سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے امتحانی بورڈز کا نظام درہم برہم کردیا
شیئر کریں
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے امتحانی بورڈز کا نظام درہم برہم کردیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت کے اختتام پر صوبے کے امتحانی بورڈز کو بدترین انتظامی صورتحال میں چھوڑ کر جارہی ہے، سندھ حکومت کی 5 سالہ حکومت کا یہ آخری مہینہ ہے اور متعلقہ وزارت یونیورسٹیز اینڈ بورڈز نے ان پانچ برس میں صوبے کے تعلیمی بورڈز میں ایڈہاک ازم کو ختم کرنے کے بجائے اسے باقاعدہ فروغ دیا ہے۔ایک ایک چیئرمین بورڈ کے پاس بیک وقت دو دو امتحانی بورڈز کے چارج ہیں جبکہ دو امتحانی بورڈز کا چارج رکھنے والے کچھ چیئرمین ایسے ہیں جو کسی ایک بورڈ میں بھی ریگولر نہیں ہیں۔ یہی صورتحال سیکریٹری بورڈ، ناظمین امتحانات اور اب آڈٹ آفیسر تک آچکی ہے جس سے انتظامی سطح پر تعلیمی بورڈز بدترین بحرانوں کا شکار ہیں اور یہ بحران انتظامی کے ساتھ ساتھ مسلسل بورڈز کی امتحانی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ حکومتی حلقے بھی اب بورڈ کے امتحانات اور نتائج پر اعتماد نہیں کرتے جس کے سبب خود سندھ حکومت نے اس بار انٹر اور میٹرک کے امتحانات کو آؤٹ سورس کرنے کی کوشش کی ہے۔چونکہ قانون میں اس عمل کی گنجائش نہیں تھی لہذا یہ ممکن نہیں ہوسکا تاہم متعلقہ وزارت بورڈز میں اچھائی یا بہتری کے لیے کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ دور حکومت کے اوائل میں سندھ میں امتحانی بورڈ کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سندھ کے پاس ہوتی تھی اور گورنر سیکریٹریٹ سے ہی امتحانی بورڈز کو کنٹرول کیا جاتا تھا تاہم گزشتہ دور میں ہی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے ایک ترمیمی بل کے ذریعے امتحانی بورڈ کی کنٹرولنگ اتھارٹی گورنر سندھ سے وزیراعلیٰ سندھ کو منتقل کردی جس کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس سے امتحانی بورڈ کنٹرول ہوتے رہے تاہم اسے ایک علیحدہ وزارت کا درجہ دے کر پہلے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈ قائم کیا گیا۔بعد ازاں بعض بااثر سیاسی حلقوں کی جانب سے دباؤ کے سبب وزیراعلیٰ سندھ موجودہ دور حکومت میں ہی تعلیمی بورڈز کی کنٹرولنگ اتھارٹی سے دست بردار ہوگئے اور تعلیمی بورڈ کا مکمل انتظامی کنٹرول محکمہ کے وزیر اسماعیل راہو کے حوالے کردیا گیا جہاں سے صورتحال میں مسلسل ابتری آتی رہی۔ان کے وزیر بننے سے قبل سابق وزیراعلیٰ سندھ کی منظوری سے سابقہ سرچ کمیٹی نے اشتہار اور انٹرویوز کے بعد چیئرمین بورڈ کی اسامیوں کے لیے 15 امیدواروں کے ناموں کو شارٹ لسٹ کیا لیکن ان کی سمری روک لی گئی اور شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں میں سے کسی کو بھی مستقل چیئرمین بورڈ تعینات ہی نہیں کیا گیا اور تقرری کے لیے کی گئی پوری ایکسرسائز کو ضائع کردیا گیا اور بورڈز کو ایڈہاک ازم سے نکالنے کے بجائے اسی عارضی نظام کے تحت چلایا جاتا رہا۔سیکریٹری یونیورسٹی اینڈ بورڈ مرید راہموں نے بورڈ افسران کو ہی نالائق قراردیتے ہوئے انہیں قصوروار ٹھہرایا۔مرید راہموں کا کہنا تھا کہ ’’بورڈ افسران صرف پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں باہر سے کسی اہل افسر کو بورڈ میں تعینات نہیں ہونے دیتے ، اگر تعینات کردو تو کمائے گئے پیسے کی بنیاد پر بھاری فیسوں والے وکیل کرتے ہیں اور کورٹ سے حکم امتناع لے کر بیٹھ جاتے ہیں جس سے سارا نظام مفلوج ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ایک عرصے بعد عدالت نے ہمیں بورڈ میں چیئرمین کی بھرتیوں کی اجازت دی ہے ہم نے سمری بھجوادی ہے جب منظور ہوگی اشتہار جاری کردیں گے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کا کوئی ملازم افسر بیک وقت پراونشل پوسٹ پر کام نہیں کرسکتا لہذا انٹر بورڈ کراچی کے چیئرمین جیسے ہی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی جوائننگ جمع کرائیں گے ان کی جگہ دوسرے کسی افسر کو چارج دیا جائے گا ہمیں کسی اہل افسر کی تلاش ہے‘‘۔