صداقت بہ مقابلہ حقیقت
شیئر کریں
زریں اختر
سچائیاں ازلی ،ابدی، کائناتی اور آفاقی ہوتی ہیں ۔ ان تک پہنچنا مشکل نہیں لیکن یہ ہر ایک کی پہنچ میں نہیں۔ ان کے مقابلے میں زمینی حقیقتیں دیو ہیکل ، غلیظ ، بدبو دار ، چپچپی ،کریہہ ، خوف ناک ، دہشت ناک ، ہولناک ؛ایسی ایسی شکلیں کہ الفاظ کم پڑ جائیں ، مترادفات جواب دے جائیں، کلمات ہانپنے لگیں اور لغات کا دم پھول جائے۔ بہ ظاہر لگتا ہے کہ یہ سچائیوں کو ہڑپ کرجاتی ہیں، لیکن نہیں ،سچائیاں اپنا وجود ہمیشہ برقرار رکھتی ہیں،دوبارہ ظاہر ہوتی ہیں،ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے، حقیقت کو بالآخر منہ چھپانا پڑتاہے اور منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ سچ صبر کرتاہے ، حقیقت اتائولی ہوتی ہے۔ حق اور حقیقت کی یہ کش مکش اپنی جگہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے ،کش مکش سچائی نہیں، سچائی نے مقابلے پہ آکے اس کش مکش کو جنم دیا ہے ، ورنہ حقیقت ہی حقیقت ہوتی اور سچائی کا کہیں وجود نہ ہوتا، جس طرح خوب صورتی کی پہچان بد صورتی ہے اسی طرح حقیقت کی پہچان صداقت ہے۔ سچائی خیر کا خمیر رکھتی ہے اور حقیقتیں شر کے خمیر سے گندھی ہوتی ہیں۔
سچائی کے بطن سے تہذیب ہویدا ہوتی ہے ۔ اس عمل میں اتنا وقت لگتاہے کہ جانو ایک نسل ، پھر تہذیب کے مقابل وہ حقیقت ہوتی ہے جو بوڑھی ،عمررسیدہ ہوچکی ہے ، اس کی کمر جھک گئی ، بال سفید ہوگئے ، آنکھوں میں موتیا اتر آیا ؛ سچائی کبھی سطحٰی نہیں ہوتی ، وہ ہمیشہ سے ہی جھک کر چلتی ہے اورجھک کر ملتی ہے ، شور سنتی ہے ، آہستہ بولتی ہے ،وہ بدبو میں اپنی ناک پر رومال نہیں رکھتی ، اس کی قسمت میں انتظار ہے ، وہ انتظار کرتی ہے ، وقت کے فیصلے کا ، وقت کا فیصلہ جو ہمیشہ سچ کے حق میں ہوتا ہے کیوں کہ بول بالا سچ کا ہی ہونا ہے، کبھی سنا حقیقت کا بول بالا؟
میری زندگی کی ایک بڑی سچائی جسے زمینی حقیقت کھاگئی لیکن سچ زندہ رہا،کبھی سسکتا،لرزتا ، کانپتا لیکن زندہ اور اٹل ، اٹل حقیقت سے زیادہ اٹل۔
خبر شائع کرنا یا نہ کرنے کا فیصلہ ، ابلاغیات کا ایک نظریہ دربان کا نظریہ(گیٹ کیپنگ تھیوری) ، عرصہ قبل میرے ایک سابق جامعہ کراچی فیلو جو ایک بڑے اخبار میں تعلیمی خبریں دیتے ہیںنے مجھے بتایا کہ” آپ کے شعبے کے صدر آپ کے خلاف خبر لگوا رہے تھے کہ یہ کلاسیں نہیں لیتیں ،تو میں (رپورٹر)نے ان سے کہا کہ نہیں نہیں ، وہ جامعہ میں ہمارے ساتھ رہی ہیں ، میں یہ خبر نہیں لگائوں گا”۔ یہ بات انہوں نے مجھے پریس کلب میں ایک اتفاقی ملاقات میںراز دارانہ انداز میں بتائی۔ یہ دربان کے نظریے پر عمل تھا جو جامعہ کے ہم مکتب نے کیا۔کس دماغ کے لوگ ہوتے ہیں جنہیں ایسے اعلیٰ خیالات سوجھتے ہیں؟ اگر کوئی استاد کلاسیں نہیں لے گا تو ادارے کی سطح پر کارروائی ہوگی یا خبریں لگیں گی، مخالف کی خبریں لگوانا ، ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنااور شخصیت بنانا بگاڑنا ؛ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیںہیں ؟
ایک دفعہ یہ ہوا کہ میری طبیعت خراب تھی اورمجھے پرچہ لینا تھا۔ میں نے اپنے بھائی کو فون کرکے بلایا کہ نو بجے سے پہلے وہ پرچہ شعبے میں پہنچادیں ۔ میرے بھائی مجھے ایک عرصے تک جامعہ چھوڑنے جاتے رہے ہیں او رصدر شعبہ بھی ان کو پہچانتے تھے، ان کو بھی میں نے میسیج کردیا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں اور بھائی کے ہاتھ پرچہ بمعہ فوٹو کاپی بھجوا رہی ہوں۔ میرے بھائی گھر سے پرچہ اور اس کی فوٹو کاپیاں لے گئے ،میں نے بھائی کو بتادیا کہ میں نے انہیں میسیج کردیا ہے۔ یونی پہنچ کر انہوں نے فون کیا کہ میں شعبے کے نیچے کھڑا ہوں اور خان صاحب آئے اور مجھے دیکھ کر اوپر چلے گئے ، کیا تم نے انہیں میسیج نہیں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ اوپر جا کر دے دیں، میرے بھائی کا میرے پاس دوبارہ فون آیا کہ وہ پرچہ نہیں لے رہے اور کہہ رہے ہیں کہ وہ خود آئیں۔ اب میں کیا کرتی ؟ میں نے ان سے کہا کہ آپ بنڈل ان کی میز پر رکھ دیں اور کہیں کہ وہ آرہی ہیں۔ مجھے الٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ میں شعبے میں سیدھی صدرِ شعبہ کے کمرے میں پہنچی اور کہا کہ اگر مجھے الٹی ہوئی اور باتھ روم تک نہیں پہنچ سکی تو یہیں آپ کے کمرے میں کردوں گی۔ ان کی دوست آئیں او ر کچھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن یہ سب ناقابل ِ فہم اور غیر انسانی روّیے ناقابل ِ برداشت تھے، اس وقت میں ان کی بات سننے کی ذہنی و جسمانی کیفیت میں نہیں تھی اور غصے میں کمرے سے باہر نکل گئی۔ ان کی یہ دوست خان صاحب کو دوستی میں ”کمینہ ” کہتی تھیں ، میں نے ہمیشہ ان کی دوستی کو قدر کی نظر سے دیکھا۔
وہ شعبے میں ابتدائی دن تھے ۔ ”جاننے کا حق ” کانفرنس ہوئی ۔ خان صاحب نے اس کی روداد لکھنے کا کام میرے سپرد کیا۔ میںاپنی امی کے گھر سے اپنے بھائی کا ٹیپ ریکارڈر یونی لے کر گئی اور ایک ایک جملہ سن سن کر براہِ راست ان پیج پر ٹائپ کرنے کا کام شروع کیا۔ روداد چھپ گئی ۔ عرصہ گزر گیا۔اب ہم اپنے اپنے اصل چہروں کے ساتھ مدّ ِ مقابل آچکے تھے ۔ ایک او رکانفرنس ہوئی جس میں ہمیں پیچھے رکھا گیا۔ لیکن خان صاحب کی حدیں وہ ہی جانیں۔ انہوں نے ایک اجلاس میںمعروف صحافی حسین نقی سے روسٹرم پہ یہ کہلوایا کہ اب اس کانفرنس کی جو روداد چھاپیں تو اس میں پروف ریڈنگ کی غلطیاں نہیں ہونی چاہئیں،جیسی پچھلی کانفرنس کی روداد میں تھیں، ہم نے دیکھا کہ اسٹیج پر موجود دیگر مہمانوں کے ساتھ موجود خان صاحب نقی صاحب کی بات پر اثبات میں سر ہلارہے ہیں ۔ میں حیران رہ گئی، اس کانفرنس میں اس پچھلی روداد کا تذکرہ نقی صاحب کو ان معنوں میں کیسے یاد رہ سکتاہے؟ اور وہ بھی تو شعبے کا ہی کام تھا ، میں اتنی دل برداشتہ ہوئی کہ کانفرنس سے اٹھ کر گھر آگئی ۔ اب مجھ پر وہ بری ذہنی کیفیت نہیں آتی جو پہلے آتی تھی کہ میں فوری طور پر کسی سے بات کرنا چاہتی تھی ۔ میں نے گھر آکر جامعہ کراچی کے اپنے استاد ڈاکٹر طاہر مسعود کو فون کیا کہ کیا آپ کے ذہن میں ایسا کوئی تاثرہے اس روداد کے حوالے سے کہ اس میں املا کی غلطیاں تھیں ؟ انہوں نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
خان صاحب کو اندازہ ہوگا کہ تحقیق میں میرا جھکائو ڈاکٹر نثار احمد زبیری کی طرف تھا ۔ ایک دن فرما رہے ہیں کہ زبیری صاحب نے انہیں کانفرنس کے انعقاد پر مبار ک باد دی او رکہا کہ یہ موضوعات آپ کے ذہن میں کیسے آتے ہیں مثلاََ ”مدیر کا ادارہ”، حالاں کہ اس موضوع پر ڈان میں بہت کچھ لکھا گیا، مطلب یہ کہ زبیری صاحب ڈان اخبار نہیں پڑھتے اور یہ خیال ان کے لیے نیاتھا۔