خون کا حساب کب ہو گا؟
شیئر کریں
کہو تم عدالت میں جانے سے پہلے
کہو تم وزارت میں جانے سے پہلے
کہو تم سفارت میں جانے سے پہلے
دکھاؤ تم اپنے اعمال نامے
قیامت کے دن اور خدا پر نہ چھوڑو
قیامت سے یہ لوگ ڈرتے نہیں ہیں
اسی چوک پر خون بہتا رہا ہے
اسی چوک پر تم انہیں سزا دو! سزا دو!
11؍ ستمبر دو حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے ایک حوالہ 69 سال پرانا ہے جب بابائے قوم محمد علی جناح اپنی مہلت عمل پوری کر کے اور برصغیر کے مسلمانوں کوایک وطن دیکر اپنے رب کے حضور پیش ہوئے تھے اور دوسرا حوالہ وہ ہے جس میں 259 محنت کش ایک سانحہ کے نتیجے میں اپنے پیاروں کو چھوڑ کر رب کے حضور پیش ہو گئے۔ موت ایک حقیقت ہے، اس کا وقت اور مقام بھی مقرر ہے، نہ مقام میں ایک انچ کا فرق آ سکتا ہے نہ ہی وقت میں ایک لمحہ کا۔ لیکن بعض اوقات موت ایسی تلخ یاد بن جاتی ہے کہ مرنے والا تو مر جاتا ہے اور جینے والے زندہ درگور ہو جاتے ہیں سانحہ علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن بھی ایسے ہی واقعات میں سے ایک ہے ۔
11؍ ستمبر2012 کو جب یہ محنت کش جن میں خواتین اور مرد بھی شامل تھے، اپنے گھروں سے نکلے تھے تو بہت خوش تھے۔ وہ اپنے بچوں کے لیے روزی کمانے جا رہے تھے اور آج کا دن ان کے لیے زیادہ اہم یوں بھی تھا کہ اس دن انہیں مہینے بھر کی محنت کا اجر ملنا تھا ۔کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اب وہ اپنے قدموں پر اپنے گھر نہ آ سکیں گے۔ ان میں وہ خواتین بھی شامل تھیں جو اپنے مستقبل کو محفوظ اور اپنے والدین کا سہار ا بننے کے لیے گھروں سے نکلی تھیں کہ جہیز کی لعنت نے غریب کی بچی کی زندگی اور بھی مشکل بنا دی ہے۔ بچیوں کے لیے رشتہ لانے والے عموماً میزبانوں کے گھروں کا ایسے معائنہ کرتے ہیں کہ جیسے انہیں یہ گھر سازوسامان کے ساتھ خریدنا ہے یا انہوں نے یہ سازوسامان سمیت رہائشیوں کے حوالے کیاتھا ۔اگر فریج نظر نہ آئے تو معلوم کر لیا جاتا ہے اور اگر موسم گرم ہو تو بار بار گرمی کے احساس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یوں بچی کے گھروالوں پر ظاہر کر دیا جاتا ہے کہ اب ایئرکنڈیشنڈ بھی ضرورت بن گیا ہے کہ اس کے بغیر بچی کے ہاتھ پیلے ہونا مشکل ہو گا۔ بعض بدبخت تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو ڈھکے چھپے الفاظ میں نہیں کھلم کھلا فرمائش میں بھاری مالیت کی اشیاء لکھا دیتے ہیں کہ یہ تو بچی کے ہی استعمال میں آنی ہے۔ یوں غریب گھروں کی بچیاں اس عمر میں کہ جس میں انہیں گھر میں گھرگرہستی کے کام سیکھنا چاہئیں محنت مزدوری کر کے ماں باپ کا سہارابنتی ہیں۔ اسی طرح غربت کے مارے گھروں کی عورتیں بھی مہنگائی کے اس دور میں گھر کی کفالت میں حصہ دار بننے کے لیے محنت مزدوری کرنے لگتی ہیں اور یوں اپنے شوہر کی مددگار بن جاتی ہیں۔
اس سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کی بڑی تعداد ایسی ہی بچیوں اور خواتین پر مشتمل تھی یا پھر بوڑھے ماں باپ کا سہارابننے والے نوجوان ۔شام کے پانچ بجے تک فیکٹری میں سب اچھا تھا لیکن پھر حرص اور نااہلی مل کر ان محنت کشوں کے لیے موت کا سامان بن گئی ۔ فیکٹری میں آگ لگی اور موجود افراد نے محدود وسائل کے ذریعے اس آگ پر قابو پانے کی کوشش کی لیکن کیمیائی مادے کی آگ بڑھتی ہی چلی گئی۔ ان دنوں میں کراچی میں لوٹ مار کی وارداتیں عام تھیں۔ اگرچہ فیکٹری میں بڑے گیٹ بھی موجود تھے لیکن تنخواہ کے لیے لائے جانے والی بھاری رقوم کے باعث بڑے گیٹ بند کر دیے گئے تھے اور ایک چھوٹے راستے سے محنت کشوں کے گزرنے کا انتظام کیا گیا تھا۔ یوں آگ لگنے کے بعد فیکٹری سے محنت کشوں کا انخلا ممکن نہ رہا اور سینکٹروں مزدورں کے لیے یہ فیکٹری اس دنیا میں ہی جہنم بن گئی ۔لوگ مدد کے لیے چیخ رہے تھے لیکن آگ لگانے والوں نے وہ انتظام کیا تھا کہ آگ نے محنت کشوں کے راستے مسدود کر دیے تھے ۔
اس حادثہ کا ذمہ دار کون ہے یہ طے کرنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن اس وقت کراچی پر جس کا راج تھا اس کی طرف انگلی اُٹھانا اپنی موت کو دعوت دینا تھا اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں کہ جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں ۔پہلے مرحلے پر اس فیکٹری کے مالکان کو ہی اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا اور چہار سوان پر قتل عمد کا مقدمہ درج کرنے اور انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ذریعہ جلد ازجلد سزا دلانے کا مطالبہ کرنے والوں میں کون شامل نہیں تھا۔ وہ مزدور لیڈر ہوں یا سیاسی قائدین سب ہی فیکٹری مالکان کو پھانسی پر لٹکتا دیکھنے کے خواہشمند تھے اور اس خواہش کا کھلم کھلا اظہار کر رہے تھے کچھ بقراط ایسے بھی تھے جو بہت دورکی کوڑی لائے تھے کہ فیکٹری مالکان نے یہ آگ انشورنس کی رقم وصول کرنے کے لیے خود لگوائی ہے۔
راقم ایک عرصہ تک انشورنس کے کاروبار سے وابستہ رہا ہے اور انشورنس کلیم کے ذریعہ ملنے والی رقم کا اندازہ بخوبی کر سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ فیکٹری 15 سال سے کام کر رہی تھی ۔یوں اس فیکٹری میں لگی مشینری کی عمر بھی کم وبیش 15 سال ہی تھی۔ اگر خام اورتیار مال کو علیحدہ کر کے صرف مشینری کے کلیم کا اندازا لگایا جائے تو طریقہ کار کے مطابق سالانہ 7.5 فیصد فرسودگی لگائی جاتی ہے۔ یوں 15 سال میں فرسودگی کی مالیت تقریباً90 فیصد ہو جاتی ہے جبکہ وہ مشینری ابھی قابل استعمال بھی تھی اور فرسودگی کے بعد بچنے والی 10 فیصد رقم میں سے بھی ملبہ کے رقم کی کٹوتی کر کے ادائیگی کی جاتی ہے۔ اس طرح اگر مشینری کی مالیت ایک لاکھ روپے تصور کی جائے تو کلیم میں ملنے والی رقم 7/8 ہزار سے زائد نہیں بنتی جب کہ اس میں تباہ شدہ مشینری کا ہٹائے جانے اور نئی مشینری کی تنصیب کے اخراجات شامل نہیں ہوتے ہیں اسی طرح سے خام اور تیار مال کی مالیت اس دن مارکیٹ ریٹ کے مطابق طے کی جاتی ہے جس میں بھی کٹوتیاں شامل ہیں ۔اس طرح خام اور تیار مال کی اصل رقم بھی کلیم میں موصول نہیں ہوتی گویا ازخود آگ لگانا خسارے کا سودا ہے اور کوئی بھی کاروباری کبھی بھی خسارے کا سودا نہیں کیا کرتا ۔
علی انٹرپرائزز پر ایک اعتراض یہ بھی آیا کہ اس کی تعمیر قواعد سے ہٹ کر کی گئی تھی یہ الزام بھی اتنا کمزورہے کہ جس کو لگانے والوں کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگتا ہے۔ یہ فیکٹری اپنا تیار شدہ مال مقامی مارکیٹ میں فروخت نہیں کر رہی تھی بلکہ اس کا تیار شدہ 100 فیصد مال یورپی ممالک کو برآمد کیا جاتا تھا جن میں جرمن،فرانس اور دیگر ممالک شامل ہیں۔یہ ممالک WTO کے ممبر ہیں جس کے تحت یہ صرف ان اداروں سے مال خرید سکتے ہیں جو کم از کم ISO9000 سرٹیفائڈ ہوں۔ یوں علی انٹرپرائزز یقینا ISO9000 سرٹیفائڈ تھی اور ISO9000 کی سرٹیفکیشن کے ضوابط کے مطابق عمارت کی تعمیر کا ایک مخصوص اور مطلوب معیار ہے جس سے ہٹ کر ہونے والی تعمیر شدہ عمارت کو ISO9000 سرٹیفکیشن نہیں ملتی۔ پھر ایک لمحہ کے لیے تسلیم کر لیتے ہیں کہ عمارت کی تعمیر قواعد سے ہٹ کر کی گئی تھی تو ان قواعد کی پابندی کرانا کس کی ذمہ داری تھی ۔
