میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت کی اربوں کی بے ضابطگیاں بے نقاب

سندھ حکومت کی اربوں کی بے ضابطگیاں بے نقاب

ویب ڈیسک
هفته, ۱۱ ستمبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ: علی کیریو)آڈیٹرل جنرل آف پاکستان نے حکومت سندھ کے مختلف محکموں میں سال 2019-20 کے دوران اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کردی ہے۔ بورڈ آف ریونیو میں 62 ارب روپے کے خرچے کا ریکارڈہی فراہم نہیں کیا گیا، سندھ یونیورسٹی کی 18 سو ایکڑ زمین پر قبضے ہوگئے، بدین میں بااثر کو 37 ایکڑ زمین اضافی دیدی گئی۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق سندھ اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈا میں آڈٹ رپورٹ 2019-20 پیش کرنے کا آئٹم شامل تھا، لیکن حکمران جماعت پی پی نے آڈٹ رپورٹ پیش نہیں کی، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں حکومت سندھ کے زراعت، تعلیم، توانائی ، خزانہ، خوراک، صحت، داخلا سمیت دیگر بڑی وزاتوں میں اربوں روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، سیپرا قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ٹینڈر کے علاوہ کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق بورڈ آف ریونیو میں 62 ارب 60 کروڑ روپے کے خرچے کا ریکارڈ غائب کردیا گیا اور آڈٹ کیلئے پیش نہیں کیا گیا، کمشنر کراچی نے موقف اختیار کیا کہ ریکارڈ موجود ہے، لیکن مطلوبہ ریکارڈ آڈٹ افسران کو فراہم نہیں کیا گیا، آڈیٹرجنرل سندھ نے بورڈ آف ریونیو کو تحریری طور پر درخواست کی کہ ڈپارٹمنٹل ایکشن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے، لیکن رپورٹ مرتب ہونے تک کمیٹی کا اجلاس منعقد نہیں کیا گیا، آڈیٹر جنرل نے رپورٹ میں درخواست کی کہ 62ارب روپے کا ریکارڈ فراہم کرکے ذمہ داران کا تعین کیا جائے۔رپورٹ کے مطابق ڈپٹی کمشنر بدین نے 93ایکڑسرکاری زمین کسی نجی شخص کو فراہم کی، جبکہ مجاز افسران نے 53ایکڑ زمین دینے کی منظوری دی تھی، اس طرح 37 ایکڑ زمین اضافی دی گئی، زمین کے کاغذات پابندی کے وقت بنائے گئے ہیں،تحریری طور آگاہی کے باوجود کوئی اقدام نہیں لیا گیا اس لیے معاملے کی تحقیقات کی جائے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ یونیورسٹی جامشورو کی 1822 ایکڑ زمین پر قبضہ مافیا نے قبضہ کرلیا ہے ، یہ زمین موڑھو جبل، سون ولہار، رائلو اور خانپور جاگیر دیہوں میں موجود ہے ، تحریری طور پر درخواست کے باوجود بورڈ آف ریونیو نے کوئی بھی اقدام نہیں لیا۔ سپرا قانون کے خلاف ورزی کرتے ہوئے کراچی اور لاڑکانہ میں 59 کروڑ روپے کے ٹھیکوں میں بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں، یہ ٹھیکے ڈپٹی کمشنر ضلع غربی اور ضلع شرقی کے آفس سے جاری ہوئے، آڈیٹر جنرل نے ٹھیکوں کے معاملے پر تحقیقات کی سفارش کی ہے۔کمشنر کراچی کے آفس کی طرف سے کھلا ٹینڈر دینے کے علاوہ51 کروڑ روپے خرچ کردیے گئے، آڈیٹرجنرل کے اعتراض پر کمشنر کراچی آفس کا کہنا تھا کہ میسرز احمد انٹرپرائز مناسب نرخ پر سامان فراہم کرتے ہیں۔ بورڈ آف ریونیو کے ملازمین پر بھی کروڑوں روپے کے غیر قانونی الائونسز کی بارش کی گئی جس کی آڈیٹرجنرل نشاندہی کی ہے ، کمشنر کراچی آفس کے جواب میں کہنا تھا کہ افسران کو گاڑیوں کی سہولت میسر نہیں تھی اس لیے ان کو ٹرانسپورٹ الائونس دیا گیا،کمشنر کی رہائشگاہ کی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے کمشنر اعجاز احمد خان کو ہائوس رینٹ الائونس دیا گیا، آڈٹ حکام کمشنر آفس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے۔ آڈٹ رپورٹ میں سیکریٹری بورڈ آف ریونیو، کمشنر کراچی، ڈپٹی کمشنر کورنگی اور ڈی سی ٹنڈو محمد خان کی جانب سے پیٹرول کے خرچے میں بھی 9 کروڑ 40 لاکھ روپے کی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں