میں بھی یہیں کہیں کا ہوں!
شیئر کریں
یہ واپسی کا سفر ہے، مگر واپسی کہاں!! مدینے کا مسافر ، مدینے کا ہی رہتا ہے۔ دل وہ چھوڑ آتا ہے، جسم کی صلیب البتہ اُٹھائے پھرتا ہے۔
سوادِ روح کے منظر مدینہ جیسے ہیں
خیال آتا ہے میں بھی یہیں کہیں کا ہوں
یہ دو دنیاؤں کا سفر تھا۔ ایک روح ، دوسرا جسم کا ۔ روح نے عشق کے سمندر میں غوطے کھائے(جس کی وارداتیں ایک مستقل موضوع کے طور پر سفر نامے کا حصہ ہونگیں) مگر جسم وطنِ عزیز کی کہنہ عادتوں کی اُلٹ پھیر میں گرتا پڑتا رہا۔ کہاں حرم کے مناظر ، عبادتیں اور کہاں یہ نہ ختم ہونے والی عادتیں!!کیا ہم ایک قوم بننے کے عمل میں ناکام ہوگئے، کیا ہم کبھی تبدیل بھی ہوں گے؟ اگر حج کی عالمگیر عبادت بھی ہماری اصلاح میں ناکام ہے، تو پھر کب او رکہاں؟ دل اُداس ہے، مسافر آزردہ!! یہ نہیں کہ حکام ہمارے ساتھ سلوک کیا کرتے ہیں، یہ بھی کہ ہم اپنے ساتھ خود کیسے ہیں؟
وزارتِ مذہبی امور ایک گورکھ دھندا ہے اور کچھ نہیں۔ جمعیت علمائے اسلام نے اپنے اکابرین کی روش ترک کردی۔ محض مذہبی تعصب کی بناء پر اُن کی حمایت ایک گناہ لگتی ہے۔ یہ وہ لوگ نہیں جو کبھی انار کے درخت کے نیچے ایک چٹائی پر بیٹھ کر قال اللہ و قال الرسول کا درس لیتے اور دیتے تھے۔ جن کی تربیت مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی نے کی تھی۔ یہ جاہ پسندوں اور” مترفین” کا اب ایک ٹولہ ہے۔ افسوس اُنہیں احساس ہی نہ تھا کہ حج کے لیے آنے والے عازمین و زائرین کا رخ عبادتوں کی جانب کیسے مرتکز رکھنا ہے؟ اُ ن کا سارا انتظام دراصل حاجیوں کی عبادت میں خلل ڈالتا تھا۔ منیٰ اور عرفات کے مایوس کن انتظامات کے حوالے سے تو وفاقی سیکریٹری مذہبی امور آفتاب اکبر درانی نے ڈی جی حج مشن جدہ ابرار احمد مرزا سے وضاحت طلب کر لی ۔سب جانتے ہیں یہ معاملہ اُن تک محدود نہیں تھا۔ اور بدانتظامی صرف منیٰ اور عرفات تک محدود بھی نہ تھی۔ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ بڑی سطح کے انتظامات میں خود وفاقی سیکریٹری اور وزیر مذہبی امور شامل نہ رہے ہوں؟ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے گورکھ دھندوں کو سمجھتے ہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہیںکہ اس طرح کی وضاحت طلبی دراصل مسئلے پر ”مٹی پاؤ” کی نفسیات سے محض ایک ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔ حج کے انتظامات وزارت کو زندگی میں ایک بار نہیں بلکہ ہر سال کرنے ہوتے ہیں تو پھر ایک ہی طرح کی بدانتظامی بار بار دیکھنے کو کیوں ملتی ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ انتظامیہ کو اس نوع کی کوتاہیوں کو دور کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ منیٰ اور عرفات کی بدانتظامیاں تو اس سطح پر پہنچ گئی تھیں کہ حجاج انتظامیہ کو ننگی گالیاں دینے پر اُتر آئے تھے۔ جن کو گالیاں دی جائیں، اگر اُنہیں اس کا ثواب ملتا ہے تو یقین جانیں اس عرصے میں مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف نے بہت ”ثواب” کمایا ۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ لوگ ہاتھ اُٹھااُٹھا کر بددعائیں بھی دے رہے تھے۔ منیٰ کے خیموں تک پہنچنے کے لیے چند منٹوں کا سفر گھنٹے بھر کا بنادیا، اور چند فرلانگ کا سفر راستا بند کرکے کئی کلومیٹر پر محیط کردیا گیا، یہ معاملہ ذمہ دار وں کی سطح پر صرف دو منٹوں میں حل ہوسکتا تھا اگر مسجد خیف کے قریب سے منیٰ میں قائم خیموں کا سیدھا راستا پاکستانیوں کے لیے کھول دیا جاتا جو دوسروں کے لیے کھولا جاتا تھا مگر پاکستانیوں کے لیے نہیں۔ افسوس حکام کو توجہ دلانے پر بھی یہ نہیں کیا گیا ، اس کی وجہ انتہائی شرمناک ہے۔ پاکستانی کسی بھی سطح پر” عربوں” سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیںکرپاتے ۔ تمام پاکستانی حکام اس معاملے میں عربوں سے بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ عرب بنگالی اور بھارتی مسلمانوں کو جو تکریم دیتے تھے، وہ پاکستانیوں کو نہ ملتی تھی۔ ایسے مناظر خال خال ہی دیکھنے کو ملتے جب کسی بنگالی یا بھارتی مسلمان کی بے توقیری ہوتی مگر پاکستانی ہر جگہ دھکے، مکے کھارہے تھے۔ افسوس انتظامیہ ان شکایتوں پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتی تھی۔منیٰ اور عرفات کی شکایتیں ، شکایتیں ہی رہیں اس پر کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔
مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ تک چالیس دنوں کے سفر میں انتظامیہ نے حجاج کو اپنی مرضی سے ہانکا لگایا۔ ظاہر ہے اس سفر میں بنیادی چیز عبادت ہے۔ حجاج اپنے پورے نظام الاوقات کو حرم کی نمازوں ، مکہ میں طواف کی برکتوں اور مدینہ میں چالیس نمازوں کی ترتیب سے لے کر سرکار رسالت مابۖ کے دربار میں حاضری اور ریاض الجنة میں نفل کی سعادت سے بہرہ مندہونے کی نیت سے ترتیب دیتے ہیں۔ مگر پاکستانی انتظامیہ اس پورے عمل سے بالکل بے خبر تھی۔ اُن کے کھانے پینے کے شیڈول سے لے کر ٹرانسپورٹ کے نظام تک اس کا کوئی لحاظ ہی نہیں رکھا گیا۔ مکہ مکرمہ میں تو کسی حد تک کھانے کے معاملات کو مقامی ذمہ داروں نے حجاج کی بات کو سمجھ کر نرم کردیا۔ مگر مدینہ منورہ کے فندق الاندلس میں ایک باتونی اور گھامڑ قسم کے آدمی کے ہاتھ میں کھانے کے انتظامات تھے۔ جہاں دوسرے ہی دن پٹھان بھائیوں نے احتجاج کیا۔ اور وہ احتجاج کی ویڈیو اے آر وائی کو دینے پر بضد تھے، جس پر بمشکل قابو پایا گیا۔ الاندلس سمیت تمام ہوٹلوں میں ہزاروں حاجیوں کو ٹھونس ٹھونس کر کمروں میں ڈالا گیا۔ جہاں لفٹیں خراب تھیں۔ چودہویں فلور سے لوگ اپنی نمازوں کی ترتیب سنبھالنے کے لیے ہانپتے کانپتے سیڑھیوں پر چڑھتے اُترتے نظر آتے تھے۔ یہ وہ ہوٹل تھا جو کورونا پابندیوں سے دوسال سے بند تھا، مگر یہاں حاجیوں کو ٹھونسا گیا اور بلڈنگ کی دیکھ بھال اور مرمت کے کام اس دوران انجام دیے جاتے رہے۔ یہاں بھی ہوٹل انتظامیہ سے بات کرنے سے حج مشن کے لوگ کتراتے رہے۔ سب سے بڑی بدانتظامی کھانے پر دیکھی گئی۔ یہاں تک کہ بہت سے حجاج کرام نے اپنی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے یہاں کھانا ہی ترک کردیا۔
مکہ مکرمہ میں سب سے بڑی بدانتظامی ٹرانسپورٹ کی سطح پر تھی۔ اجیاد روڈ سے حرم آتے ہوئے پاکستانیوں کو پہلے جو ٹرمینل دیا گیا وہ دو تین دنوں بعد واپس لے لیا گیا۔ انتظامیہ صابر شاکر رہی۔ اب وہ جس ٹرمینل سے بسوں پر اُترتے چڑھتے، وہ زیادہ دور جاکر خطرناک حد تک بھیڑ کا شکار رہتا۔ اس کے لیے ایسی ہڑبونگ مچی رہتی کہ دیکھتے ہوئے بھی شرم آتی، چہ جائیکہ آپ اس کے خود شکار بھی ہوں۔ یہ بات شاید ہی کسی کی سمجھ میں آسکے کہ اس ہڑبونگ میں عورتوں اور مردوں کی بدحالی کے باعث کافی لوگوں نے عشاء کی نماز حرم میں پڑھنا چھوڑ دی۔جبکہ کچھ لوگوں نے عشاء کے فوراً بعد حرم سے آنا ملتوی کردیا اور عشاء کے بعد ہوٹل میں ملنے والے کھانے کو بھی قربان کردیا۔ یہ اذیت ناک عمل عورتوں کو پڑنے والے دھکوں سے اور زیادہ کریہہ لگتا۔ اس صورتِ حال پر چندانتظامی اقدامات سے قابو پایا جاسکتا تھا۔ مگر سب بس دن گزارنے اور جیسے تیسے کام پورا کرنے پر لگے تھے۔ چنانچہ انتظامیہ اصلاح کے لیے دی جانے والی تجاویز کو سننے پر بھی تیار نہ تھی۔
(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