راہل گاندھی :ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راہل گاندھی کو ’مودی سرنیم‘ ہتک عزت کیس میں گجرات ہائی کورٹ سے راحت نہ ملناتوقع کے عین مطابق تھا ۔ نچلی عدالت نے انہیں زیادہ سے زیادہ دوسال کی سزا سنائی تاکہ پارلیمانی رکنیت کو ختم کیا جاسکے ۔ اِ دھر یہ فیصلہ آیا اُدھر اسپیکر کے دفتر سے ان کی رکنیت منسوخ ہوگئی اور ہفتے کے اندر گھر خالی کروالیا گیا۔ اس کے برعکس مہاراشٹر سے بی جے پی کی حامی آزاد رکن پارلیمان نونیت راناپر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے انتخابی حلف نامہ میں ذات سے متعلق فرضی سرٹیفکیٹ دیا تھا۔ اس فرضی سرٹیفکیٹ کے خلاف شیوسینا کے سابق رکن پارلیمان آنندراؤ اڈسول اور سنیل بھالے راؤ نے شکایت درج کرائی ۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے جون 2021 میں نونیت رانا کا ذات سرٹیفکیٹ رد کر دیا تھا اور ان کے اوپر دو لاکھ روپے کا جرمانہ بھی لگایا ۔ اس معاملے کو دو سال ہوگیا اس فیصلے کے خلاف ان کی عرضی بھی خارج ہوگئی مگر ہنوز رکنیت بحال ہے کیونکہ وہ مودی سرکار کی حامی ہیں ۔ رانا سرکار کی حمایت میں ایوان کے اندر بھجن گاتی ہیں اور سڑک پر ہنومان چالیسا پڑھتی ہیں اس لیے ہر کارروائی سے محفوظ مامون ہے ۔ نونیت رانا اور راہل گاندھی کے درمیان جس تفریق و امتیاز کا مظاہرہ کیا گیا اس کی مثال ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملے گی۔
عوامی نمائندگی ایکٹ 1951 کے مطابق اگر کسی شخص کے خلاف ایسے معاملات میں دو سال کی سزا سنائی جاتی ہے تو وہ شخص پارلیمان اور اسمبلی کی رکنیت سے محروم ہو جاتا ہے اپنی سزا کی تکمیل کے بعد چھ سال تک الیکشن لڑنے نہیں لڑسکتا۔اس لیے راہل گاندھی کو انصاف کی آخری امید سپریم کورٹ سے ہے جہاں اس فیصلے کو چیلنج کیاجائے گا۔ وہاں بھی اگر سزا پر روک نہیں لگائی گئی توراہل آئندہ الیکشن نہیں لڑ سکیں گے لیکن اگر ان کی والدہ سونیا گاندھی دس سال تک وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے بغیرحکومت کرسکتی ہیں تو راہل کے لیے کیا مشکل ہے ؟ گجرات ہائی کورٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کی سزا کا حکم مناسب ہے ۔ ظاہر اربابِ اقتدار کی مرضی کے مطابق کیے جانے والے فیصلے کی خلاف ورزی سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ کیسے کرسکتی ہے ؟ عدالت نے مذکورہ حکم میں مداخلت کی ضرورت محسوس نہیں کی اور اس کے خلاف جو عرضی داخل کی گئی تھی اسے خارج کردیا ۔
سپریم کورٹ کے وکیل راکیش کمار سنہا کے مطابق یہ فیصلہ سزا کو معطل کرنے کی درخواست پر سنایا گیا ہے جبکہ سزا کو منسوخ کرنے کی درخواست عدالت میں زیر التوا ہے ۔ ان کے خیال میں عدالت کی جانب سے راہل کے خلاف دس مقدمات کے درج ہونے کی دلیل دینا ناقابل فہم ہے ۔ عدالت کو اس معاملے میں میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ دینا چاہیے تھا۔اُنہوں نے کہا کہ اس سے قبل ہتک عزت کے کسی بھی معاملے میں اتنی سزا نہیں سنائی گئی۔ عدالتیں ایسے معاملات میں وراننگ دے کر معاملہ ختم کر دیتی ہیں۔ یہ پہلی بار ہوا کہ ہتک عزت کے معاملے میں سب سے زیادہ دو سال کی سزا سنائی گئی۔ہائی کورٹ کی یہ نہایت احمقانہ دلیل ہے راہل گاندھی کے خلاف کم از کم 10 مجرمانہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ بی جے پی والے چاہیں تو کسی کے خلاف دس کیا دس ہزار مقدمات درج کروادیں ۔ اعظم خان کو پابندِ سلاسل رکھنے کے لیے ان کے خلاف سو مقدمات دائر کیے گئے لیکن سب میں انہیں ضمانت مل گئی اور یوگی سرکار کو منہ کی کھانی پڑی ۔
