میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سندھ حکومت کاکے ایم سی سے سلاٹر ہائوس کی زمین واپس لینے کا فیصلہ

سندھ حکومت کاکے ایم سی سے سلاٹر ہائوس کی زمین واپس لینے کا فیصلہ

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۱ اگست ۲۰۲۱

شیئر کریں

سندھ کابینہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) پر زور دیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کو 1.59 ارب روپے ادا کرے جو اس نے گزشتہ 11 سالوں کے دوران رضاکارانہ واپسی اسکیم کے تحت مجموعی وصولی کا 25 فیصد ایٹ سورس کٹوتی کی تھی۔ یہ بات وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی صدارت میں منگل کو وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ کابینہ کے اجلاس میں سامنے آئی۔ اجلاس میں چیف سیکرٹری ممتاز شاہ ، تمام صوبائی وزراء ، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر ، معاونین خصوصی اور متعلقہ سیکرٹریز نے شرکت کی۔اجلاس کو بتایا گیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2016 کے سو موٹو کیس نمبر 17 اور بلوچستان ہائی کورٹ نے سی پی نمبر 1048، 2014 میں تحفظات کا اظہار کیاگیا اور نیب کی رضاکارانہ واپسی اسکیموں کے تحت واپس لی گئی رقومات وفاق اور صوبوں کے متعلقہ پبلک اکاؤنٹس میں جمع کرانے کی ہدایت جاری کی تھیں۔اجلاس کو بتایا گیا کہ قومی احتساب بیورو مبینہ طور پر غبن شدہ عوامی رقم کی وصولی کرتا ہے اور 25 فیصد رقم اپنے افسران میں بطور ریوارڈ کے طورپر تقسیم کرنے اور محکمہ کی فلاح و بہبود کے لیے رکھتا ہے۔ کابینہ کوبتایاگیا کہ کے ایم سی کو 101 ایکڑ اراضی حکومت سندھ نے مذبح/سلاٹر ہاؤس کے قیام کے لیے فراہم کی تھی۔ کے ایم سی نے بھینس کالونی کی اراضی پر سلاٹر ہائوس قائم کیا تھا۔ فی الوقت فنی وجوہات کی بنا پر یہ سلاٹر ہائوس فعال نہیں ہے۔سندھ حکومت نے بھینس کالونی میں جہا ں پر سلاٹر ہائوس قائم ہے وہاں پر بی آر ٹی ریڈ لائن کے لیے بائیو گیس پلانٹ کے قیام کی منظوری دی۔ کابینہ نے تفصیلی غور کے بعد بائیو گیس پلانٹ کے قیام کے لیے مذبح خانہ کی زمین واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ تاہم وزیراعلیٰ سندھ نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کو ہدایت کی کہ سلاٹر ہاؤس کے لیے ایک اسکیم تیار کی جائے اور ان کی حکومت انہیں زمین فراہم کرے گی۔ کابینہ نے کراچی واٹر بورڈ کی درخواست پر حکومت پنجاب کی طرح بوتل پانی اور مشروبات کی کمپنیوں سے فی لیٹر 1 روپے لیوی کی منظوری دی۔کابینہ نے محکمہ لوکل گورنمنٹ کی درخواست پر مقامی حکومت کی سطح پر فنڈ قائم کرنے کی تجویز منظور کی تاکہ وہاں تعیناتی کے منتظر ایس سی یو جی ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جا سکیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ لوکل گورنمنٹ کو ایک مناسب نظام تیار کرنا چاہیے تاکہ مزید پوسٹنگ کے لیے لوکل گورنمنٹ بورڈ کو رپورٹ کرنے والے ملازمین اپنی تنخواہیں لے سکیں۔کابینہ نے لوکل گورنمنٹ کے سب انجینئرز BS-11 SCUG) کے سروسز ڈھانچے کو دیگر محکموں جیسے آبپاشی ، ورکس اینڈ سروسز ، پبلک ہیلتھ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور ایجوکیشن ورکس کے برابر لانے کی تجویز کی بھی منظوری دی۔کابینہ کو بتایا گیا کہ 138.384 ارب روپے کی لاگت سے 1646 جاری اسکیمیں شروع کی گئی ہیں جن کے لیے اس نئے مالی سال 21-2020 کے دوران 38.706 ارب روپے جاری کیے گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ان کی مسلسل مانیٹرنگ کے باعث 8.173 ارب روپے 6 اگست 2021 تک استعمال ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کابینہ کے ارکان کو ہدایت کی کہ وہ ترقیاتی کاموں کی بروقت تکمیل پر خصوصی توجہ دیں۔محکمہ زراعت نے کابینہ کو بتایا کہ بیج کا تعین وفاقی سیڈ سرٹیفیکیشن اینڈ رجسٹریشن ڈیپارٹمنٹ (ایف ایس سی اینڈ آر ڈی) کرتاہے۔ فی الحال ایف ایس سی اینڈ آر ڈی کا انفراسٹرکچر اور عملہ پورے سندھ کا احاطہ کرنے کے لیے ناکافی ہے۔صوبائی مشیر زراعت منظور وسان نے اجلاس کو بتایا کہ سندھ میں 112 رجسٹرڈ سیڈ کمپنیاں کام کر رہی ہیں جبکہ 15 سیڈ کمپنیاں رجسٹرڈ امپورٹ بیج کی ہیں لیکن یہاں غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی بھرمار ہے۔ اس لیے غیر معیاری بیج بویا جا رہا ہے جس سے پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔محکمہ زراعت نے کابینہ کو تجویز دی کہ وہ صوبائی بیج سرٹیفیکیشن اور رجسٹریشن قانون نافذ کرنے کی اجازت دے۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں سید سردار شاہ ، اسماعیل راہو ، منظور وسان اور مرتضیٰ وہاب شامل ہیں جو کہ سندھ کارپوریشن ایکٹ کا جائزہ لیں گے اور تجویز کریں گے کہ مارکیٹ میں حقیقی کمپنیوں اور بیجوں کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اسے کیسے کارآمد بنایا جائے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں