میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سلامتی کونسل کا بے نتیجہ اجلاس

سلامتی کونسل کا بے نتیجہ اجلاس

جرات ڈیسک
بدھ, ۱۱ اکتوبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

اسرائیل جھڑپ سے پیدا ہونے والی کشیدگی، مشرق وسطیٰ کے امن پر پڑنے والے اثرات اور جنگ بندی کے لیے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے رکن ملک مالٹا کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بند کمرے میں ہونے والا ہنگامی اجلاس میں سلامتی کونسل کی جانب سے اسرائیل فلسطین تنازعہ پر مجرمانہ خاموشی اور بے عملی کے سبب اس مسئلے  پر ہونے والا سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوگیا،سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس میں یہ جنگ بند کرانے کے سلسلے میں عالمی برادری کی جانب سے کوئی مثبت کوشش کے بجائے اسرائیل کی حمایت کے اعلانات نے صورت حال کو مزید سنگین بنادیا ہے،جس کے نتیجے میں حماس اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ روز بھی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔اجلا س سے متعلق ملنے والی رپورٹوں کے مطابق کچھ ممالک نے حماس کے اسرائیل پر حملے کی مذمت کی لیکن اکثر نے اس پر اتفاق نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے اس اہم مسئلے پر بلائے گئے اجلاس میں نہ تو کوئی باضابطہ قرارداد پیش کی جا سکی اور نہ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں سینئر امریکی سفارت کار رابرٹ ووڈ نے روس کا نام لیے بغیر کہا کہ اجلاس میں حماس کی مذمت نہ کرنے والوں میں ایک ایسا ملک بھی تھا جس کا اندازہ آپ خود لگاسکتے ہیں۔دوسری جانب اقوام متحدہ میں روس کے سفیر ویسیلی نیبنزیا نے کہا کہ ہم فوری جنگ بندی اور ایسے بامعنی مذاکرات کے حق میں ہیں جس کا سلامتی کونسل کئی دہائیوں سے مطالبہ کر رہی ہے۔ اجلاس میں اسرائیلی سفیر نے یرغمال اسرائیلی شہریوں کی تصاویر دکھا کر حماس کے جنگی جرائم میں ملوث ہونے کی دہائی دی۔ جواب میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے کہا کہ افسوس کی بات ہے، میڈیا اور کچھ سیاست دانوں کی تاریخ وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسرائیلی مارے جاتے ہیں اور جہاں اسرائیلی حکومت قاتل ہوتی ہے، یہ چپ سادھے رہتے ہیں۔فلسطین اتھارٹی کے سفیر ریاض منصور نے کہا کہ یہ وقت اسرائیل کے خوفناک جنگ کے انتخاب کی حمایت کا نہیں بلکہ اسرائیل کو جنگ کے انتخاب سے دستبردار کروا کر امن کا راستہ دکھانے کا ہے جہاں نہ فلسطینی مارے جائیں اور نہ ہی اسرائیلیوں کی جان کو کوئی خطرہ ہو۔ریاض منصور نے سلامتی کونسل اور عالمی قوتوں پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔چین کے سفیر نے اجلاس میں قرارداد کے پیش نہ ہونے اور اعلامیہ جاری نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر معمولی بات ہے کہ سلامتی کونسل نے کچھ نہیں کہا۔ ملائشیا کے سابق بق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا ہے کہ فلسطین اسرائیل حالیہ کشیدگی فلسطین تنازع کا حل نہ نکل سکنے کی عکاس ہے۔انھوں نے مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل فلسطین کشیدگی پر ردعمل کو منافقانہ اور تعصب پر مبنی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسئلے کو سمجھنے کے بجائے مغربی ممالک نے فریب پر مبنی جھوٹا پروپیگنڈا جاری رکھا۔ مغربی ممالک نے اسے اسرائیل پر دہشتگرد حملہ قرار دیا ہے اور، اس کا الزام حماس، حزب اللّٰہ اور ایران پر عائد کیا ہے اور حماس کے اسرائیل پر حملے کو امن و جمہوریت پر حملہ قرار دیا ہے جوکہ سراسر جھوٹ ہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ کہ مغربی رہنماؤں اور ان کے میڈیا نے جھوٹی حقیقت بے شرمی سے جاری رکھی ہوئی ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کئی دہائیوں سے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف جنگی جرائم، قتل عام اور نسل کشی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ یہ سات دہائیوں میں بغیر کسی وقفے کے منظم طریقے سے انجام دی گئی کارروائیاں ہیں، اسرائیلی آباد کار فلسطینیوں کی زمینوں اور کھیتوں پر زبردستی قبضہ کر رہے ہیں۔ غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا گیا۔ لیکن مغربی طاقتیں اور ان کا آلہ کار جھوٹ پر مبنی اپنا پروپیگنڈا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حقیقت میں یہ ان لوگوں کی طرف سے انتقامی کارروائی ہے جن سے ان کے حقوق زبردستی چھینے گئے۔انہوں نے کہا کہ مغربی طاقتیں، امریکہ اس وقت تک نسل پرستی، نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کے فریق ہیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل فسلطین تنازع پر اپنے بیان میں کہا کہ اسرائیل فلسطین امن کے لیے سفارت کاری کو بڑھائیں گے۔انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں اسرائیل فلسطین تنازع بنیادی ہے۔ علاقائی امن کے لیے دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے۔ ترک صدر اردوان کے مطابق دارالحکومت بیت المقدس کے ساتھ آزاد فلسطینی ریاست کا قیام اب وقت کی ضرورت ہے۔
اسرائیل اور پوری دنیا کیلئے یہ صورتحال اس لحاظ سے نہایت غیر معمولی ہے کہ1973میں یومِ کپور‘ کے موقع پر ہونے والی کارروائی کے بعد سے گزشتہ نصف دہائی میں اس نوعیت کو ئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ جہاں تک مسئلہ فلسطین کا تعلق ہے توامریکہ اور مغربی دنیا صورت حال کی جس طرح بھی تصویر کشی کرنے کی کوشش کرے یہ بات عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ صہیونیوں نے اسرائیل کے نام سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک غاصب ریاست قائم کررکھی ہے جس نے فلسطینیوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے انھیں ان کے جائز حقوق سے محروم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ صہیونیوں کی طرف سے فلسطینیوں کے حقوق پامال کیے جانے کے بارے میں اقوامِ متحدہ کے کئی خصوصی اجلاس ہوچکے ہیں، سلامتی کونسل میں کئی بار یہ مسئلہ زیر بحث آچکا ہے، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) سمیت مختلف بین الاقوامی ادارے بارہا اس معاملے پر بات کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود گزشتہ پون صدی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا اور اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اس ناجائز ریاست کو ہر قسم کی امداد و اعانت فراہم کررہے ہیں جو مظلوم فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکا ڈال رہی ہے۔ اس بار بھی غاصب اسرائیلی ریاست پر حملہ ہوتے ہی امریکہ نے اس کے لیے 8 ارب ڈالر کی جنگی امداد کا اعلان کر دیا ہے، اور یہ اعلان خود امریکی صدر جوزف بائیڈن نے کیا ہے اور امریکی بحری بیڑہ غاصب اسرائیلی حکومت کی امداد کیلئے روانہ کردیاگیاہے۔جارح اور غاصب اسرائیل کی حمایت کرنے کے علاوہ جوبائیڈن نے اپنے بیان میں ہمیشہ کی طرح ناجائز اسرائیلی ریاست کے اقدامات سے متعلق کچھ نہیں کہا، بس حماس کی حملے کی مذمت کی اور کہا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا رہے گا۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہماری انتظامیہ کی حمایت مضبوط اور غیر متزلزل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل کا دفاع جاری رکھیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اسرائیل کے شہریوں کو جو مدد درکار ہو گی وہ فراہم کریں گے۔ حماس نے اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی اس واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ حماس کے حملوں کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے اور اسرائیلیوں کے جانی نقصان پر افسوس ہے۔ امریکی وزیردفاع لائیڈ آسٹن، مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان اور قومی سلامتی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے تزویراتی مواصلات جان کربی نے