جج صاحب کو افسوس ہے کہ راہل نے ونایک دامود ساورکر بھی توہین کی حالانکہ اپنی تضحیک کا انتظام تو خود معافی سمراٹ نے بار بار معافی مانگ کرکیا۔ زندگی بھر انگریزوں کی اطاعت و فرمانبرداری کا وعدہ کرکے ساورکر نے خود اپنی مٹی پلید کروالی۔ اس لیے کسی اور کو توہین کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ بات جب یاد دلائی جاتی ہے تو ان لوگوں کو شرم آتی ہے جسے یہ تو ہین کہتے ہیں ۔ یہ لوگ چاہتے ہیں ساری دنیا ساورکر کی طرح بزدل ہوجائے اور معافی مانگتی پھرے ورنہ انہیں عار محسوس ہوتی ہے ۔اس کا اظہار سینئر بی جے پی رہنما اور سابق مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے یہ کہہ کر کیا کہ راہل گاندھی دوسروں کی ہتک کرکے معافی مانگنے کے بجائے غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔یہ بزدلی کا کھلا اعتراف ہے ۔ گجرات ہائی کورٹ نے یہ احمقانہ دلیل بھی دی کہ نچلی عدالت کے فیصلے کو بدلنے سے عوام کا اعتماد عدلیہ میں سے ختم ہوجائے گا۔ اس بات کو اگر درست مان لیا جائے تب تو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کو قفل لگا دینا چاہیے اور مذکورہ جج صاحب کا بوریا بستر گول کرکے انہیں گھر بھیج دینا جانا چاہیے ۔ اس لیے کہ وہاں وہی لوگ جاتے ہیں جنہیں نچلی عدالت سے انصاف نہیں ملتا۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ نچلی نہ سہی اوپری عدالت میں ان کے ساتھ انصاف ہوگا۔ عدالت عالیہ یا عظمیٰ کے اندر جب کبھی فیصلہ بدلتا ہے اس سے عوام کا اعتماد بڑھتا ہے اس لیے سرکار کی تابعداری میں جج صاحب کو اس حد تک گرکر عدالت کے ساتھ ساتھ اپنا وقار خاک میں ملانا چاہیے ۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گجرات ماڈل کا کمال ہے ۔ ایک زمانے میں اس نمونے کا بڑا چرچا تھا ۔ لوگ چونکہ اس سے واقف نہیں تھے اس لیے بڑی خوش فہمیوں کا شکار تھے لیکن اب پتہ چلا کہ یہ تو ‘‘ اندھی نگری چوپٹ راج’’ کا دوسرا نام ہے ۔ بلقیس بانو سے لے کر راہل گاندھی تک آنے والے مختلف فیصلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہی نہیں کہ یہ صوبہ ہندوستان کے اندر ہے ۔ ایسا بھی نہیں ہے عدالتوں کے سارے فیصلے مبنی بر انصاف ہوتے ہیں لیکن گجرات میں تو بھول چوک سے بھی کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوتا خاص طور پر اس وقت جبکہ اصحاب اقتدار یا ان کے مخالفین اس میں ملوث ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ گجرات فساد کے بعد بیشتر مقدمات کو مہاراشٹر میں منتقل کردیا گیا تھا۔ بلقیس بانو کا معاملہ اگر مہاراشٹر کے بجائے گجرات میں چلتا تو اس کا حشر بھی ذکیہ جعفری کیس کی طرح ہوتا ۔ گجرات ماڈل کے مودی جی کی مہربانی سے اسپریم کورٹ نے بھی اس ناانصافی پر مہر ثبت کردی۔ پچھلے دنوں تیستاستلواد کا قضیہ نے ہوا کا رخ بتا دیا تھا کہ اس ہفتے وہی ہائی کورٹ راہل گاندھی کے مقدمہ میں کیا فیصلہ کرے گا؟
