قید ہونے کے باوجود عمران خان کی مقبولیت برقرار
شیئر کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی وکلاء ٹیم کی آج ہی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی استدعا مسترد کر دی۔ عدالت نے درخواست پر نوٹسزجاری کردیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چار پانچ دن میں کیس سماعت کیلئے مقرر ہو جائے گا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر حکومتی حلقوں نے خوشی کا اظہار کیا ہے جبکہ عمران خان کے حامی حلقے حسب توقع اسے ناانصافی قرار دے رہے ہیں، دوسری جانب عمران خان کے وکیل کے چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد اس دعوے پر کہ سابق وزیراعظم کو سی کلاس میں رکھا گیا ہے جہاں صفائی کا ناقص انتظام ہے، دن میں مکھیاں اور رات کے وقت حوالات میں کیڑے ہوتے ہیں، اندرون ملک عمران خان کے حامیوں کے علاوہ بیرون ملک مقیم عمران خان کے حامیوں نے اس قدر شدید ردعمل کا اظہار کیاہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو پاکستانی حکام سے مطالبہ کرنا پڑا کہ وہ سابق وزیراعظم چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی میں قانون کی حکمرانی کا احترام کرتے ہوئے انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کے نائب ترجمان فرحان حق نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سیکریٹری جنرل اسلام آباد میں سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کے بعد شروع ہونے والے جاری مظاہروں سے آگاہ ہیں اوروہ تمام فریقوں سے تشددسے اجتناب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ جبکہ محکمہ جیل پنجاب کے ترجمان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے حوالے سے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر زیر گردش خبریں ”حقائق کے برعکس اور بے بنیاد“ ہیں۔ترجمان محکمہ جیل پنجاب کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف کو تمام ضروری طبی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔ جیل مینوئل کے مطابق ڈاکٹرز کی نگرانی میں خوراک بھی مہیا کی جا رہی ہے جبکہ وکیل اور فیملی کو جیل مینوئل کے مطابق ملاقات کی سہولت بھی حاصل ہے۔
عمران خان کے حامی حلقے سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری اور انھیں سزا سنائے جانے کو پشاور میں تحصیل چیئرمین کی نشست کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت کو قرار دے رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اس کامیابی پر حکومت بوکھلا گئی ہے اور وہ کسی بھی قیمت پر عمران خان کو انتخابی دنگل سے الگ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔پی ٹی آئی کے حامی اس کامیابی کو سوشل میڈیا پر پارٹی کی مقبولیت کے بیانیے کے طور پر استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔عموماً بلدیاتی سطح پر ہونے والے ضمنی انتخاب کو نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کا آئینہ دار قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ووٹ بینک سے زیادہ انتخاب میں حصہ لینے والی شخصیات اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد اگرچہ پاکستان بھر میں کچھ لوگ نکلے ضرور اور ہر شہر میں گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن ان مظاہرین کی تعداد بہت کم تھی۔ تحریک انصاف کے ناقدین نے اسے پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا مظہر قرار دیا۔ لیکن تحریک انصاف کے ناقدین کا یہ بیانیہ وقتی طورپر دل خوش کرنے اور عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کہ تحریک انصاف عوامی حمایت کھوچکی ہے، اس لیے اس کا ساتھ دینے کے بجائے اب اس کے حامی کوئی متبادل امیدوار دیکھیں،لیکن تحریک انصاف کے حامیوں کا کہناہے کہ عمران خان کی گرفتاری پر لوگوں کا باہر نہ نکلنا خود عمران خان کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جو انھوں نے حکومت کے تیور دیکھتے ہوئے اپنی گرفتاری یقینی سمجھ کر اپنے کارکنوں کو سمجھائی تھی،عمران خان کے حامیوں کا کہناہے کہ انھوں نے اپنے حامیوں کو واضح الفاظ میں تاکید کی تھی کہ وہ ان کی گرفتاری پر ایسا کوئی مظاہرہ نہ کریں جس سے موجودہ حکومت کو ایک دفعہ ان سے اپنی جیلیں بھرنے کا موقع مل جائے بلکہ اپنی حمایت کو دل میں رکھیں اور انتخابات میں اپنے ووٹ کی طاقت سے موجودہ حکمرانوں کے مظالم کا بدلہ لیں،پی ٹی آئی کے حامی کہتے ہیں کہ ایک خاموش حمایت ہے جو اب بھی پی ٹی آئی کے لیے موجود ہے جو احتجاج اور دھرنوں میں تو نظر نہیں آتی لیکن ووٹ کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔تحریکِ انصاف کی حامیوں کا کہناہے کہ پورے ملک نے دیکھاکہ کیسے لوگوں نے پی ٹی آئی کے ایک عام ورکر کو ووٹ دیے اور وہ کتنی اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور کیا ہوتی ہے محبت یا حمایت؟پاکستان تحریک انصاف 2018 کے انتخابات میں مرکز اور صوبہ پنجاب میں بمشکل حکومت بنا پائی تھی تاہم خیبر پختونخوا میں انھیں اکثریت حاصل تھی۔ پی ٹی آئی واحد جماعت تھی جس نے خیبر پختونخوا میں مسلسل دوسری مرتبہ حکومت قائم کی تھی اوریہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کو پی ٹی آئی کا گڑھ کہا جانے لگا ہے۔پشاور میں متھرا کی بلدیاتی نشست پر اس مرتبہ تحریک انصاف کے ایک ایسے کارکن کو ٹکٹ دیا گیا جس نے اپنی سیاست کا آغاز 2008 میں انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا اور پھر وہ آئی ایس ایف کے صدر رہے اور اس کے بعد وہ انصاف یوتھ ونگ کے ساتھ وابستہ رہے اور یوتھ ونگ کی پشاور میں قیادت بھی کی۔ وہ بنی گالہ میں سیکورٹی کیمرہ انچارج رہے تھے اور اس کے بعد زمان پارک میں بھی وہ ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔ انھیں ٹکٹ دینا ان پر تحریک انصاف کے قائدین کا اعتماد ظاہر کرتا ہے اور وہ ان کی توقعات پر پورا اُترے ہیں۔عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ مشکل الیکشن تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے ان پر سختیاں تھیں ’رہنما گرفتار تھے، کارکنوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی اگر کوئی باہر آتا تو اسے گرفتار کیا جاتا۔ایسے میں ان کے لیے انتخابی مہم چلانا بڑا مشکل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب عمران خان اور پی ٹی آئی سے محبت کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں عمران خان کی محبت قائم ہے جسے کوئی نہیں نکال سکتا۔9مئی کے واقعات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریوں، بیشتر اہم رہنماؤں کی دیگر جماعتوں میں شمولیت یا سیاست کو ہی خیرباد کہہ دینے کے اعلانات دیکھ کرپی ٹی آئی کے مخالفین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی ہے۔تاہم متھرا کی بلدیاتی نشست پر تحریک انصاف کی کامیابی سے ظاہرہوگیا کہ ریاستی دباؤ اور جبر سے کسی بھی سیاسی جماعت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ ہی وہ سوچ ہے جو اس وقت کام کر رہی ہے۔اس امر میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ اسی طرح لوگوں میں مقبول ہے جس طرح ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کامیاب رہا تھا۔پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ضمنی انتخابات میں پی ایم ایل نوشہرہ سمیت دیگر علاقوں میں زیادہ نشستوں پر اسی لیے کامیاب ہوئی تھی کہ ان کا بیانیہ اس وقت بِک رہا تھا۔عمران خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں مقبولیت کھو رہی تھی لیکن جبر اور دباؤ کے واقعات نے اسے دوبارہ مقبولیت دے دی۔