بھی اپنے اپنے اسرائیلی ہم منصبوں سے رابطہ کر کے انھیں امریکا کی حمایت کی مکمل یقین دہانی کرائی ہے۔امریکی صدر کا یہ طرز عمل کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ ہر موقع پر غاصب اسرائیلی ریاست کی مدد کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرتا ہے۔ یورپی ممالک بھی اس صورتحال پر جس ردعمل کا اظہار کررہے ہیں ان سے اس کے علاوہ اور کوئی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ اب اصل امتحان مسلم ممالک اور ان کے حکمرانوں کا ہے کہ وہ اس صورتحال میں فلسطین اور اس کے مظلوم شہریوں کی حمایت کے لیے زبانی حمایت کے علاوہ عملی طورپر کیا کردار ادا کرتے ہیں۔اس وقت تک ایران واحد اسلامی ملک ہے جس نے کھل حماس اور فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیاہے جبکہ اپنے محسن پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنے والے اور نہتے مسلمان پاکستانیوں کی ہلاکت میں ملوث افغانیوں کو پناہ دینے کے علاوہ ہر طرح کی امداد دینے والے افغانستان میں قائم طالبان کی عبوری حکومت کا جذبہ ایمانی بھی جوش میں آگیا ہے اور طالبان حکومت نے مشرقِ وسطی میں نئی صورتحال پیدا ہونے کے بعد ایران، عراق اور اردن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انھیں اسرائیل کے لیے راستہ فراہم کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارا مقصد بیت المقدس کی فتح ہے۔ ہم فلسطین جانے کے لیے تیار ہیں۔ افغان طالبان نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل کے ہمسایہ مسلم ممالک ہمیں گزرنے کا حق دیں تو ہم بیت المقدس کو فتح کر لیں گے۔اس مسئلے کے حوالے سے دیگر مسلم ممالک کی جانب سے اب تک جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں ایرانی رہبر اعلیٰ علی خامنہ ای کے مشیر رحیم صفوی نے کہا ہے کہ ہم فلسطین اور مقبوضہ بیت المقدس کی آزادی تک فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ مصر اور ترکی نے صورتحال کے سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے تحمل اختیار کرنے پر زور دیا ہے جبکہ سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف کوئی سخت لہجہ اختیار کرنے کے بجائے صرف یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہم فلسطین کی غیر معمولی صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور فریقین سے تشدد اور لڑائی کو فوری روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ قطر نے صورتحال کی مذمت کرتے ہوئے اس کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ قطری وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ کشیدہ صورتحال اور تشددکا ذمہ دار صرف اسرائیل ہے، حالیہ کشیدگی میں فریقین سے تحمل کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اومان نے بین الاقوامی برادری سے عالمی قوانین کے تحت کشیدگی رکوانے کا مطالبہ کیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود روزِ اول ہی سے عالمی امن کے لیے خطرہ رہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے غاصب صہیونیوں کی حمایت کر کے مشرقِ وسطیٰ میں اس ناجائز ریاست کی شکل میں ایک ایسے مسئلہ کی بنیاد ڈالی ہے جس کو مستقل طور پر حل کیے بغیر عالمی سطح پر قیامِ امن ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ مسلم ممالک کے حکمران اگر کچھ مصلحتوں کا شکار ہو بھی جائیں تو وہاں کے عوام کبھی بھی اس بات کو قبول نہیں کریں کہ غاصب صہیونی قبلہاول پر قابض ہوں۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرے ورنہ ناجائز اسرائیلی ریاست اور غاصب صہیونیوں کے مظلوم فلسطینیوں کے خلاف مسلسل بڑھتے ہوئے اقدامات کسی ایسی صورتحال کو جنم دے سکتے ہیں،اور پھر یہ معاملہ صرف اسرائیل اور فلسطین تک محدود نہیں رہے گا بلکہ کل کلاں مقبوضہ کشمیر کے مجاہدین بھی اقوام متحدہ سے مایوس ہوکر حماس جیسی ہی کوئی کارروائی شروع کرسکتے ہیں یہ صورت حال یقینا عالمی جنگ کا باعث بھی بن سکتی ہے اور ایسی صورت میں معاملات کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہیں گے۔ اس لئے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ امریکہ اور مغربی ممالک مصلحتوں کے لبادے سے باہر نکل کر حقائق کاادراک کریں اور فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ حل طلب مسائل کو منصفانہ بنیادوں پر عوام کی امنگوں کے مطابق حل کراکے دنیا کے امن کو لاحق خطرات کا خاتمہ کریں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں