14 اگست جشن آزادیٔ پاکستان
شیئر کریں
(گزشتہ سے پیوستہ)
1930ء میںمصور پاکستان علامہ اقبال نے الٰہ آباد کے مقام پر ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے اکیسویں سالانہ اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی خوب کھل کر وضاحت کی ، بلکہ مسلمانانِ ہند کے لئے ہندوستان میں ایک الگ مملکت کے قیام کی پیش گوئی بھی کردی ۔
دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے دوران علامہ اقبال نے قائد اعظم سے کئی ایک ملاقاتیں کیں ، جن کا بنیادی مقصد ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی بنیاد پر مسلمانانِ ہند کے حقوق کے تحفظ کے لئے کوئی مؤثر حل تلاش کرنا تھا ۔ چنانچہ 1936ء سے لے کر 1938ء تک دوسالوں میںعلامہ اقبال نے قائد اعظم کے طرف جو خطوط لکھے اُن میں بھی دو قومی نظریئے کا عکس صاف اور نمایاں طور پر واضح نظر آتا ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح خود ’’دو قومی نظریہ‘‘ کے سب سے بڑے حامی تھے ، انہوں نے اِس نظریہ کی بنیاد پر نہ صرف ’’آل انڈیا کانگریس ‘‘ کے تاحیات صدر بننے کی گراں قدر پیش کش کو ٹھکرایا بلکہ مسلم نیشنلسٹ رہنماؤں کی بھی خوب کھل کر مخالفت کی ، لیکن ’’دو قومی نظریہ‘‘ کی صداقت پر کوئی حرف نہیں آنے دیا۔
بالآخر 23/ مارچ 1940ء کو مسلمانوں نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزادی کا باضابطہ مطالبہ کیا ۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس 22/ مارچ 1940ء کی رات کو لاہور میں منعقد ہوا ، جس سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے کہا کہ : ’’مسلمان ہر اعتبار سے ایک قوم ہیں ، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اُنہیں غلطی سے ایک اقلیت سمجھا جاتا ہے …‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ : ’’حقیقت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں الگ الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ، دونوں کی معاشرت جدا جدا ہے ، دونوں کا ادب ایک دوسرے سے مختلف ہے ، اِن میں باہم شادیاں نہیں ہوسکتیں ، در اصل یہ دوالگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد متضاد تصورات پر قائم ہے۔‘‘یہی وہ ’’دو قومی نظریہ‘‘ تھا کہ جس کی بنیادپر بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک آزاد و خود مختار ریاست کی بنیاد رکھی۔
دوسری جنگ عظیم (یکم ستمبر 1938ء تا 2ستمبر1945ء ) کے بعد اگرچہ تاجِ برطانیہ اپنے زیر تسلط علاقوں سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تھا اور اُس وقت کی ملکہ برطانیہ کی یہ خواہش تھی کہ حسب روایت پر ہندوستان پر اپنا قبضہ برقرار رکھا جائے، لیکن صورت حال کچھ اس طرف جاچکی تھی کہ اب یہ قبضہ مزید برقرار رکھنا کسی بھی طرح ممکن نہ تھا ۔ چنانچہ جب انگریزوں نے دیکھا کہ ہندوستان پر اب مزید تسلط دُشوار ہوگیا ہے، تو اِن حالات میں فروری 1947ء میں ملکہ برطانیہ نے سرلارڈ ماؤنٹ بیٹن کو واسرائے ہند بناکر دہلی بھیجا اور اُسے یہ ہدف دیاکہ برصغیر (ہندوستان) سے قابض انگریزوں کا انخلاء اِس طرح سے عمل میں لایا جائے کہ ہندوستان کو تقسیم کرتے ہوئے 1948ء تک یہ تسلط ختم کردیا جائے ، لیکن لارڈ ماؤنٹ بیٹن یہود نے اہل ہند ہنود کے ساتھ مل کر ایک گھناؤنی سازش کے تحت مؤرخہ 14/ اگست1947ء کو برصغیر کو اچانک تقسیم کرنے کا اس طرح فیصلہ کیا کہ پہلے 14/ اگست کو ہندوستان آزاد ہوگا اور پھر اس کے اگلے دن یعنی 15/ اگست کو پاکستان آزاد ہوگا ، لیکن توہم پرست ہندوؤں نے 14/ اگست کو منحوس تصور کرتے ہوئے اس دن کو پاکستان کی آزادی کے دن اور 15/ اگست کو ہندوستان کی آزادی کے دن کا منصوبہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو دیا ۔