9مئی اور 5 اگست کو عمران خان کی گرفتاریوں پر کارکنوں کی جانب سے ردِ عمل کے واضح فرق کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا لوگ پی ٹی آئی کی حمایت سے پیچھے ہٹے ہیں یا انھوں نے سیاسی سرگرمیاں ہی چھوڑ دی ہیں۔اس بارے میں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں کا کا کہنا ہے کہ حکومت اور دیگر ادارے جتنی بھی سختیاں کر لیں عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی محبت ان کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا کہنا تھا کہ خوف اتنا ہے کہ دو بندے گھر سے نہیں نکل سکتے۔ ہر وقت پولیس اور نامعلوم افراد کا خوف رہتا ہے۔وہ کہتے ہیں انھیں اپنی پرواہ نہیں ہوتی۔لوگوں کا کہناہے کہ وہ ’اپنی عزت اور گھر والوں کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے مگر پی ٹی آئی کی حمایت وہ کرتے رہیں گے۔ اگرچہ حالات اتنے مشکل ہوچکے ہیں کہ گھر سے باہر نکلنا محال ہو گیا ہے۔ گھر والے بھی اب منع کرتے ہیں کہ باہر نہیں جانا، کسی قسم کی سرگرمی میں شرکت نہیں کرنی لیکن عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت اپنی جگہ موجود ہے۔ اس وقت حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماکارکنوں اور یہاں تک کہ ان کی حمایت کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ گرفتار کیے گئے افراد کو ایک مقدمے سے اگر ضمانت ملتی ہے تو دوسرے مقدمے میں انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باجود لوگوں کی سیاسی وابستگی تحریک انصاف کے ساتھ ہے لیکن لوگ محتاط ضرور ہو گئے ہیں اور پوسٹس بڑے احتیاط سے کر رہے ہیں۔موجودہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے خلاف اندھادھند کارروائیوں سے حکومت پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہوگیاہے اور اس سے خاص طورپر مسلم لیگ ن کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے،اگر آزاد انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی ہی کامیاب ہو گی۔پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اس مرتبہ گرفتاری پر کارکنوں اور عوام کے سڑکوں پر نہ نکلنے کی ایک وجہ قائدین کا رویہ بھی بتایا گیا ہے تحریک انصاف کے حامیوں کا کہناہے کہ تحریک کے کارکنوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کے اندراج نے کارکنوں کو خوفزدہ کردیاہے اور وہ اس خوف کی وجہ سے سڑکوں پر آکر اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے بجائے اب عام انتخابات کا انتظار کررہے ہیں تاکہ وہ ان زیادتیوں کا بدلہ اپنے ووٹ کی طاقت سے لے سکیں۔جہاں تک جماعت کی حمایت اور مقبولیت کی بات ہے تو پشاور متھرا کے انتخابات میں سب نے دیکھ لیا ہے۔ حکومت جتنا دباؤ ڈال رہی ہے جماعت کی حمایت اور مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ اب جبکہ اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے اور نگراں وزیراعظم کے نام پر کوئی اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے شہباز شریف بدستور وزیراعظم کے فرائض انجام دے رہے ہیں، انھیں چاہئے کہ وہ اپنی سخت گیر پالیسیوں پر نظر ثانی کریں اور یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس طرح کے حربوں سے بیرون ملک پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کی کتنی رسوائی ہورہی ہے،شہباز شریف کا شمار ملک کے کہنہ مشق اور منکسرالمزاج سیاستدانوں میں کیاجاتاہے،مسلم لیگ ن کے سربراہ کی حیثیت سے انھیں سوچنا چاہئے کہ اب جبکہ اسمبلی تحلیل ہوچکی ہے انھیں جلد یا بدیر ووٹ لینے کیلئے عوام کی دہلیز پر ناک رگڑنا ہے،اب نگراں وزیراعظم کی آمد تک وہ جو بھی قدم اٹھائیں گے اسے انتخابی مہم کا حصہ تصور کیاجائے گا اور وہ عوام کو کچھ ریلیف دے کرہی ان کی ہمدردیاں حاصل کرسکتے ہیں کسی کو جیل میں ڈال کر یا حوالات میں بند کرکے اس سے حکومت کی حمایت یا تحریک انصاف کی مخالفت میں بیان تو دلوایا جاسکتاہے لیکن انتخاب جیتنا ممکن نہیں ہوسکتا۔
٭٭٭