اس سانحہ کے فوری بعد اس کی ذمہ داری محکمہ محنت کے سر تھوپ دی گئی اور اصل ذمہ داروں کا نام لینے کا کسی میں بھی حوصلہ نہیں تھا ۔جبکہ پورے معاملے سے محکمہ محنت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ محکمہ محنت کے معاملات میں محنت کشوں کے لیے مرتب قوانین پر عمل کرانا اور ادارے میں صحتمند صنعتی ماحول برقرار رکھنا شامل ہے ۔کسی بھی صنعتی ادارے کی تعمیر کی نگرانی محکمہ صنعت کی ذمہ داری ہے اور صنعتی علاقے محکمہ صنعت کے ذیلی شعبہ سائٹ لمیٹڈ کی عملداری میں آتے ہیں جہاں تمام سہولیات فراہم کرنا سائٹ لمیٹڈ کی ذمہ داری ہے جس میں علاقہ میں موجود صنعتوں کے مطابق آتشزدگی پر قابو پانے کی مطلوبہ سہولیات کی فراہمی بنیادی اہمیت کی حامل ہے ۔سائٹ ایریا بلدیہ ٹاؤن میں ہی نہیں سندھ کے کسی بھی صنعتی علاقہ میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔ بلدیہ ٹاؤن کایہ صنعتی علاقہ تو کراچی جیسے بڑے شہر کے درمیان موجود ہے لیکن اس سے قریب ترین پانی کا ذخیرہ بھی سوک سینٹر پر ہے جو کم وبیش 45 منٹ کی مسافت پر ہے۔ یوں جائے حادثہ پر آگ پر قابو پانے والی گاڑی کو خالی ہونے کے بعد پانی لیکر واپس آنے میں اگر ٹریفک جام کے مسائل درپیش نہ ہوں تو کم وبیش 2 گھنٹے لگ جاتے ہیں یوں آگ سے بچانے کا عمل تعطل کا شکار ہو کر آتشزدگی کی ہولناکی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے اور یہی کچھ یہاں بھی ہوا آگ کیمیائی مادے سے لگی تھی جس پر قابو فوم کے ذریعہ پایا جا سکتا تھا لیکن پانی ڈال کر آگ کے دائرہ کو مزید بڑھا دیا گیا ۔
جس زمانے میں یہ سانحہ پیش آیا اس زمانے میں لمبی زلفوں والے شاعر وزارت صنعت کے ذمہ دار تھے اور سائٹ لمیٹڈ وزارت صنعت کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے ۔وزیر محنت کا تعلق اگرچہ حکومت کے اتحادیوں سے تھا لیکن ان کی پارٹی سندھ اسمبلی میں صرف دو نشستیں رکھتی تھی۔ یوں سارا نزلہ محکمہ محنت پر گرا سوشل سیکورٹی اور ورکرز ویلفیئر بورڈ سے رقوم کی ادائیگی کرائی گئی۔ وفاق میں بھی محکمہ EOBI موصوف ہی کی جماعت کے رکن قومی اسمبلی کی وزارت میں آتا تھا۔ یوں اس ادارے سے لواحقین کو قواعد کے برخلاف پنشن کا اجراء کرا کر ان کی اشک شوئی کی گئی ۔
اس سانحہ کے بعد بھی محکمہ صنعت کے ذمہ داروں نے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے یہ حادثہ تو شہر کے درمیان پیش آیا تھا۔ یوں پانی کے ذخائر اگرچہ بہت قریب نہیں لیکن بہت دور بھی نہیں تھے لیکن اگر اسی قسم کو کوئی سانحہ نوری آباد کے صنعتی علاقہ میں پیش آ جاتا تو پھر کیا ہو گا۔پورے نوری آباد کے صنعتی علاقہ میں ہی نہیں پورے سندھ کے کسی بھی صنعتی علاقہ میں فائر اسٹیشن نہیں ہیں۔ نوری آباد حیدرآباد سے کم وبیش دو گھنٹہ درکار ہیں اور یہ تویک طرفہ سفر کا دورانیہ ہے جبکہ جائے حادثہ سے خالی ہو کر آنے والی فائربریگیڈ کی گاڑی کو اس سے دُہرا دورانیہ چاہیے ہو گا۔ یوں فیکٹری پوری جل جائے گی ،آگ پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔اب متعلقہ حلقے میرے نکات کا کیا جواب دیتے ہیں مجھے اس کا انتظار رہے گا۔