مؤرخہ 3/ جون 1947ء کو یہ تو سب کو معلوم تھا کہ امسال اگست کا مہینے میںرمضان المبارک میں آئے گا، لیکن یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ 13 اور 14/ اگست کی درمیانی شب کو رمضان المبارک کی ستائیسویں شب ہوگی۔ چنانچہ 13اور 14 / اگست کی درمیانی (یعنی ستائیس رمضان المبارک کی ) شب کو پہلے ریڈیو ڈھاکہ سے اور اُس کے ایک گھنٹہ بعد ریڈیو لاہور سے یہ اعلان نشر ہوا کہ ’’یہ ریڈیو پاکستان ہے۔‘‘اور اس طرح 14/ اگست 1947ء بمطابق 27/ رمضان المبارک کو ہمارا یہ پیارا وطن عزیز ملک پاکستان عدم سے وجود میں آیا۔
لیکن اس ملک کے عدم سے وجود میں آنے کی داستان بہت ہی جگر خراش اور جاں گداز ہے ۔ چنانچہ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق پاکستان بنانے کے جرم میںہندوؤں نے انتہائی وحشیانہ طریقہ سے دس لاکھ مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا یا ، عورتوں اور بچوں کو گھروں کے اندر بند کرکے زندہ جلادیا گیا ، حاملہ عورتوں کو نیزوں سے چھیدکر اُنکے حمل گرادیئے گئے ،مسلمان عورتوں کو برہنہ کرکے اُن کے جلوس نکالے گئے ، نوجوان لڑکیوں سے زبردستی بدکاری کی گئی ، اُنہیں اُن کے رشتہ داروں کے سامنے موت کے گھاٹ اُتارا گیا، ہزاروں نوجوان عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگاکر خود کشی کرلی ، کئی مسلمان عورتیں ہندوؤں اور سکھوں کے ہھتے چڑھ گئیں اور وہ تمام زندگی اُن کی لونڈیاں بن کر اُن کی خدمت کرتی رہیں اور بے نکاحی اُن کے بچے جنتی رہیں ، ایسے سینکڑوں کنویں بعد ازاں دریافت ہوئے جو مسلمان عورتوں کی نعشوں سے اٹے پڑے تھے ، مشرقی پنجاب کے اکثر و بیشتر مقامات پر مسلمان عورتوں کو اکٹھا کرکے برہنہ سڑکوں اور گلیوں سے جلوس کی شکل میں گزارا گیا اور پھر اُن کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بعض کو کنوؤں میں اور بعض کو آگ کے الاؤ میں پھینکا گیا۔
ریاست ہائے پٹیالہ ، کپور تھلہ ، فرید کوٹ ، جنڈ اور نابھ میں آٹھ لاکھ تینتیس ہزار مسلمانوں میںسے تقریباً ستر اسی فی صد لوگوں کو بالکل ہی نیست و نابود کردیا گیا ، صرف پٹیالہ کے علاقہ میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا گیا ، اور کپور تھلہ کے علاقہ میں تو شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچا ہو؟۔
15/ ستمبر 1947 کو اردیسہ سے پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے ایک لاکھ کے قافلہ میں سے صرف چار ہزار مسلمان زندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکے ۔ ایک عینی شاہد کے مطابق 4سے 14/ ستمبر 1947ء تک نئی دہلی میں پچیس ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، نعشوں کو ٹرکوں میں بھر بھر کر وسط شہر میں لایا گیا اور پھر اُن پر پٹرول ڈال کر اُن کو جلا کر خاکستر کردیا گیا ۔
امرت سر کے ہال بازار میں برہنہ مسلمان لڑکیوں کا پورے شہر میں جلوس نکالا گیا ، پھر خیر الدین کی جامع مسجد میں آگ کے الاؤ سے بھڑکتے حوض کے پاس اُنہیں لے جایا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ: ’’ یہ ہے پاکستان کا راستہ !‘‘ چنانچہ پاکستان کی اِن زندہ دل اور غیور بیٹیوں نے اپنی عفت و عصمت کو بچانے کے لئے ایک دم سے اُس میں چھلانگیں لگادیں اور جاکر بھسم ہوگئیں۔
یہ تھی ایک ہلکی سی داستان اُن بانیانِ پاکستان کی کہ جو پاکستان کو اپنے خوابوں کی منزل اور خیالوں کا دیس سمجھ کر لٹے پٹے قافلوں ، اُجڑے بکھرے گھروں ،اور اپنے عزیز و اقارب کی لازوال و بے مثال قربانیوں کی صورت میں گرتے پڑتے کسی طرح یہاں پہنچ تو گئے تھے، لیکن ایک ٹھیٹھ اسلامی حکومت کا نقشہ انہیں یہاں دکھائی نہ دیا اور آج ستر سال کی تقریباً ایک پون صدی گزرجانے کے بعد بھی اُن کی دوسری اور پھر تیسری نسل کو بھی یہاں وہ اسلامی حکومت کا نقشہ دکھائی نہ دیا، بلکہ اربابِ اقتدار کے اُتار چڑھاؤ اور آئے دن حکومتوں کے نت نئے انقلابات نے اُن کی اِن لازوال و بے مثال قربانیوں اوراُن کے اِن نیک اور سچے خواب و خیالات کی حیثیت ایک لذیذ خواب سے زیادہ نہ چھوڑی ؎
بلبل ہمہ تن خون شد، وگل شد ہمہ تن چاک
اے وائے بہارے اگر ایں است بہارے
(ختم شد)