور میں بھی دیکھی گئی۔ حکومت کی طرف سے جلسے کے مقررہ دن سے دو روز قبل ہی وفاقی دارالحکومت کو سیل کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کے سامنے اپنی مفلوج حکومت کو کسی طرح بچانے کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے،اس سے یہ بھی طاہر ہوتاہے کہ ارباب حکومت تحریک انصاف کو ایک بڑی سیاسی طاقت تسلیم کرتے ہیں اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کے ساتھ ہی ان کے گھروں میں اندھیرا چھاجائے گا،اور اگر تحریک انصاف کو جلسہ کرنے کی آزادی دے دی گئی تو ان کا پورا بھرم خاک میں مل جائے گا،یہی وہ سوچ تھی جس کی وجہ سے حکومت کو احتجاج روکنے کے لیے اتنا بندوبست کرنا پڑا،حکومت نے اپنے حربوں سے یہ ثابت کیا کہ عمران خان اگرچہ جیل میں ہیں لیکن عوام میں مقبول ہیں۔ اس مقبولیت کا راز یہ ہے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹائے جانے کے بعد عوام میں مقتدرہ مخالف بیانیہ منوانے میں کامیاب رہے۔ آج بھی پی ٹی آئی اسی بیانیے پر کار بند ہے۔ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کی اس لڑائی میں دیگر سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں بلکہ اس ساری صورتحال میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ عمران خان کا مقابلہ کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس لیے وہ سیاسی لڑائی لڑنے کے بجائے مقتدرہ کا سہارا لے رہی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تناؤ تشویشناک حد تک بڑھ گیا ہے اور اس کے پورے خطے پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ہماری باہمی کشمکش سیاسی اختلافات اور تقسیم کے باعث اب ہر کسی کو ہمارے معاملات میں بولنے کا موقع ملنے لگا ہے جس کااندازہ افغانستان جیسے ملک کی جانب سے پاکستان کی صورت حال پر نازیبا تبصرے سے لگایاجاسکتاہے۔ ہمارے سیاسی قائدین اور زعماء کو اب سوچنا چاہئے کہ ملک کے داخلی حالات کس نہج کو پہنچ چکے ہیں اور انتشار کی اس کیفیت کا نتیجہ کیا ہوگا۔ وطن عزیز میں سیاسی کشیدگی اور اختلافات کی یہ پہلی مثال نہیں ماضی میں بھی اس طرح کے حالات کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کم از کم اسی سے ہی سبق سیکھ کر ملکی معاملات کو سدھار کی طرف لے جانے کی مشترکہ مساعی کی جائیں اور اس ضمن میں ہر فریق اپنے تیئں مثبت کردار کا مظاہرہ کرے تاکہ ملک کو اس بحران سے نکل آئے۔ملک ایک بار پھر وہی سیاسی تقطیب کی کیفیت سے دوچار ہے جس سے واسطہ پڑنا اب معمول بن چکا ہے۔گزشتہ دنوں کے دوران اسلام آباد پر تحریک انصاف کی یلغار کو روکنے کے لیے بے دریغ حکومتی وسائل اور پوری طاقت استعمال کی گئی اور لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ خیبرپختونخوا کے وسائل جھونک کر یہ احتجاج کامیاب بنانے کی کوشش کی گئی۔اس احتجاج کے دوران اسلام آباد میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پی ٹی آئی کے درمیان شدید تصادم کی نوبت بھی آ تی رہی۔ جس سے ملک میں سیاسی اختلاف کی غیر یقینی صورتحال کی کیفیت مزید اجاگر ہوئی۔ ایک طرف، حکومت کی جانب سے موبائل فون کے سگنلز کو روکنا، قانون نافذ کرنے والے تقریباً6000اہلکاروں کی تعیناتی اور600 شپنگ کنٹینرز سے بنی رکاوٹیں، انسداد فسادات کے آلات کا استعمال، اور دارالحکومت میں سینکڑوں گرفتاریوں سے پریشان کن سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ تو دوسری جانب جمہوری حقوق کا سوال بھی اٹھا۔ حیرت ہے کہ کیا ایسی کارروائیاں مظاہروں سے لاحق مبینہ خطرے کے متناسب تھیں۔ فوج کو بلانے سے شہری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے داخلی سلامتی کو سنبھالنے کی حکومت کی صلاحیت پر مزید سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا پولیس اس قابل نہیں تھی کہ سیاسی احتجاج کا انتظام کر سکتی۔سول عملے کی مدد کے لیے فوج کی تعیناتی ہمیشہ آخری حربہ ہونا چاہئے۔ دونوں فریقوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب ناکہ بندیوں اور پرتشدد مظاہروں کے امکان کی وجہ سے ان کی زندگیاں درہم برہم ہوتی ہیں تو یہ لوگ ہی نقصان اٹھاتے ہیں۔ متحارب فریقوں کو اپنی بدترین تحریکوں پر لگام ڈالنی چاہیے اور قلیل مدتی فوائد پر قوم کی بھلائی کو ترجیح دینی چاہیے۔جن کا بنیادی مسئلہ مہنگائی اور بیروزگاری کمزور معاشی حالات ہیں جو من حیث المجموع ابتری کی اس صورتحال سے عاجز آ چکے ہیں مگر حکومت اور سیاست دانوں کو مشت وگریباں ہونے سے فرصت نہیں،موجودہ صورٹ حال میں امید کی کرن پر مایوسی غالب آ تی جارہی ہے۔اس وقت جب پاکستان ایس سی او سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تیاری کر رہا ہے۔ حکومت پر دوہرا دباؤ اس کے سخت گیر نقطہ نظر کی وضاحت کر سکتا ہے، لیکن اس سے ایسے وقت میں بھی سیاسی تفریق بڑھنے کا خطرہ ہے جب ملک کو اتحاد اور استحکام کی ضرورت ہے۔ مگر مشکل امر یہ ہے کہ کوئی بھی فریق اپنے مو قف میں نرمی لانے کو تیار نہیں تحریک انصاف ہر قیمت پر اپنے قائد کی رہائی چاہتی ہے اور اس کی قیمت پر وہ مقتدرہ سے ڈیل کرنے کو بھی تیار ہے جبکہ حکومت کی اپنی پوزیشن اتنی کمزور ہے کہ وہ اس ضمن میں خود سے شاید ہی کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہو یہ صورت حال بیک وقت حکومت کے لیے بھی درد سر بن ہے صرف حکومت ہی کا نہیں متاثرہ طاقتور ترین طاقت کے لئے بھی بڑے امتحان کا باعث ہے یہ ایک ایسی گرہ اور ایسی الجھی ہوئی ڈور ہے کہ اس میں سب کا پاؤں ہی نہیں الجھا ہوا ہے بلکہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے ابھی اسلام آباد کے احتجاج کا خاتمہ نہیں ہوا کہ خیبر پختونخوا کے مرکزی شہر پشاور اور ضلع خیبر کے سنگم پر ایک اور اجتماع کی تیاریاں ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے بلوچستان میں بھی محاذ کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خدا جانے اس ملک اور اس کے عوام کا کیا ہوگا۔ دونوں فریقوں، حکومت اور پی ٹی آئی کو پیچھے ہٹنے اور اپنے طریقوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جو تصادم کے بجائے سیاسی حالات کی تبدیلی کے حامل بن سکیں۔حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس کے اقدامات پرامن احتجاج کے جمہوری حق کا احترام کریں، جبکہ پی ٹی آئی کو اپنے مظاہرین کو پرتشدد اور بدامنی کو ہوا دینے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