معروف سماجی جہد کار تیستا سیتلواد گزشتہ ستمبر سے عبوری ضمانت پر ہیں۔پچھلے ہفتے اچانک گجرات ہائیکورٹ نے ان کی باقاعدہ درخواستِ ضمانت مسترد کرکے انہیں فوراً خودسپردگی کاحکم دے دیااور گرفتاری کی تلوار سر پر لٹکا دی گئی۔ اس زیادتی کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیاتو اس نے رات دس بجے مذکورہ ظالمانہ حکم پر عمل آوری کو ایک ہفتہ کے لیے معطل کرتے ہوئے ضمانت کو برقرار رکھتے ہوئے
کہا کہ گجرات ہائیکورٹ کی واحد رکنی بنچ کے فاضل جج نے ضمانت کوتو منسوخ کیا مگر درخواست گزار کو اسے چیلنج کرنے کے لیے وقت نہیں دیا۔ یونیفارم سیول کوڈ میں مسلم خواتین کو انصاف دلانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت کا تیستا سیتلواد جیسی جہد کار کے ساتھ یہ معاملہ ہے ۔ اس نے احسان جعفری اور بلقیس بانو پر ظلم کرنے والوں کے ساتھ کیا کیا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے اس لیے مودی سرکار کی زبان پر عدل و انصاف کا ذکر ایک لطیفہ لگتا ہے ۔
راہل گاندھی کے خلاف دیئے جانے والے سورت کی ادنیٰ اور احمد آباد کے اعلیٰ عدالتی فیصلے کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔ان کی پیروی کرنے والے معروف وکیل منو سنگھوی کو بھی یقین رہا ہوگا کہ فیصلہ یہی ہوگا لیکن اگر وہ براہِ راست عدالتِ عظمیٰ میں جاتے تو وہ انہیں ہائی کورٹ جانے کی تلقین کرتے اس لیے ایک رسم کی ادائیگی کے لیے وہ عدالتِ عالیہ میں پہنچے تاکہ سپریم کورٹ کی راہ کھل سکے ۔ معروف وکیل ابھشیک منو سنگھوی نے اس ناعاقبت اندیش فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ راہل گاندھی معاملہ پر گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ مایوس کن ضرور ہے ، لیکن یہ غیر متوقع نہیں۔ ان کے مطابق ‘‘اس فیصلہ کا انتظار ہم 66 دنوں سے کر رہے تھے ۔ یہ اپیل 25 اپریل کو فائل کی گئی تھی۔
ابھشیک منو سنگھوی نے عدالت سے سوال کیا تھا کہ عرضی دہندہ اور شکایت کرنے والا خود ہتک عزتی کا شکار کیسے ہوا؟ تو اس کا آج تک جواب نہیں ملا اور آگے بھی نہیں ملے گا کیونکہ آدرش گجرات میں عدلیہ کو سولی چڑھایا جاچکا ہے ۔سنگھوی کے مطابق ہتک عزتی قانون کا غلط استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود راہل گاندھی ڈرنے والے نہیں ہیں۔ کانگریس رہنما نے کہا کہ ‘‘ان پر (راہل گاندھی پر) کتنا بھی حملہ ہو، جیل کے نام سے کتنا بھی ڈرایا جائے ، مجھے نہیں لگتا کہ راہل اس سے خوفزدہ ہونے والے ہیں۔ راہل گاندھی سچائی پر بے خوف ہو کر چلنے والے مسافر ہیں۔ وہ بی جے پی کے جھوٹ کا پردہ فاش کرتے رہیں گے ۔ جھوٹ کا پردہ فاش ہونے کی وجہ سے ہی حکومت گھبرائی رہتی ہے۔ ’’ سچ یہی ہے راہل گاندھی کے عزم و استقلال سے بی جے پی ڈر گئی ہے اور گبر سنگھ تو پہلے ہی کہہ چکا ہے ’’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘‘۔ راہل گاندھی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کوجیل کا ڈر دکھا کر روکا نہیں جاسکتا۔ان پر تو مجروح سلطانپوری کا یہ شعر صادق آتا ہے
روک سکتا ہمیں زندان بلا کیا مجروحؔ
ہم تو آواز ہیں دیوار سے چھن جاتے ہیں